تحریر : محمد اعجاز میاں تاریخ اشاعت     07-11-2020

ریاست سے زیادہ طاقتور؟

جمہوریت ایک آزاد سیاسی‘ اخلاقی‘ معاشی اور معاشرتی ڈھانچے اور عوامی شمولیت و بالادستی کا نام ہے‘ یعنی ایسا نظام حکومت جہاں تمام تر اہمیت کے حقدار صرف عوام ہوں۔ بابائے جمہوریت ابراہم لنکن نے اس نظام کی تعریف یوں کی ''حکومت جو عوام کی ہو‘ عوام سے ہو اور عوام کیلئے ہو‘‘۔ بیسیوں صدی میں جمہوری نظام پوری دنیا میں کامیاب حکومتی ماڈل کے طور پر ابھرا۔ 90ء کی دہائی میں امریکی مصنف Francis Fukuyama نے بھی اپنی معروف کتاب ''The End of History and the Last Man‘‘میں لکھا کہ دنیا میں جمہوری لبرلزم اور Capitalist System جیت گیا ہے‘ جو ارتقا کی منازل طے کر کے ایک مثالی نظام بن چکا ہے۔ اس مفکر کا خیال یورپی ممالک کی حد تک درست تھاجہاں آبادی کم اور پڑھی لکھی ہے جبکہ حکمران عوامی احساس رکھنے والے ہیں‘ وگرنہ ترقی پذیر اور تھرڈ ورلڈ ممالک میں تو ہمیشہ جمہوریت کی آڑ میں فسطائیت اور مفاد پرستیاں پروان چڑھی ہیں‘ جہاں کرپشن‘ لوٹ مار‘ مہنگائی‘ غربت اور بیروزگاری کے باعث عوام کا جینا محال ہے۔ پاکستان کا شمار بھی ایسے ممالک میں ہوتا ہے۔ وہ اقتدار جسے جمہوری ادوار میں عوام تک منتقل ہونا تھا وہ بار بار چند خاندانوں میں تقسیم ہوتا رہا اور وہ سیاستدان جنہیں عوامی خدمتگار بننا تھا وہ طاقت اور پیسے کی ہوس میں مبتلا ہو کر ماریو پوزوکے ناول ''God Father‘‘ کے کردار بنتے گئے‘ جو اپنے اقتدار اور مفادات کے پجاری رہے اور عوام ہمیشہ ان کیلئے Misplaced Priorityرہے۔
پاکستان میں موروثی سیاست نے کئی دہائیوں سے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے‘ مگر جب ان سیاستدانوں کا احتساب کیا جائے تو انتقام کا شور مچانا شروع کردیتے ہیں‘ حالانکہ احتساب جمہوریت کا بنیادی جزو ہے‘ مگر ہمارے سیاستدان ہمیشہ اپنے مقاصد کے حصول کیلئے اداروں کو متنازع بناتے ہیں۔ کیا کبھی پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت کی روح‘ Sovereignty of the Parliament کو یقینی بنایا گیا ؟ پارلیمان میں تحریک عدم اعتماد‘ مائنس ون مائنس تھری‘ شورشرابوں‘ گالم گلوچ کے سوا کیا گونج سنائی دی؟ مگر زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے سادہ لوح عوام ان شاطر اور لٹیرے مافیاز کو ٹھکرانے کے بجائے ہمیشہ ان کے نرغوں میں بآسانی پھنس جاتے اور مہرے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔
موجودہ حکومت کے خلاف حزب اختلاف کی گیارہ جماعتیں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے اتحاد بنا چکی ہیں‘ کل تک ایک دوسرے کو چور ڈاکو کہہ کر سڑکوں پر گھسیٹنے کے دعوے کرنے والے آج ہاتھ میں ہاتھ ڈالے سٹیج پر ایک ساتھ بیٹھے ہیں۔ بقول حزب اختلاف اس تحریک کا مقصد عمران خان کی جعلی حکومت کو ہٹانا اور ملک میں نئے شفاف انتخابات کی راہ ہموار کرنا ہے‘ جبکہ مسند اقتدار پر براجمان حکمران اس ساری صورتحال کو فقط پتلی تماشا سمجھتے ہوئے کسی نئے این آر او کی کوشش قرار دیتے ہیں۔ ایسے کئی اتحاد تاریخ میں پہلے بھی بنتے رہے ہیں جن کا مقصد خالصتاً ذاتی مفادات کا حصول رہا‘ چاہے وہ 1988ء میں پیپلز پارٹی کے مقابلے مصطفی جتوئی کا اسلامی جمہوری اتحاد ہو یا پرویز مشرف کے دور میں 18 سیاسی جماعتوں کا گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس‘ جس میں پہلی بار مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوئے اور چارٹر آف ڈیمو کریسی پر دستخط کیے گئے‘ ناقدین کا خیال ہے کہ یہ میثاق دراصل جمہوریت کی بحالی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے درمیان اقتدار کی بندر بانٹ کا سوچا سمجھا منصوبہ تھا‘ 2002ء کے انتخابات سے قبل دینی جماعتوں نے بھی مل کر ایم ایم اے اتحاد بنایا‘ جس نے بعد میں خیبر پختونخوا اوربلوچستان میں سالوں تک حکمرانی کی اور اب شکست خوردہ مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں بننے والے پی ڈی ایم کے مقاصد بھی عوامی نہیں بلکہ ذاتی نظر آتے ہیں‘ جن کا ہدف عمران خان سے زیادہ ریاستی ادارے لگ رہے ہیں۔اس اتحاد میں شریک سیاسی جماعتیں اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ریاستی اداروں کا احترام داؤ پر لگا رہی ہیں۔ سیاسی قوت حاصل کرنے کی ہوس میں ریاست کی تمیز کوبھلا دیا گیا ہے‘ جبکہ قومی سلامتی کے راز بلا خو ف و خطر افشا کیے جا رہے ہیں۔
دراصل ہمارے سیاستدان یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ پاکستان جیسی سکیورٹی سٹیٹ میں فوج کا اہم کردار ہوتا ہے‘ ایسا ملک جو ایٹمی طاقت ہو‘ جہاں ہر وقت اندرونی و بیرونی خطرہ منڈلا رہا ہو‘ مشرقی سرحد پر آپ کاہمسایہ دن رات آپ کو جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہو اور مغربی سرحد کے ذریعے بد امنی پیدا کرنے کی کوششیں ہو رہی ہو اور بیرونی طاقتیں ہر وقت گیم چینجر منصوبے سی پیک کو نقصان پہنچانے پر مرکوز ہوں تو وہاں فوج کی خارجی ہی نہیں بلکہ داخلی ذمہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں ور فوج حکومتی پالیسیاں اور فارن پالیسی ترتیب دینے‘ قومی سلامتی کے فیصلوں میں معاونت کرنے‘ خطروں اور اندیشوں کے بارے حکومت کو آگاہ کرنے‘ تجاویز دینے اورامن و امان کو یقینی بنانے میں بھی سرگرم رہتی ہے۔ جمہوری سپر پاور امریکہ کے داخلی اور خارجی معاملات میں بھی پینٹا گون اور سی آئی اے کا خاص کردار ہوتاہے۔ بعض سیاست دانوں کا شکوہ ہے کہ متعدد ادارے مثلاً NDMA فوج کے حواے کر کے سویلین بالادستی کو کمزور کر دیا گیا‘ حالانکہ ایک ایسا ملک جہاں سیاستدان کونسلر کا الیکشن تک غیر متنازع نہ کروا سکیں‘ کرکٹ میچ نہ کروا سکیں تو وہاں فوج ہی کو یہ ذمہ داریاں پوری کرنا پڑتی ہیں۔ ویسے بھی پوری دنیا میں ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے فوج ہی پیش پیش ہوتی ہے۔چین میں کنسٹرکشن سے لے کر اشیائے خورونوش کی رسائی تک ہر کام میں فوج کی مدد لی جاتی ہے۔ حال ہی میں ٹرمپ نے بھی کورونا ویکسین کی تقسیم فوج کے ذریعے ہی کروانے کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح ایک اور خطرناک پہلو اسلام مخالف طاقتوں کی جانب سے مسلم دنیا میں خانہ جنگوں اور عدم استحکام پیدا کرنے کی سازش ہے۔ عراق‘ شام‘ لیبیا‘ فلسطین‘ یمن اور افغانستان میں طویل عرصے سے چلی آنے والی جنگیں اس خطرے کی واضح مثالیں ہیں۔ دشمن کی کوشش تو یہ تھی کہ افغانستان کے راستے پاکستان کو بھی غیر مستحکم کیا جائے مگر ہماری افواج کی بدولت ہی ملکی سلامتی قائم ہے؛ چنانچہ پاکستان کے ریاستی و حکومتی معاملات میں فوج کے کردار کو ختم کرنا ملک کو غیر محفوظ کرنے کے مترادف ہے۔ 
ذرا سوچیں کہ جمہوریت نے پاکستان کو کون سا عوامی لیڈردیا؟ اس نظام نے ہمیں نواز شریف و شہباز شریف دیے‘ آصف زرداری اور فضل الرحمن دیے‘ اچکزئی اور اویس نورانی دیے‘ اور اب اگر اس جمہوریت کا مستقبل بلاول بھٹو‘ مریم نواز یا کرپشن کا پیسہ ٹھکانے لگانے والے حمزہ و سلمان شہباز ہی ہیں تو ہمیں یقینا اپنے '' سیاسی نظام اور سماجی معاہدے‘‘ پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ریاست کے وسائل پر پلنے والے یہ جمہوریت دان آج ریاست سے زیادہ طاقتور ہو چکے ہیں‘ اور ریاست ان کے سامنے کمزور اور لاغر دکھائی دیتی ہے۔ یہ مفاد پرست ملک میں یکجائیت نہیں بلکہ لسانیت‘ نسل پرستی اور مذہبی تعصب بڑھانے کے ذمہ دار ہیں۔ انہی کی وجہ سے آج ہم پنجابی‘ سندھی‘ بلوچ‘ پٹھان‘ مہاجر وں میں بٹ چکے ہیں۔ یہ ریاست کے اندر اپنی ریاستیں بنا چکے ہیں‘ لہٰذا پاکستان میں سیاسی و سماجی نظام کی تبدیلیاں ناگزیر ہو تی جا رہی ہیں۔ ہمارے سامنے چین کا مثالی ماڈل موجود ہے‘ جہاں شفافیت اور میرٹ کے ذریعے عوامی خوشحالی کو یقینی بنایا جا رہا ہے‘احتساب کا کڑا نظام ہے‘ جبکہ معاشی فوائد عام آدمی تک پہنچائے جاتے ہیں۔ اسی طرح سنگاپور کا ماڈل بھی ہے؛ چنانچہ ہمیں اب سوچنا ہوگا کہ ہمیں انسانی حقوق زیادہ عزیز ہیں یا تھر کے بچوں کیلئے روٹی اور بیروزگار نوجوانوں کا مستقبل عزیز ہے؟ وقت آ چکا کہ شخصی سیاست اور خاندانی جمہوریت کے خواہش مندوں کے مقابلے میں ریاست کو تقویت پہنچائی جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved