تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     05-11-2020

سرخیاں، متن، مکالمہ اور اقتدار جاوید کی غزل

برطانیہ نواز کو ڈی پورٹ کرنے پر غور کر رہا ہے: شہزاد اکبر
وزیراعظم کے مشیر برائے داخلہ امور شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ ''برطانیہ نواز شریف کو ڈی پورٹ کرنے پر غور کر رہا ہے‘‘ جبکہ انگریزوں کا اپنا طریقہ یہ ہے کہ وہ کسی مسئلے پر سال ہا سال تک غور ہی کرتے چلے جاتے ہیں اور جب غور ختم ہوتا ہے تو خوض شروع کر دیتے ہیں اور جب غور و خوض مکمل ہو جاتا ہے تو ان کے ہاں اس کا نتیجہ نکالنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، اس لیے ہم اس کا انتظار کریں گے کیونکہ ہمیں بھی کوئی خاص جلدی نہیں ہے کہ جلد بازی شیطان کا کام ہے اور یہ سارا شعبہ اپوزیشن نے سنبھال رکھا ہے؛ تاہم ہر سال برطانیہ کو ہم یاد ضرور دلاتے رہیں گے تا کہ اس کے غوریا خوض میں کوئی رکاوٹ یا سست روی نہ پیداہو جائے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک اخبار کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
جب آپ آئین توڑتے ہیں تو کسی 
دن حساب دینا پڑتا ہے: شاہد خاقان
سابق وزیراعظم اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''جب آپ آئین توڑتے ہیں تو کسی دن حساب دینا پڑتا ہے‘‘ جیسا کہ ہمارے دور میں عدالت پر ہونے والے حملے کا حساب ہم سے اب تک لیا جا رہا ہے جو صرف اور صرف انتقامی کارروائی ہے کیونکہ جرم ایک عرصے کے بعد پرانا ہو کر خود ہی ختم ہو جاتا ہے۔ البتہ ڈکٹیٹروں نے جو آئین شکنی کی‘ اس کا حساب ابھی تک لینا کسی نے شروع نہیں کیا ہے ماسوائے اس کے کہ اِدھر اُدھر اشتہار وغیرہ چسپاں کیے جا رہے ہیں جو زیادہ سے زیادہ تلاشِ گم شدہ ہی کے اشتہار لگتے ہیں کہ اگر واپس آ جائو تو تمہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
سیاسی یتیم اداروں کے خلاف منظم
مہم چلا رہے ہیں: فردوس عاشق اعوان
وزیراعلیٰ پنجاب کی معاونِ خصوصی برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''سیاسی یتیم اداروں کے خلاف منظم مہم چلا رہے ہیں‘‘ اور مجھے چونکہ فیاض الحسن چوہان کی جگہ تعینات کیا گیا ہے اس لیے اپوزیشن کی خدمت بھی انہی کے انداز میں کرتی رہوں گی تا کہ اپوزیشن کو اُن کی کمی نہ محسوس ہوتی رہے جبکہ موصوف ہی کے لہجے میں بات کرنا میرے لیے ضروری بھی ہے تا کہ وہ یہ نہ کہیں کہ ان کے بعد اس شعبے کا انداز ہی بدل گیا ہے، اور میں اپوزیشن کو کبھی یہ کہنے کا موقع نہیں دوں گی کہ انہیں نظر انداز کیا جا رہا ہے اور میں اپنے ہر بیان میں موصوف کی یاد دلاتی رہوں گی، اپوزیشن خاطر جمع رکھے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ملاقات کے موقعہ پر گفتگو کر رہی تھیں۔
اتنا نہ اکسایا جائے کہ پھر کوئی ایسی
بات نہ ہو جائے: ایاز صادق
سابق سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کہا ہے کہ ''اتنا نہ اُکسایا جائے کہ پھر کوئی ایسی بات نہ ہو جائے‘‘ کیونکہ ہم یہ سارا کچھ نتائج سے بے پروا ہو کر کر رہے ہیں اور ہم اپنا آخری فیصلہ کر چکے ہیں جس کا مقصد شہیدانِ جمہوریت کی فہرست میں نام لکھوانا ہے۔ سیاست ہماری ختم ہو چکی ہے، مستقبل ہمارا رات سے بھی زیادہ تاریک ہے۔ قیادت ہماری ہمیشہ کے لیے فرار اختیار کر چکی ہے جبکہ جیلیں بھی منہ پھاڑے ہماری منتظر ہیں اور ہمارے قائد نے جو یہ کہا تھا کہ میں جنرل ضیاء الحق کے مشن کو پورا کروں گا، ہم سب اسی پر عملدرآمد کر رہے ہیں جس پر جنرل صاحب‘ جہاں بھی ہیں، خوشیاں منا رہے ہوں گے‘ جبکہ قائد مرحوم ہی کی بقایا عمر گزار رہے ہیں۔ آپ اگلے روز ماڈل ٹائون میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ہمیں ایمانداری کی سیاست کی 
سزا دی جا رہی ہے: خورشید شاہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ ''ہمیں ایمانداری کی سیاست کی سزا دی جا رہی ہے‘‘ کیونکہ ہم نے اپنے دور میں جو کچھ بھی کیا ہے پوری ایمانداری کے ساتھ کیا ہے حتیٰ کہ جو اثاثے بنائے ہیں‘ ان میں بھی کسی کے ساتھ کوئی بے ایمانی نہیں کی اور اگر قومی خزانے کو کوئی نقصان پہنچا تو یہ ہمارا اور قوم کا معاملہ ہے، کسی کو اس میں دخل اندازی کی ضرورت نہیں ہے اور چونکہ ہم قومی سطح کے لیڈر ہیں اس لیے ہمارے ساتھ کوئی نچلی سطح کا سلوک نہیں ہونا چاہیے اور یہ جو ہمارے اثاثے ہیں‘ یہ بھی قومی اثاثے ہی ہیں، لہٰذا کسی کو ان کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، جبکہ ہم خود بھی ان کے حوالے سے پریشان نہیں ہیں۔ آپ اگلے روز گھر سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
مکالمہ
یہ جریدہ مبین مرزا کی ادارت میں کراچی سے شائع ہوتا ہے۔ میعار کے علاوہ اس کی خوبیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس کا سائز بھی مناسب ہے اور اس کی اشاعت میں تاخیر بھی روا نہیں رکھی جاتی۔ زیرِ نظر کتابی سلسلہ 48 ہے۔ لکھنے والوں میں انیس اشفاق، حسن منظر، ڈاکٹر تحسین فراقی، حفیظ الرحمن خان، محمد حمزہ فاروقی، ڈاکٹر سیّد جعفر احمد، ایوب خاور، فاروق خالد، حمرا خلیق، ڈاکٹر ضیاء الحسن، ناصر عباس نیّر، خورشید ربانی اور ڈاکٹر غلام شبیر رانا شامل ہیں۔ ایوب خاور کی چار نظمیں اور انیس اشفاق کی پندرہ غزلیں بطورِ خاص شامل کی گئی ہیں۔'' کارپوریٹ دنیا میں ادب‘‘ کے عنوان سے حرفِ آغاز مدیر کے قلم سے ہے جو بجائے خود ایک سنجیدہ مضمون کی حیثیت رکھتا ہے۔ انیس اشفاق کی غزلیں محض روایتی ہیں، ٹائٹل خوبصورت ہے اور قیمت مناسب! قارئین کو اس کا انتظار رہتا ہے۔
اور‘ اب آخر میں اقتدار جاوید کی غزل:
جو اُس میں بھی ہے صرف غرارے میں ہی نہیں
وہ رنگ روپ جو ترے سارے میں ہی نہیں
پانی ہے جس کے آگے ٹھہرتا نہیں کوئی
دریا ہے جو کسی بھی کنارے میں ہی نہیں
اپنے ڈھنڈورچی ہیں مدیرانِ محترم
اک کام کی بھی چیز شمارے میں ہی نہیں
ناکامیوں کا کھیل ہے دونوں کی جیت ہے
اس عشق میں تو کوئی خسارے میں ہی نہیں
کن شاعروں کا ذکر کروں کن کو چھوڑ دوں
یہ عرش ہے جو اپنے ہُلارے میں ہی نہیں
غصے کو تھوک دیجیے، غصّہ حرام ہے
جو گفتگو ہے آپ کے بارے میں ہی نہیں
قاری کا کیا قصور ہے، نقاد کیا کرے
طاقت ذرا سی شعر کے مارے میں ہی نہیں
کیا کیا نہیں ہے اس کے خزانوں سے منعکس
یہ آنکھ ہے جو محو نظارے میں ہی نہیں
خالی سی لگ رہی تھی کئی دن سے آستیں
دیکھا ہے اب تو سانپ پٹارے میں ہی نہیں
بے شکل ہوں کہ ایک نئی شکل کی نوید
پانی ہوں جو کسی طرح دھارے میں ہی نہیں
آج کا مطلع
کچھ یہ بھی کم نہیں ہے کوئی کام تو ہوا
میں ہوتے ہوتے عشق میں ناکام تو ہوا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved