پیر کے روز لاہور کی احتساب عدالت میں مریم نواز نے اپنے چچا شہباز شریف اور کزن حمزہ شہباز سے ملاقات کی اور کہا کہ ش اور م لیگ کی باتیں کرنے والوں کو پیغام مل گیا ہے کہ شریف خاندان ایک ہے۔ عدالت میں منی لانڈرنگ ریفرنس کی سماعت کے لئے سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز کو بکتر بند گاڑی میں لایا گیا۔ اس موقع پر مریم نواز بھی اچانک اپنے چچا شہباز شریف اور کزن سے ملاقات کے لئے وہاں پہنچ گئیں۔ مریم نواز کمرہ عدالت میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز سے گلے ملیں اور شہباز شریف سے گفتگو بھی کی۔ مریم نے اپنے چچا اور کزن کو بکتر بند گاڑی میں لانے کی مذمت کی اور واضح کیا کہ اُن کا خاندان ایک ہے اور ایک رہے گا ''ش اور م لیگ کی باتیں کرنے والے دیکھ لیں ہم اکٹھے ہیں اور اکٹھے رہیں گے۔ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے ساتھ ہونے والا سلوک انتقامی سوچ کی عکاسی ہے‘‘ مریم نواز نے حمزہ شہباز کو تھپکی دی اور کہا ''اگلا سال الیکشن کا سال ہو گا‘ حکومت جمہوری قیادت سے خوفزدہ ہے، حکومت جو معیار سیٹ کر رہی، اسے وہ بھگتنا پڑے گا‘‘۔
مریم نواز کی یہ آمد واقعی اچانک تھی یا اس کے پیچھے بھی کوئی ایجنڈا تھا۔ ''واقفان حال‘‘ کے مطابق مریم نواز اپنے والد میاں نواز شریف کی ہدایت پر وہاں پہنچیں اور دونوں بھائیوں کی اپنے موبائل فون کے ذریعے بات بھی کروائی۔ اس سارے ایپی سوڈ کا مقصد شریف خاندان میں کسی بھی قسم کے اختلافات کی قیاس آرائیوں کو ختم کرنا اور اپنے کارکنوں کے مورال کو بہتر کرنا تھا۔
مسلم لیگ ن اپنی تاریخ کے ایک اہم موڑ پہ کھڑی ہے۔ اپنی سیاست میں ایک نئے بیانیے کے جھنڈے تلے اپنی بقا کی جنگ لڑنے کے ساتھ ساتھ شریف خاندان کو اندرون خانہ بھی ایک نیا محاذ سر کرنا ہے۔ مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف لندن میں بیٹھ کر ایک بار پھر پاکستانی سیاست میں پوری طرح ان ہو چکے ہیں۔ پانامہ سکینڈل اور اس کے بعد العزیزیہ اور ایون فیلڈ کیسز‘ میاں نواز شریف کا جیل جانا اور پھر ان کی بیماری کا اس قدر بڑھ جانا کہ وزیر اعظم عمران خان کا بھی انہیں علاج کے لئے لندن بھجوانے کی اجازت دینا‘ اپنے اندر بہت سے راز اور کہانیاں سمیٹے ہوئے ہے۔
میاں نواز شریف کے نااہل ہونے اور ملک کے طاقتور حلقوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے اختلافات کے بعد سیاسی پنڈت ایک بار پھر مسلم لیگ ن میں تقسیم کی بات کرنے لگے۔ یہ بھی کہا جانے لگا کہ سابق وزیر اعلی پنجاب اور میاں نواز شریف کے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف مسلم لیگ کی قیادت سنبھال لیں گے۔ شیخ رشید سمیت حکومتی وزرا کی اکثر پریس کانفرنسز میں بھی اسی طرح کے دعوے کئے گئے‘ یعنی ن میں سے ش کا ظہور‘ لیکن کیا یہ صرف ایک پروپیگنڈا ہے یا ان دعووں کا حقیقت سے کوئی تعلق بھی ہے؟
یہ بات مسلم لیگ ن کی داخلی سیاست پر نظر رکھنے والے اچھی طرح سے جانتے ہیں اس میں گڈ کاپ بیڈ کاپ کی پالیسی دراصل نواز شریف کی پالیسی ہے۔ سابق وزیراعظم ہمیشہ سے اسی پالیسی پر کاربند رہے۔ سیاسی لحاظ سے یہی ایک حقیقت ہے اور اسی پالیسی نے اس مفروضے کو جنم دیا کہ مسلم لیگ ن کے اندر اختلاف موجود ہے‘ جس کا لازمی نتیجہ اس جماعت کی تقسیم کی صورت میں سامنے آئے گا‘ لیکن اس مفروضے میں ایک جھول بھی ہے۔ گڈ کاپ بیڈ کاپ کی پالیسی ایک بہت سوچا سمجھا سیاسی فیصلہ تھا جس کا فائدہ مسلم لیگ ن تقریباً دو دہائیوں تک بھرپور انداز میں اٹھاتی رہی ہے اور شاید مسلم لیگ ن کی آئندہ آنے والی قیادت کی سیاسی تربیت بھی انہی خطوط پر ہوئی ہے ۔
شہباز شریف کے بیانیے کی جب تک ضرورت تھی تب تک اسے بھرپور انداز میں استعمال کیا گیا اور اب جبکہ سیاست ایک جارحانہ بیانئے کی متقاضی تھی تو اسے اپنا لیا گیا ہے ۔
مسلم لیگ ن کی مستقبل کی قیادت کا فیصلہ بھی اسی گڈ کاپ بیڈ کاپ کی پالیسی کے تحت ہو چکا ہے۔ حمزہ شہباز پارٹی کے نرم بیانیے کو لے کر آگے چلیں گے اور مریم سخت بیانیے کو۔ سیاسی لحاظ سے حمزہ شہباز جیل کاٹنے کے سبب ایک مضبوط سیاسی انویسٹمنٹ کر کے پنجاب میں گراس روٹ لیول پر پارٹی کی گرفت مضبوط کر رہے ہیں۔
اب دوسرے مفروضے پر بات کر لیتے ہیں۔ یہ بات تقریباً واضح ہے کہ اگر ش لیگ کا مطلب شہباز لیگ ہے تو اس کے امکانات بہت کم ہیں۔ اس کی وجوہات جذباتی اور سیاسی دونوں ہیں۔ جذباتی وجہ یہ ہے کہ ممکنہ نظریاتی اختلاف کے باوجود شریف برادران کے درمیان باہمی عزت، محبت اور احترام کا رشتہ بہت مضبوط ہے اس لیے جب تک میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف حیات ہیں تب تک دونوں بھائیوں کو دو جماعتوں میں تقسیم کرنا ناممکن نظر آتا ہے جبکہ سیاسی وجہ یہ ہے کہ شریف خاندان کو بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کی بقا متحد رہنے میں ہی ہے ۔ انہیں معلوم ہے اگر شریف خاندان تقسیم ہوا تو اس خاندان کا دوبارہ اقتدار میں آنا ناممکن ہوجائے گا۔
ان تمام تر باتوں کے باوجود ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ شریف خاندان کے تقسیم نہ ہونے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ مسلم لیگ ن تقسیم نہیں ہوسکتی۔ سیاسی جماعتوں کا ٹوٹنا اور توڑا جانا پاکستان میں نئی بات نہیں۔ اس لیے نظریاتی اختلاف اور نواز شریف کے بیانیے کے نام پر ن لیگ کے کچھ اراکین اسمبلی کو توڑ کر ایک فارورڈ بلاک تشکیل دیا جاسکتا ہے یا پھر انہیں استعفیٰ دلوا کر کسی اور جماعت میں شامل کروایا جاسکتا ہے ‘ لیکن یہ عمل بھی شریف خاندان کے زیر سایہ چلنے والی مسلم لیگ پر کاری ضرب نہیں لگاپائے گا کیونکہ مسلم لیگ ن اپوزیشن میں ہے اور اس کے پاس فی الوقت کھونے کے لیے بس چند اراکین اسمبلی ہیں جن سے وہ پہلے ہی استعفیٰ لینے کا ارادہ رکھتی ہے ۔
ان تمام مفروضوں پر غور کرنے کے بعد سوال یہ ہے کہ اب مسلم لیگ ن کا مستقبل کیا ہوگا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے مستقبل کا تعین نہ تو اس کے منحرف اراکین کر سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی اور۔ سیاسی جماعتوں کے مستقبل کا تعین عوام کرتے ہیں اس لیے مسلم لیگ ن کے مستقبل کا تعین بھی عوام ہی کریں گے ، خاص طورپر پنجاب کے عوام۔ اگر آنے والے دنوں میں مسلم لیگ ن کے عوامی اجتماعات میں عوام کی کثیر تعداد آتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ نواز شریف کے بیانیے کے باوجود ان کی عوامی حمایت میں کوئی فرق نہیں آیا اور مسلم لیگ ن کو بطور جماعت کو زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ ن یا تو پھر سے ایک بڑی جماعت بن کر ابھرے گی یا پھر مقتدر حلقوں کو مسلم لیگ ن کے ساتھ بیٹھ کر معاملات طے کرنا ہوں گے‘ لیکن اگر مسلم لیگ ن کے موجودہ بیانیے کو عوامی پذیرائی حاصل نہیں ہوتی اور ان کے جلسوں میں عوام نہیں آتے تو پھر سمجھ لیا جائے گا کہ سخت بیانیے کو لے کر عوام میں حمایت نہیں حاصل کی جا سکتی۔ اس لیے عوامی حمایت ہی واضح کرے گی کہ رسہ کشی میں کون ایک قدم پیچھے ہٹتا ہے اور کون ایک قدم مزید آگے بڑھاتا ہے۔