ہم کسی پہاڑ پر آباد ہیں نہ کسی دشت میں۔ کوئی بھی انسان جزیرہ نہیں۔ ہم سب مل کر ایک سمندر تشکیل دیتے ہیں، زندگی کا سمندر۔ زندگی مل جل کر ہی بسر ہوتی ہے۔ جو لوگ دوسروں سے الگ یا دور رہ کر جینے کی کوشش کرتے ہیں‘ وہ ادھورے رہ جاتے ہیں۔ دوسروں سے ہٹ کر جینے کی ہر کوشش انسان کو بالآخر تنہائی اور ویرانی سے دوچار کرتی ہے۔ نفسی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ الگ تھلگ رہنے والے کبھی ڈھنگ سے نہیں جی پاتے۔ انسان کو مل جل کر رہنے ہی کے لیے خلق کیا گیا ہے۔ ماحول انسانوں سے مل کر بنتا ہے اور ہر انسان کے لیے ڈھنگ سے جینے کی تحریک پانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ ماحول کی اچھائیاں اپنانے کی صورت میں ہم اُسے بھی کچھ دینے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ گھر ہو یا محلہ، دفتر ہو یا حلقۂ احباب، شہر ہو یا ملک ... ہر مقام پر ہمیں لوگوں سے روابط رکھنا پڑتے ہیں۔ زندگی مربوط رہنے کا نام ہے۔ جس نے بھی اس حقیقت کو نظر انداز کیا اُس نے اپنے حق میں خسارے کی راہ ہموار کی۔ہمارے ماحول میں کئی چھوٹے چھوٹے ماحول پائے جاتے ہیں جنہیں ہم حلقے کہتے ہیں۔ ایک حلقہ اہلِ خانہ اور رشتہ داروں کا ہوتا ہے اور اُس کے فوراً بعد حلقۂ احباب ہوتا ہے۔ جہاں ہم کام کرتے ہیں یعنی معاشی سرگرمیوں میں مصروف ہوتے ہیں وہاں موجود دیگر افراد بھی ہمارے لیے ایک حلقہ تشکیل دیتے ہیں۔ جس محلے میں ہم رہتے ہیں وہاں بسے ہوئے دوسرے لوگ بھی ہمارے لیے حلقے کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان میں سے ہر حلقے میں ہمیں متوازن رہنا پڑتا ہے۔ ایک طرف تو دل آزاری سے بچنا ہوتا ہے اور دوسری طرف اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ قابلِ قبول بنانے کی کوشش بھی کرنا ہوتی ہے۔ یہ تو دو دھاری تلوار پر چلنے جیسا معاملہ ہے۔ غلطی کی گنجائش بھی ہوتی ہے مگر بہت کم۔ رشتوں اور تعلقات میں ہمیں بہت سے امور کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔
جہاں جوش و خروش کی ضرورت ہو وہاں ٹھنڈا مزاج کام نہیں آتا۔ جہاں سنجیدگی، بُرد باری اور ٹھنڈک درکار ہو وہاں بے جا شور شرابہ اور نام نہاد جوش و خروش کھیل بگاڑ دیتا ہے۔ ہمیں زندگی بھر اپنے افکار و اعمال کو صورتِ حال کے تقاضوں کے مطابق رکھنا پڑتا ہے۔ لوگوں سے بہتر تعلقات استوار رکھنا چونکہ زندگی بھر کا معاملہ ہے اس لیے ہم اس معاملے کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ کامیاب وہی رہتے ہیں جو اپنے تعلقات کو معقول حد تک کامیاب رہتے ہیں۔ یہ سب کچھ خود بخود نہیں ہوتا، بھرپور لگن اور محنت سے یقینی بنانا پڑتا ہے۔ لوگ آپ کو کب پسند کرتے ہیں؟ اُس وقت جب آپ اُن جیسے ہوں یا اُن کی خوبیوں کو سراہیں۔ کسی کی خوبیوں کو سراہنے کی ایک عملی صورت یہ بھی ہے کہ اُن خوبیوں کو‘ کسی نہ کسی حد تک‘ اپنی ذات میں سمونے کی کوشش کی جائے۔ یہ عمل بھی آپ سے ایثار اور قربانی کا تقاضا کرتا ہے۔ ہمیں زندگی بھر ایسے لوگوں سے تعلقات استوار رکھنا پڑتے ہیں جو مکمل طور پر ہماری مرضی کے مطابق تو نہیں ہوتے مگر ایسے گئے گزرے بھی نہیں ہوتے کہ اُن سے تعلقات ختم کرلیے جائیں۔ ایسے لوگوں سے بناکر رکھنا ہمارے لیے ایک بڑے امتحان کا درجہ رکھتا ہے۔ ہمیں زندگی بھر ایڈجسٹمنٹ کے مرحلے ہی سے گزرنا ہوتا ہے۔ جہاں انتہائی قدم اٹھانا ناگزیر ہو وہاں تو خیر ایسا ہی کرنا پڑتا ہے مگر مشکل یہ ہے کہ لوگ کسی معمولی سی بات پر بھی انتہائی قدم اٹھالیتے ہیں۔ ایسی کسی بھی حرکت سے معاملات بگڑتے ہیں، تعلقات خرابی کی طرف جاتے ہیں۔
تعلقات بہتر یا خوشگوار رکھنے کے کئی طریقے ہیں۔ ایک بنیادی اور نہایت کارگر طریقہ یہ ہے کہ ہم دوسروں میں خوبیاں تلاش کرکے اُنہیں سراہیں اور خامیوں کو یا تو نظر انداز کریں یا پھر خاصی ذہانت اور تحمل سے خامیاں تلاش کرکے اُن کی نشاندہی ایسے انداز سے کریں کہ فریقِ ثانی کو زیادہ بُرا نہ لگے۔ کسی کی خامیوں پر براہِ راست شدید نوعیت کی تنقید کرنے کے بجائے سلجھے ہوئے انداز سے، اصلاح کی نیت کے ساتھ، کچھ کہنا زیادہ کارگر ثابت ہوتا ہے۔ تعلقات کو خرابی سے اِسی طور بچایا جاسکتا ہے۔ شدید تنقید کا سامنا کرنے پر لوگ بھڑک اٹھتے ہیں اور اپنی اصلاح پر مائل ہونے کے بجائے تنقید کرنے والے کو نفرت کی نظر سے دیکھنا شروع کردیتے ہیں۔ کسی بھی انسان کو کچھ مثبت کرنے کی تحریک اُسی وقت ملتی ہے جب اُس پر تنقید کم کی جائے اور سراہا زیادہ جائے۔ ہر انسان میں کچھ نہ کچھ ایسا ہوتا ہے جس کی بنیاد پر اُس کی ستائش کی گنجائش نکل سکتی ہے۔ ہمیں دوسروں میں خامیاں نہیں‘ خوبیاں تلاش کرنا چاہئیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ خامیوں پر مٹی ڈال دی جائے۔ خامیوں کی نشاندہی بھی لازم ہے تاکہ متعلقہ فرد کو اپنی کمزوری کا سبب معلوم ہوسکے۔ ہاں! خامیوں کی نشاندہی کا عمل غیر معمولی حد تک معقول ہونا چاہیے تاکہ غیر ضروری دل آزاری نہ ہو۔ دنیا کا ہر انسان کچھ نہ کچھ کرنا چاہتا ہے۔ جو بہت بُرے ہیں وہ بھی اپنے اندر تھوڑی بہت اچھائی دیکھنا چاہتے ہیں۔ اب تک جو کچھ نہیں کر پائے وہ بھی کچھ نہ کچھ کرنا چاہتے ہیں تاکہ دنیا ان کے حوالے سے اچھا سوچے، انہیں احترام کی نظر سے دیکھے۔ لوگ ہم سے بہت سی توقعات وابستہ رکھتے ہیں۔ ایک بڑی اور بنیادی توقع یہ ہے کہ ہم انہیں سراہیں‘ قبول کریں۔ یہ توقع بے جا نہیں کیونکہ ہم خود بھی تو یہی چاہتے ہیں۔ ہمیں تعلقات بہتر بنانے کے معاملے میں خود کو دوسروں کے مقام پر رکھ کر سوچنا چاہیے۔ جب ہم ایسا کریں گے تو دوسروں کی مشکلات اور آسانی کا بہت حد تک اندازہ ہو سکے گا۔ ہر انسان بہترین کارکردگی کا مظاہرہ اس وقت کرتا ہے جب دوسروں کو اس پر اعتماد ہو اور وہ اس سے کام لینے کے خواہش مند بھی ہوں۔ تعلقات کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ ہمیں دوسروں پر بھروسا کرنا ہوتا ہے۔ جب ہم کسی پر بھروسا کرتے ہیں تو وہ بھی معاملات کو درست رکھنا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے۔ تعلقات کو پروان چڑھانے میں اعتماد اور بھروسا غیر معمولی کردار ادا کرتے ہیں۔ جب ہم کسی کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ ہمیں اس پر بھروسا ہے تو وہ بھی اپنے کاندھوں پر ذمہ داری کا تھوڑا بہت بوجھ محسوس کرتا ہے اور یوں اسے بھی کچھ نہ کچھ کر دکھانے کی تحریک ملتی ہے۔ کاروباری اداروں میں عمدہ کارکردگی اسی وقت ممکن ہو پاتی ہے جب ملازمین کی صلاحیت و سکت پر بھروسا کیا جائے۔ جن ملازمین کو یہ احساس دلایا جائے کہ ادارے کو اُن کی ضرورت ہے‘ وہ اپنا کام جوش و خروش کے ساتھ کرتے ہیں اور ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ ادارے کے لیے زیادہ سے زیادہ مفید ثابت ہوں۔ اس دنیا میں کوئی بھی شخص تنہا کچھ نہیں کرسکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شخصی ارتقا کے لیے انسان کو اپنے طور پر بہت کچھ کرنا پڑتا ہے مگر یہ بھی ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ہم دوسروں کی مدد کے بغیر دو قدم بھی نہیں چل سکتے۔ جب ہم شخصی ارتقا کی بات کرتے ہیں تو بات کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ ہمیں دوسروں کی طرف سے جو تعاون میسر ہے‘ اُسے ڈھنگ سے بروئے کار لائیں گے۔ فلم کسی ایک کردار کو بنیاد بناکر بنائی جاتی ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ فلم کی کامیابی کا پورا کریڈٹ اس کردار کے ادا کرنے والے کو دیدیا جائے۔ سچ یہ ہے کہ اپنے اپنے شعبے کے بہت سے ماہرین جب مل کر کام کرتے ہیں تب فلم بنتی ہے۔ یہی معاملہ ہماری زندگی اور تعلقات کا بھی ہے۔ معیاری انداز سے زندگی بسر کرنے کے لیے دوسروں پر بھروسا کرنا بھی لازم ہے‘ اشتراکِ عمل کی صورت ہی میں حقیقی کامیابی یقینی ہو پاتی ہے۔ ایک دوسرے کو اپنانے اور مل جل کر کام کرنے کے معاملے میں ہچکچانے اور جھجکنے کی ضرورت ہے نہ گنجائش۔ ساحرؔ لدھیانوی نے خوب کہا ہے ؎
اس قدر ہم سے جھجکنے کی ضرورت کیا ہے؟
زندگی بھر کا ہے اب ساتھ، قریب آ جاؤ