دنیا بھر کے درختوں سے قلم بنادیے جائیں، سمندروں اور دریاؤں کے پانیوں کوروشنائی میں تبدیل کردیاجائے اوربنی نوعِ انسان کے ساتھ جنّات بھی مل جائیں اور سب مل کر مصطفی کریمﷺ کے حسن وجمال کی عظمتوں اورتابانیوں کو احاطۂ تحریر میں لاناچاہیں‘توقلم فنا ہوجائیں، روشنائیاں ختم ہوجائیں اورخود لکھنے والے بھی لکھتے لکھتے راہیِ ملکِ عدم ہوجائیں، مگریہ ممکن نہیں کہ مصطفی کریمﷺ کے لامحدود حسن اورآپؐ کی سیرت وصورت کے کمالِ حُسن کاحق ادا ہوسکے ۔نہ کسی قلم میں اتنی سکت ہے کہ آپؐ کے حسن وجمال کااحاطہ کرسکے اورنہ کسی زبان میں یہ فصاحت وبلاغت کہ آپؐ کے جمال کو بیان کرنے کا حق ادا کرسکے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرمﷺکے ظاہر وباطن کو وہ عظمتیں اور وسعتیں عطاکی ہیں کہ کسی بشر کے لیے ان کی حقیقت تک رسائی ممکن نہیں، جس طرح آپؐ کا حسنِ سیرت سراپا معجزہ ہے، اسی طرح آپؐ کا پیکرِذات اورحسن و جمال بھی ایک معجزہ ہے۔حسن کی تمام ادائیں آپؐ کی ذات میں جمع ہیں اور جہاں کہیں بھی حسن وکمال پایاجاتا ہے، وہ ذاتِ پاک مصطفویؐ کا فیضان ہے ۔
غزالیِ زماں علامہ سید احمد سعید شاہ کاظمی فرمایا کرتے تھے: ''جب یہ بات مسلّم ہے کہ آپﷺ اللہ تعالیٰ کے حبیب ہیں تو آپؐ کے حسنِ صورت، حسنِ سیرت، علمی وعملی اورہمہ جہتی کمالات میں کسی بھی قسم کے نقص کا تصور وہ کرسکتا ہے، جس کے نزدیک یاتو عطا کرنے والا عطا نہ کرسکے یا لینے والے میں قبولیت کی استعداد نہ ہو، جب عطا کرنے والے کے ہاں نعمتوں کی کوئی انتہا نہ ہو اور لینے والے کی استعداد میں کوئی کمی نہ ہو، تو نَقص کا شائبہ کیسے ہوسکتا ہے‘‘، چنانچہ امام احمد رضا قادری نے فرمایا:
وہ کمالِ حُسنِ حضور ہے کہ گمانِ نَقص جہاں نہیں
یہی پھول خار سے دور ہے، یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں
مصطفی کریمﷺ کے حسنِ پاک کا مشاہدہ کرنے والے خوش نصیب صحابہ کرامؓ کبھی اس حسن کو آفتاب سے تشبیہ دیتے اورکبھی ماہتاب سے۔بڑے بڑے عُشَّاق نے اس میدان میں اپنی قادرالکلامی اورفصاحت وبلاغت کے جوہر دکھائے ہیں، مگر خامہ فرسائی کے بعد بالآخر سب کو اپنے عَجز کا اعتراف کرنا پڑا، شمس الدین شیرازی نے تاجدارِ کائنات کے حسن وجمال کو بیان کرنے میں زبان وبیان کی بے مائیگی کااظہار ان اشعار میں کیا:
یَا صَاحِبَ الْجَمَالِ وَ یَا سَیِّدَ الْبَشَر
مِنْ وَّجْھِکَ الْمُنِیْرِ لَقَدْ نُوِّرَ الْقَمَر
لَا یُمْکِنُ الثَّنَآئُ کَمَا کَانَ حَقُّہٗ
بعد از خدا بزرگ توئی، قصہ مختصر
ترجمہ:''اے صاحبِ جمال اور اے عالَمِ بشریت کے سردارﷺ، آپؐ کے روشن کرنے والے رُخِ انور کے فیضان سے چاند کو روشن کیا گیا ہے، آپؐ کی تعریف وتوصیف ممکن ہی نہیں ہے جیساکہ اس کا حق ہے، المختصر یہی کہاجاسکتا ہے: اللہ تعالیٰ کی ذات کے بعد مخلوق میں سب سے اعلیٰ واَولیٰ آپؐ ہی کی ذات ہے‘‘۔
اپنی سخن وری اور اندازِ بیان پر نازاں مرزاغالبؔ اس میدان میں آئے تو اُنہوں نے اپنے عَجز کا اعتراف یوں کیا:
غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتیم
کاں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمدؐ است
ترجمہ:''غالب خود سے مخاطِب ہوکرکہتا ہے:رسول اللہﷺ کی تعریف وتوصیف میں نے اللہ پر چھوڑ دی، کیونکہ وہی ایک ذاتِ پاک ہے جو محمد رسول اللہﷺ کے مرتبے کو سب سے بہتر جانتی ہے‘‘، یعنی کسی کی شان کو بکمال وتمام وہی بیان کرسکتا ہے، جو اُس سے پوری طرح آگاہ ہو۔
اہلِ علم فرماتے ہیں : رسول اللہﷺکی ذات ِ مبارکہ پر ایمان کے ساتھ ساتھ آپؐ کے حسن و جمال پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ محدثین اور سیرت نگاروں نے اپنی کتابوں میں آپؐ کے باطنی خصائل و خصائص کے ساتھ ساتھ آپؐ کے ظاہری حسن و جمال کو بھی موضوعِ سخن بنایاہے، جمالِ مصطفوی کی تابانیوں اور ضو فشانیوں سے منور ہونے والے خوش نصیب صحابہ کرامؓ اپنے محبوب کے رُخِ انور کے حسن وجمال کا والہانہ انداز میں تذکرہ کیا کرتے تھے، اس حوالے سے چند احادیث پیشِ خدمت ہیں:
(1)''حضرت براءؓ بن عازب سے پوچھا گیا: رسول اللہﷺ کا چہرۂ انور شمشیر کی مانند تھا، فرمایا:نہیں!بلکہ چاند کی طرح حسین وجمیل تھا‘‘ ( بخاری:3552)۔ شمشیر کی تشبیہ میں گولائی مفقود ہے، اس لیے اُنہوں نے چاند سے تشبیہ دی کہ چاند میں چمک دمک بھی ہے اور گولائی بھی، (2)'' حضرت جابرؓ بن سَمُرَہ سے یہی سوال ہوا تو فرمایا:نہیں! بلکہ آپ کا رُخِ انور سورج اور چاند کی طرح روشن، چمکدار اور گولائی لیے ہوئے تھا‘‘ (مسلم:2344)، (3) ''حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں:میں نے نبیﷺ سے بڑھ حسین وجمیل کسی اور کو نہیں پایا، یوں معلوم ہوتا کہ آپ کے رُخِ انور میں سورج رواں دواں ہو‘‘ ( ترمذی:3648)، (4)حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں:میں چرخہ کات رہی تھی اور رسول اللہﷺ میرے سامنے بیٹھے اپنے جوتے کو پیوند لگارہے تھے، آپﷺ کی مبارک پیشانی پر پسینے کے قطرے تھے، جن سے نور کی شعاعیں نکل رہی تھیں، اس حسین منظر کو دیکھ کر میں حیران رہ گئی، نبی کریمﷺ نے مجھے حیرت میں دیکھا تو فرمایا :کیوں حیران ہورہی ہو، میں نے کہا:آپ کی پیشانی پر پسینے کے قطریں ہیں، جن سے نور کی شعاعیں نکل رہی ہیں، اگر(عرب کا مشہور شاعر) اَبُوْکَبِیْر ہُذَلِی آپ کو اس حالت میں دیکھ لیتا تو یقین کرلیتا کہ اُس کے اس شعر کے مصداق آپ ہی ہیں:
فَإِذَا نَظَرْتَ إِلٰی أَسِرَّۃِ وَجْہِہٖ
بَرَقَتْ کَبَرْقِ الْعَارِضِ الْمُتَہَلِّلِ
ترجمہ:''پس جب تو اس کے چمکتے چہرے پر نظر ڈالے گا تو تجھے اس کے رخساروں کی چمک یوں معلوم ہوگی جیسے برستے بادلوں میں بجلی کوندجائے‘‘۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں:یہ سن کر نبی کریمﷺ کھڑے ہوئے اور میری پیشانی پر بوسہ دیا اور فرمایا:اے عائشہ! جس طرح تونے آج مجھے خوش کیا ہے اِس سے بڑھ کراللہ تعالیٰ تجھے خوشیاں عطافرمائے‘‘ (سنن بیہقی:15427)۔
(5)''حضرت جابرؓ بن سمرہ بیان کرتے ہیں:ایک مرتبہ چاندنی رات میں مجھے نبی کریمﷺ کی زیارت کا موقع ملا، آپﷺ نے ایک سرخ پوشاک زیب تن کررکھی تھی، میں کبھی آپﷺکے رُخِ انورپر نظر ڈالتا اور کبھی چاند کی طرف دیکھتا، کافی دیر یہی سلسلہ جاری رہا اوربار بار تجزیے کے بعدبالآخر اس نتیجے پر پہنچا کہ آپﷺ چودھویں کے چاند سے زیادہ دلربا اور حسین وجمیل ہیں‘‘ (ترمذی: 2811)۔ علامہ علی القاری لکھتے ہیں:''چاند کا نور سورج کے نور سے مستعار ہے، اس لیے اس میں کمی زیادتی ہوتی رہتی ہے، حتیٰ کہ کبھی تو بالکل بے نور ہوجاتا ہے، جبکہ حضورِ انورﷺ کے رُخِ مبارک کا نور دن رات میں کسی وقت جدا نہیں ہوتا، کیونکہ چاند کے برعکس یہ آپؐ کا ذاتی وصف ہے‘‘ (جمع الوسائل: ج: 1 ص :56)۔
(6)''حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں : نبی کریمﷺ کے مرضِ وِصال کے زمانے میں ہم حضرت ابوبکر صدیقؓ کی امامت میں نماز ادا کررہے تھے کہ اچانک نبی کریمﷺ نے اپنے حجرۂ مبارکہ کا پردہ اُٹھایا اور اپنے غلاموں کی طرف دیکھاتو ہمیں یوں محسوس ہوا :گویا کہ آپ کا چہرہ انور قرآن مجید کا ورق ہے‘‘ ( بخاری :680)۔ امام نووی لکھتے ہیں:''جس طرح قرآنِ کریم کلامِ الٰہی ہونے کے سبب حسی اور معنوی نور پر مشتمل ہونے کی وجہ سے دیگر کلاموں پر فوقیت رکھتا ہے، اِسی طرح نبیﷺ بھی اپنے حسن وجمال، چہرۂ انور کی نظافت وپاکیزگی اور تابانی میں یکتا وہ تنہا ہیں‘‘ (شرح النووی علی مسلم، ج4ص142)۔امام ابن اثیر فرماتے ہیں: ''آپﷺ کی صفات میں سے یہ بھی ہے کہ جب آپؐ مسرور ہوتے تو آپؐ کاچہرہ آئینہ کی مانند شفاف اورمُجلّٰی ہوجاتا کہ دیواروں کا عکس آپؐ کے چہرہ انور میں صاف نظر آتا تھا‘‘ (النہایہ: ج:4ص238)‘‘، علامہ اقبال نے کہا ہے:
رخِ مصطفی ہے وہ آئینہ، کہ اب ایسا دوسرا آئینہ
نہ ہماری بزمِ خیال میں، نہ دکانِ آئینہ ساز میں
اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرمﷺ کووہ رخِ زیبا عطا فرمایا تھا کہ جو بھی صاحبِ بصیرت اور سلیم الطبع انسان آپﷺ کے چہرۂ انور کی طرف نگاہ ڈالتا توبے ساختہ پکار اُٹھتا : یہ مبارک اور دلربا چہرہ کسی جھوٹے انسان کا نہیں ہوسکتا، آپؐ کے رُخِ مبارک کو بھی اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی نبوت ورسالت کی صداقت کی دلیل وبرہان بنایا تھا۔
(7)''حضرت عبداللہؓ بن سلام یہودیوں کے بڑے عالم تھے، تورات پر عبور حاصل تھا، وہ اپنے مسلمان ہونے کا واقعہ بیان کرتے ہیں: جب رسول کریمﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو میں آپ کی تشریف آوری کی خبر سنتے ہی آپ کو دیکھنے کے لیے حاضر ہوا، میری نگاہ جونہی آپﷺ کے چہرۂ انور پر پڑی تو میں نے جان لیا کہ ایسا دلکش ودلربا چہرہ کسی جھوٹے انسان کا نہیں ہوسکتا۔ (ترمذی: 2485) (8)''حضرت حارثؓ بن عَمرو سہمی بیان کرتے ہیں:''میں منٰی یا عرفات کے مقام پرنبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، میں لوگوں کو آپﷺ کی زیارت کے لیے جوق درجوق آتے ہوئے دیکھ رہا تھا، میں نے مشاہدہ کیا کہ بدّو جب آپﷺ کے رُخِ انور کی زیارت کرتے تو بے ساختہ پُکار اُٹھتے کہ یہ بڑا ہی مبارک چہرہ ہے‘‘ ( ابوداؤد:1742)۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں:''نبی کریمﷺ کا چہرہ انور اللہ عزوجل کے جمال کا آئینہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے انوار وتجلیا ت کا اس قدر مظہر ہے کہ اس کی کوئی حد نہیں‘‘ (مدارج النبوۃ، ج1،ص5)۔نبی کریمﷺ نے فرمایا: جس نے مجھے دیکھا، اُس نے حق کو دیکھا، کیونکہ شیطان میری صورت کو اختیار نہیں کرسکتا‘‘ ( بخاری:2568)۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدِّث دہلوی لکھتے ہیں: میرے والدِ ماجد شاہ عبدالرحیم خواب میں نبی کریمﷺکی زیارت سے مشرف ہوئے تو عرض کی:یا رسول اللہ! یوسف علیہ السلام کے حسن سے مبہوت ہوکر زنانِ مصر نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے اور بعض لوگ تو اُنہیں دیکھ کرمرگئے تھے، مگر آپؐ کودیکھ کر کسی کی ایسی حالت نہیں ہوئی، تو نبی کریمﷺ نے فرمایا:''میرے حقیقی حسن وجمال کو اللہ تعالیٰ نے غیرت کی وجہ سے چھپارکھا ہے، اگر میرا حقیقی حسن وجمال ظاہر کردیا جاتا تو لوگ اس سے کہیں زیادہ کر گزرتے جو اُنہوں نے حسن یوسف علیہ السلام کو دیکھ کر کیا تھا‘‘ (اَلدُّرُّالثَّمِیْن فِیْ مُبَشَّرَاتِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن، ص:7)۔