تحریر : امتیاز گل تاریخ اشاعت     06-11-2020

روپے کی قدر میں اضافہ اور نیب کی ریکوریاں

موجودہ حکومت کے اقتدار میں آتے ہی اس کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ زبوں حال اور قرضوں سے چلنے والا غیر مستحکم معیشت منتظر تھا۔ بیرونی قرضہ زیادہ تھا اور ایکسپورٹ میں مسلسل کمی ہورہی تھی۔ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر بڑھ رہی تھی۔ پاکستان کی معیشت میں روپے کی قدر مستحکم نہ ہونا معاشی لحاظ سے ایک بہت بڑا مسئلہ رہا ہے۔ موجودہ حکومت کو روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اب ایک اچھی خبر یہ ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں سے روپے کی قدر میں مسلسل اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ اگر سرسری طور پر دیکھا جائے تو روپے کی قدر میں اضافے کی وجوہات میں ایکسپورٹ کا بڑھنا ہے۔ اگست 2019ء کے مقابلے میں ستمبر 2020ء میں ایکسپورٹ میں 25 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ ترسیلاتِ زر بھی بہتر ہوئی ہے۔ ترسیلات زر میں اضافے کے باعث روپے کی قدر میں استحکام آیا ہے۔رواں ہفتے انٹر بینک تبادلہ مارکیٹ میں ڈالر کی قدر تقریباً نصف سال کی کم ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔انٹربینک مارکیٹ میں ڈالرکی قدر 159 روپے 96 پیسے تک آ گئی ۔واضح رہے کہ 8 مئی کے بعد انٹربینک میں ڈالر کی یہ کم ترین سطح ہے۔یہ قدر ڈالر کی بلند ترین سطح 168 روپے 43پیسے سے پانچ فیصد کم ہے۔ روپے کی قدر میں اضافے کی اہم وجوہات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ عالمی سطح پر ڈالر کی ڈیمانڈ میں کمی دیکھی جا رہی ہے اور حتیٰ کہ 10 فیصد کی کمی آئی ہے اور ڈالر پاؤنڈ اور یورو کے مقابلے میں کمزور ہورہا ہے۔ غیر ملکی ترسیلاتِ زر میں اضافہ دیکھا جارہا ہے جس کے معیشت پر اچھے اثرات پڑ رہے ہیں۔ ماہر اقتصادیات محمد عاصم کے مطابق معیشت کی بحالی میں حکومتی اقدامات کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ سب سے اہم کام جو اس حکومت نے کیا ہے وہ یہ ہے کہ باقاعدگی سے ٹارگیٹڈ مارکیٹنگ پالیسیز بنائی گئی ہیں۔ رقوم کی ترسیل کے قانونی طریقے کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ مختلف طریقوں سے حکومت نے لوگوں کو آمادہ کیا کہ باہر سے پیسہ بینکوں کے ذریعے پاکستان بھیجیں ہنڈی کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ اب اس سے ہوا یہ کہ اب وہ پیسہ بھی گنتی میں آرہا ہے جو کسی زمانے میں ہنڈی اور غیر قانونی ذریعے سے ملک میں آنے کی وجہ سے ملکی معیشت کی بہتری میں استعمال ہی نہ ہو سکتا تھا۔
کورونا وبا کی وجہ سے جب دنیا میں ہر طرف لاک ڈاؤن تھا تو ڈیجیٹل طریقے سے رقوم کی منتقلی میں اضافہ ہوا۔ ملکی معیشت کی بحالی میں ایف اے ٹی ایف فریم ورک نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان نے 27 میں سے 21 نکات پر عمل کیا ہے اور باقی نکات پر عمل کے لیے فروری تک کا وقت ہے۔ گزشتہ حکومتوں اور اس حکومت کے اقدامات میں بنیادی فرق یہ ہے کہ موجودہ حکومت میں چیزیں ڈاکومینٹ ہورہی ہیں۔ ڈیجیٹل پاکستان کے تحت بیرون ملک مقیم پاکستانی اپنے بینک اکاؤنٹس کھول سکتے ہیں‘ لوگوں کا ملکی نظام پر اعتماد بحال ہورہا ہے وہ اپنا پیسہ اور سرمایہ ظاہر کررہے ہیں۔ جون 2018ء کے مقابلے میں ستمبر 2020 ء میں ترسیلاتِ زر آٹھ اعشاریہ دو بلین سے زائد ہوگئی ہیں۔ ایس ای سی پی کے مطابق صرف ستمبر کے مہینے میں دو ہزار تین سو کمپنیز رجسٹرڈ ہوئی ہیں جو کہ پچھلے سال کی نسبت 69 فیصد زیادہ ہے اور ان رجسٹرڈ کمپنیز میں سے 49 کمپنیز نے کہا کہ ان کے پاس انویسٹمنٹ کے لیے باہر کا پیسہ ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری کسی بھی ملک کی معیشت کے لیے بہت اہم ہے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر ملک کی مثبت اور صحیح تصویر کشی ہورہی ہے۔ یہ ساری خبریں پاکستانی معیشت کے لیے اچھی خبریں ہیں۔
رواں سال ستمبر میں سیمنٹ کی فروخت میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا جب سیمنٹ کی فروخت کسی ایک مہینے میں اپنی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔اس شعبے کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ستمبر میں سیمنٹ کی مجموعی فروخت پانچ اعشاریہ اکیس ملین ٹن رہی جو گزشتہ سال کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔سیمنٹ کی فروخت میں ہونے والے اضافے کی وجہ مقامی طور اس کی طلب میں اضافے کے ساتھ سیمنٹ کی برآمد میں 50 فیصد سے زائد اضافہ بھی شامل ہے۔ پاکستان میں بننے والا سیمنٹ روایتی مارکیٹوں کے ساتھ کچھ نئے ملکوں نے بھی درآمد کیا گیا جس سے سیمنٹ کی برآمد کو بڑھانے میں خصوصی مددملی۔
دوسری طرف نیب کی طرف سے بھی بڑی ریکوریوں کی خبریں ہیں۔ نیب بدقسمتی سے وہ ادارہ ہے جو شروع دن سے ہی تنازعات کا ہدف رہا ہے‘ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ نیب کے پہلے چیئرمین سید محمد امجد نے استعفیٰ دیتے ہوئے یہ درخواست کی تھی کہ اس ادارے کو ختم کیا جائے کیونکہ یہ آگے جاکر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہوگا۔ پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا‘ ایک حکومت دوسری پر جبکہ دوسری حکومت تیسری پر یہ الزام لگاتی رہی کہ وہ نیب کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کررہی ہے۔ اس کے علاوہ نیب کا پلی بارگین کا نظام بھی بار بار تنقید کی زد میں رہا ہے۔ تنقید اور سیاسی بیان بازیوں کے باوجود نیب نے کچھ ہفتوں میں بہت کام کیا ہے‘ خاص طور پر پلی بارگین کے ذریعے بہت بڑی ریکوریاں کی گئی ہیں۔ گزشتہ دنوں نیب نے پاکستان کے ایک بہت بڑے بزنس ٹائیکون سے چھ ریفرنسز میں پلی بارگین کے ذریعے نوارب پانچ کروڑ روپے حاصل کیے۔ یہ نیب کی تاریخ کی سب سے بڑی پلی بارگین ہے۔ نیب حکام کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ دو برس کے دوران سندھ میں اربوں روپے کی کرپشن پر نیب نے بڑا ایکشن لیا اور 35 ارب روپے برآمد کرکے پوری رقم سندھ حکومت کے حوالے کی ہے۔ یہ یقینا نیب کا ایک قابل ذکر احسن اقدام ہے۔
وائٹ کالر کرائم میں یہ بتانا بہت مشکل ہوتا ہے کہ ایک کیس میں کتنے پیسے استعمال ہوئے اور خاص طور پر سرکاری خزانے کو کتنے کا نقصان پہنچا۔ نیب کیلئے جرم کی کوانٹی فیکیشن (Quantification) ظاہر کرنا بہت مشکل ہے اس وجہ سے ہمیشہ نیب کو عدالتوں میں شرمندگی اٹھانا پڑ جاتی ہے‘اور اکثر کیس مسترد ہوجاتے ہیں یا ملزمان کی ضمانتیں منظور ہوجاتی ہیں۔ نیب کا پلی بارگین کا طریقہ کار بھی بہت تنقید کی زد میں رہا ہے مثال کے طور پر پاکستان سٹیٹ آئل کے کیس میں الزام تھا کہ 23 ارب روپے کا غبن ہوا یعنی اتنی رقم کا پی ایس او کو نقصان ہوا۔ وہ کیس صرف ایک ارب 29 کروڑ بطور پلی بارگین میں حل ہوا۔ ایک ہاؤسنگ کمپنی کے کیس میں سپریم کورٹ نے 480 ارب روپے کا جرمانہ کیا۔اسی طرح مذکورہ کیس میں جو ریکوری ہوئی ہے اس پر یہ بحث ہوتی رہے گی کہ اگر اتنا جرمانہ کیا گیا تو اصل جس رقم کی کرپشن کی گئی ہوگی وہ کتنی زیادہ ہوگی اور یہ ایک خوفناک بات ہے۔ پلی بارگین جیسے قانون کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی‘لیکن پھر بھی پلی بارگین کی وجہ سے کچھ رقم تو قومی خزانے میں جمع ہوجاتی ہے جو کہ اچھی بات ہے۔
نیب کو بطور ادارہ اگر غیرمتنازع بنانا ہے تو پھر یہ بہت ضروری ہے کہ حکومت اور اپوزیشن مل بیٹھیں اور نیب کے ادارہ اور اس کے طریقہ کار پر قانون سازی کریں اور ہمیشہ کے لیے یہ قوانین وضع کریں تاکہ نیب کے سیاسی استعمال اور اس کے اوپر دیگر الزامات سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا مل سکے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved