تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     05-11-2020

واپس تو کوئی آیا نہیں!

بینک نے خاتون سے شوہر کا شناختی کارڈ مانگا۔
شوہر کو دنیا سے گئے اکیس سال ہو چکے تھے۔ اکیس سال پہلے جب بیوہ خاتون نے فیملی پنشن کے لیے بینک میں اکاؤنٹ کھولا تھا تو بینک کو مرحوم شوہر کے شناختی کارڈ کی نقل فراہم کی تھی۔ ظاہر ہے وہ نقل بینک کے ریکارڈ میں موجود تھی‘ مگر بینک کے تن آسان اہلکار نے نقل خاتون ہی سے مانگی۔ وہ تو اتفاق تھاکہ خاتون کو مرحوم میاں کا شناختی کارڈ مل گیا۔ اس کے باوجود بینک نے اس کا اکاؤنٹ بلاک کر دیا۔ بینکوں کا اب یہ وتیرہ عام ہو گیا ہے کہ ہر غلط کام کی ذمہ داری ہیڈ آفس پر ڈال دیتے ہیں۔ ہیڈ آفس سے کون تصدیق کرے۔ خاتون کے عزیزوں نے بینک منیجر سے بات کی، اس نے نیچے والوں پر ذمہ داری ڈالی۔ نیچے والوں نے کہا کہ یہ سب کچھ تو ہیڈ آفس نے کیا ہے۔ بہرطور منیجر نے تسلیم کر لیا کہ غلطی ہوئی ہے۔ اکاؤنٹ بلا وجہ بلاک ہونے سے معمر خاتون کو بے حد تکلیف ہوئی تھی۔
ایسے واقعات آئے دن پیش آتے ہیں۔ اکثر لوگ بینک منیجر سے بات نہیں کرتے یا نہیں کر سکتے۔ نہ ہی انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو ریکارڈ مانگا جا رہا ہے وہ ادارے کے پاس پہلے سے موجود ہے۔ اگر موجود نہیں تو اکیس برس سے پنشن کیسے دے رہے تھے؟ اصل وجہ اس قسم کے واقعات کی کیا ہے؟ اصل وجہ یہ ہے کہ ہم میں سے جو جہاں بیٹھا ہے، سہولت کار کی حیثیت سے نہیں، معترض کے طور پر بیٹھا ہے۔ یہی بینک اگر کسی مغربی ملک میں ہوتا تو زیادہ امکان یہ تھا کہ بینک شناختی کارڈ کی نقل اپنے ریکارڈ ہی میں تلاش کر لیتا۔ اگر مجبوراً اکاؤنٹ بلاک کرنا بھی پڑتا تو پہلے فون کرکے پورے معاملے کی وضاحت کرتا اور ساتھ ہی مسئلے کا حل بھی بتاتا۔ ہمارا کلچر بالکل مختلف ہے۔ ہم انکار کرکے، اعتراض کرکے، کلائنٹ کو ناکام واپس کرکے ایک قسم کی طمانیت محسوس کرتے اور یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ ہم روڑے اٹکانے کے اور کام کو لٹکانے کے ماہر ہیں۔ ہم میں سے اکثر نفسیاتی طور پر غیر صحت مند ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر فوراً کام کر دیا تو ہماری اہمیت کم ہو جائے گی! جتنا کسی کو پریشان کر سکتے ہیں، جتنے پھیرے ڈلوا سکتے ہیں، اتنا ہی اپنے آپ کو بڑا محسوس کرتے ہیں۔
ایک مغربی ملک میں ایک بار ایک سٹور کی ویب سائٹ پر ایک نکٹائی پسند آئی۔ کوالٹی اچھی تھی‘ قیمت مناسب۔ سٹور پر جا کر انہیں ویب سائٹ پر نکٹائی دکھائی اور بتایا کہ یہ خریدنی ہے۔ انہوں نے معذرت کی کہ یہ تو سٹاک میں نہیں ہے، ختم ہو گئی ہے۔ جواب میں صرف اتنا کہا کہ ہم تو ویب سائٹ دیکھ کر آئے ہیں اور ویب سائٹ پر یہ اب بھی موجود ہے۔ یہ سن کر متعلقہ سیلزمین نے کہاکہ آپ کوئی اور نکٹائی پسند کیجیے، ہم آپ کو اسی قیمت پر دیں گے جو آپ کی چنی ہوئی ٹائی کی تھی۔ اپنے ہاں تجربے اس کے برعکس ہیں۔ وفاقی دارالحکومت کے ایک بڑے اور معروف مال میں ایک دکان پر، پوتی کے لیے کچھ لباس پسند کیے۔ سیلز مین نے قیمت بتائی۔ جب کاؤنٹر پر وہ رسید کاٹ رہا تھا تو اس کا سینئر آ گیا۔ اس نے کہا کہ یہ قیمت درست نہیں، اصل قیمت زیادہ ہے کیونکہ غلطی سے یہ ملبوسات اُس شو کیس میں رکھے گئے تھے جہاں کم قیمت والا مال پڑا ہے۔ غلطی ان کی اپنی تھی۔ اصولی طور پر اسے اپنے رفیق کار کی بتائی ہوئی قیمت کا احترام کرنا چاہیے تھا‘ مگر نہیں! اس نے آئٹم اٹھا کر واپس شو کیس میں رکھ لیے۔ ایک وجہ شاید اس رویّے کی یہ ہو کہ مالک یہاں سیلز مین کو اختیارات نہیں دیتا؛ تاہم ایذا پسندی (Sadism) کے فیکٹر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
ایسا بھی نہیں کہ یہ رویہ نجی شعبے میں ہے اور گورنمنٹ سیکٹر میں نہیں۔ دونوں طرف یہی حال ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ پاکستان میں نجی شعبے کی کارکردگی سرکاری شعبے سے بہتر تھی۔ رویّہ بھی کم تکلیف دہ تھا بلکہ اچھا خاصا ہمدردانہ اور مددگار تھا۔ کارکردگی بھی بہتر تھی‘ مگر اب معاملہ نجی شعبے میں بھی افسوس ناک ہو چکا ہے۔ سرخ فیتہ، ٹال مٹول، منفی اپروچ یہاں بھی عام ہو چکی ہے۔ ہاں ایک فرق اس کالم نگار نے جو محسوس کیا ہے، شاید قارئین بھی اس سے اتفاق کریں! نجی شعبے میں نچلی سطح پر درشتی، کھردرا پن، لاپروائی، بے نیازی اور بعض اوقات سفاکی کی حد تک عدم تعاون زیادہ پایا جاتا ہے۔ جیسے جیسے اوپر جائیں، توجہ اور تعاون بڑھتا جاتا ہے۔ جب بھی کسی پرائیویٹ کمپنی، یا برانڈ، یا سروس سیکٹر کے کسی نجی ادارے میں کوئی مشکل پڑی اور مالک، یا سینئر سطح کے کسی ایگزیکٹو تک مسئلہ پہنچایا تو رد عمل خوش گوار ثابت ہوا۔ فوری ایکشن لیا گیا۔ مالک نے شکایت کنندہ کو فون کرنے میں، رابطہ کرنے میں یا میل کا جواب دینے میں کوئی ہچکچاہٹ کی نہ تاخیر! (نہ جانے اس کی کیا وجہ ہے کہ نچلی سطح پر نجی شعبے میں اہلکار سخت اور لاپروا کیوں ہیں؟) اس کے برعکس سرکاری شعبے میں جوں جوں اوپر جائیں، ہوا سرد اور موسم اذیت رساں ہوتا جاتا ہے۔ اعلیٰ افسر سول سروس کے ہیں یا دوسرے کیڈرز کے، اکثر و بیشتر بات تک کرنے کے روادار نہیں۔ فون کا جواب نہیں دیں گے۔ ای میل یا مراسلہ بھیجیں تو بے اثر! عوام کے ساتھ ہمدردی عنقا ہے۔ احساس ذمہ داری ندارد۔ پروٹوکول کا خبط! فون پر پہلے کیوں لیا؟ بغیر پوچھے اندر کیوں آئے؟ appointment کیوں نہیں لی؟ پہلے نیچے بات کریں! اس قسم کی نزاکتوں نے سائل اور فائل دونوں کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ہاں مستثنیات موجود ہیں۔ ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں۔
خدا کے بندو! خدا کی مخلوق کے لیے تکلیف کا باعث نہ بنو! لوگوں کو آرام پہنچاؤ۔ ان کی پریشانیوں میں کمی نہیں کر سکتے تو اضافہ بھی نہ کرو۔ کسی کا کام کرنے کے لیے اگر تمہیں اپنی کرسی سے اٹھنا پڑے، کہیں فون کرنا پڑے، کسی سے التماس کرنی پڑے، اپنا وقت خرچ کرنا پڑے تو اس میں سستی، انا یا مصلحت کو آڑے نہ آنے دو۔ تم جہاں بھی بیٹھے ہو، یاد رکھو، وہاں ہمیشہ نہیں بیٹھے رہو گے۔ تم سیلز مین ہو یا بینک کے اہلکار، نجی شعبے میں ہو یا سرکاری سیکٹر میں، افسر ہو یا کلرک، جو بھی ہو، چند دنوں یا چند ہفتوں یا چند مہینوں یا چند سالوں کے لیے یا کیا عجب چند گھنٹوں کے لیے ہو۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ برج الٹنے میں دیر نہیں لگتی۔ کیا تمہارے سامنے بڑے بڑے کھڑپینچ، بڑے بڑے طاقت ور، بڑے بڑے بلند آوازوں اور اونچے روابط والے وی آئی پی، دھڑام سے نیچے نہیں گر رہے؟ کیا تم نہیں جانتے کہ با اختیار کو سائل بننے میں دیر نہیں لگتی؟ کبھی کبھی یہ گمان ہوتا ہے کہ جو بیواؤں اور یتیموں کے لیے تردد نہیں کرتے اور ان کی مدد کے لیے ذرا سا بھی Out of the way نہیں جاتے، کیا عجب، کل ان کے مرنے کے بعد جب ان کی بیوائیں اور بچے دھکے کھا رہے ہوں گے تو ان کی یہ قابل رحم حالت، خدا انہیں دکھائے گا۔ تب وہ سینوں پر دو ہتھڑ ماریں گے، ہاتھوں کو دانتوں سے کاٹ کر لہو لہان کریں گے مگر کر کچھ نہیں سکیں گے۔ کیا خبر مرنے کے بعد انسان کو کیسے کیسے سبق کس کس طرح سکھائے جائیں گے۔ تصور ہی کر سکتے ہیں۔ واپس تو کوئی آیا نہیں کہ وہاں کا احوال بتائے!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved