جون کا مہینہ تھا یا جولائی کا، یہ تو یاد نہیں لیکن یہ اچھی طرح یاد ہے کہ بیسویں صدی کا انہترواں سال تھا، 1969ء۔ میں (شاید) کراچی پریس کلب میں چند دوستوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ ایک معاون میرے پاس آیا، آپ کا فون آیا ہے۔ اُن دِنوں موبائل تو تھے نہیں، نہ ہی ٹیلی فون کی سہولت گھر گھر موجود تھی، پریس کلب میں بھی فون سننے کے لیے کائونٹر پر (یا دفتر میں) جانا پڑتا تھا۔ اپنی نشست سے اُٹھ کروہاں پہنچے اور ریسیور کان سے لگا کر ہیلو کہا تو آواز آئی... مَیں اعجاز بول رہا ہوں‘ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی... اُردو ڈائجسٹ سے... ہمہ تن گوش ہو کر عرض کیا، فرمایے۔ارشاد ہوا: ہم نے سوچا ہے (یا فیصلہ کیا ہے) کہ آپ کو ایڈیٹر بنا دیا جائے... کہاں کا؟... بھئی ہم ایک ہفت روزہ شائع کرنے والے ہیں، آپ اس کی ذمہ داری سنبھالنے کے لیے تیار ہو جائیں، اور لاہورکا ارادہ کر لیں۔
یا الٰہی خیر، مَیں اُن دِنوں ادارہ جنگ کے ہفت روزے ''اخبارِ جہاں‘‘ میں ''فیچر رائٹر کے طور پر کام کر رہا تھا۔ ملک بھر میں اسلام اور سوشلزم کی جنگ جاری تھی، اس پر اہلِ سیاست کبڈی کھیل رہے تھے، دائیں اور بائیں کی تقسیم گہری ہو گئی تھی، میرا وزن دائیں پلڑے میں تھا، اور ہفت روزہ ''اخبارِ جہاں‘‘ میں جید علمائے کرام کے انٹرویوز کے ذریعے رائے عامہ کو منظم کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہا تھا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، مولانا مفتی محمد شفیعؒ، اور مولانا احتشام الحق تھانوی ؒصاحبان کے انٹرویوز نے تہلکہ برپا کر دیا تھا، اور انٹرویو نگار کو قومی سطح پر متعارف بھی کرا دیا تھا۔ الطاف حسن قریشی صاحب سے براہِ راست ملاقات کا شرف حاصل تھا، ڈاکٹر اعجاز صاحب سے بھی تعارف ہو چکا تھا۔ وہ ان دِنوں مہینے کے پندرہ دن لاہور میں اور پندرہ دن کراچی میں قیام کرتے تھے۔ پیش کش اتنی اچانک تھی کہ فوری طور پر کوئی جواب نہ بن پڑا، غور کے لیے مہلت طلب کی۔ اس کے بعداعزہ و اقربا سے مشورہ شروع کیا۔ بڑی تعداد کی رائے تھی کہ یہ ''رسک‘‘ نہیں لینا چاہیے۔ جمی جمائی نوکری نہ چھوڑی جائے۔ یہ بھی کہا گیا کہ تمہارے جیسا منہ پھٹ درباری راگ الاپ نہیں سکے گا، اور خوار ہو جائے گا۔ یہ خدشہ بے جا نہ تھا کہ ''پروٹوکول‘‘ کی خلاف ورزیپر جان جانِ آفرین کے سپرد ہو جائے۔ برادر بزرگ صاحبزادہ ضیاء الرحمن شامی اُن دِنوں کراچی آ چکے تھے، اور ایک بڑے صنعتی ادارے میں ایک بڑے منصب پر فائز تھے، بھابھی جان نسیمہ سے میرا تعلق ماں کا سا تھا، انہوں نے ہچکچاہٹ دیکھ کر قہقہہ لگایا، اور کہا کہ نالائق آدمی، ذمہ داری سے گھبراتے ہو؟ یہ سن کر سر ہتھیلی پر رکھنے کا فیصلہ کر لیا، اور ڈاکٹر صاحب کو اطلاع کر دی کہ آ رہا ہوں۔ انہوں نے ارشاد فرمایا، آپ کو ساڑھے سات سو روپے ماہوار ملیں گے۔ ساڑھے سات سو روپے؟ سراپا سوال بن کر جواب دیا، مَیں اتنے پیسوں کا کیا کروں گا؟ کراچی میں مشاہرہ سوا چار سو روپے تھا، اور مَیں بھائی صاحب کے ساتھ رہتا تھا۔ ساڑھے سات سو روپے تو روزناموں کے بھی کم ہی ایڈیٹروں کو مل رہے ہوں گے۔ دو ٹوک جواب تھا کہ پانچ سو روپے لوں گا۔ پہلے کام کروں گا، اگر کچھ کر کے دکھا سکا، تو پھر جو چاہے مقرر کر دیجیے گا۔
ڈاکٹر صاحب یہ سن کر ورطۂ حیرت میں ڈوب گئے۔ گویا ہوئے، ہم جسے تین سو روپے آفر کرتے ہیں وہ چار سو کی بات کرتا ہے، جسے چار سو کے قابل سمجھتے ہیں، وہ پانچ چھ سو پر نہیں ٹکتا، آپ کیسے نوجوان ہیں کہ کم تنخواہ کی بات کر رہے ہیں۔ جواب دیا، مجھے اپنے بارے میں بخوبی علم ہے، جب تک استحقاق ثابت نہیں کروں گا، زیادہ تنخواہ نہیں لوں گا۔ پہلے کام، پھر دام۔ لاہور پہنچے توپُرتپاک استقبال ہوا، ڈاکٹر صاحب نے اپنی کوٹھی کے مہمان خانے میں ٹھہرا لیا۔ ان کی رہائش دفتر سے چند ہی قدم کے فاصلے پر تھی۔ مَیں ان کا ''وی آئی پی‘‘ مہمان تھا۔ چند ہی روز بعد مجھے دفتر میں ایک اضافی کمرہ الاٹ ہو گیا۔ یہ میرا ''بیڈ روم‘‘ تھا۔ جب تک دفتر میں مقیم رہا، کھانا ڈاکٹر صاحب کی بیگم صاحبہ کے ہاتھ ہی کا پکا ہوا نصیب ہوا۔ ہفت روزہ ''زندگی‘‘ کا آغاز زوردار تھا، اس نے اشاعت کے نئے ریکارڈ قائم کر دکھائے۔ مشرقی پاکستان تک میں اس کا انتظار کیا جاتا۔ کراچی میں ہزاروں کاپیاں جاتیں اور ہاتھوں ہاتھ نکل جاتیں۔ الحمدللہ چند ماہ گزرنے کے بعد تنخواہ ایک ہزار پچاس روپے مقرر ہوئی۔
ڈاکٹر اعجاز صاحب اُردو ڈائجسٹ پبلی کیشنز کے چیف ایگزیکٹو تھے، مجلسِ ادارت کے چیئرمین، جبکہ الطاف حسن قریشی صاحب مدیر مسؤل تھے۔ الطاف صاحب نے ''اُردو ڈائجسٹ‘‘ کے ایڈیٹر کے طور پر جو کچھ لکھا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ڈاکٹر اعجاز صاحب بلا شرکت غیر انتظامی امور کے ذمہ دار تھے۔ کارکنوں کے حالات کار کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے کوشاں رہتے۔ جوہر قابل ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتے۔ وہ پنجاب یونیورسٹی میں تاریخ کے استاد رہے تھے، جرمنی سے پی ایچ ڈی کر کے آئے تھے۔ اُردو کے ساتھ ساتھ انگریزی اور جرمن پر بھی دسترس تھی، لیکن دفتر کے سارے امور اُردو میں نمٹائے جاتے۔ اُردو کو سرکاری زبان بنانے کی تمنا ان کے دِل میں ہمیشہ جواں رہی۔ وہ چیک پر دستخط بھی اُردو میں کرتے تھے، الطاف حسن قریشی صاحب کا بھی یہی معمول تھا، یہی عادت مَیں نے اپنائی، اور انگریزی دستخطوں کا رواج نہیں اپنایا۔
ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کا اقتدار ادارۂ اُردو ڈائجسٹ کے لئے آزمائش بن کر آیا۔ مارشل لا نے ماہنامہ ''اُردو ڈائجسٹ‘‘ اور ہفت روزہ ''زندگی‘‘ کو بند کر کے ڈاکٹر صاحب، الطاف صاحب اور مجھے گرفتار کر لیا۔ فوجی عدالت میں مقدمہ چلا تو ہم سب نے اسے قانونی عدالت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ دستور کے تحت قائم نہیں گئی تھی۔ ہمارے یہ بیانات اب تاریخ کا حصہ ہیں۔ ڈاکٹر اور الطاف صاحبان یک جان،دو قالب تھے۔ اُنہیں ''قریشی برادران‘‘ کے نام سے یاد کیا جانے لگا، علی برادران کے ساتھ اُن کا نام لیا جاتا اور ان پر فخر کیا جاتا تھا۔ انہوں نے جرأت و عزیمت کی نئی داستانیں رقم کر دی تھیں۔
'' اُردو ڈائجسٹ‘‘ اور ہفت روزہ ''زندگی‘‘ کی بندش کے بعد اُن کی جگہ ایک مدت تک دوسرے رسالے شائع ہوتے رہے، نیا ڈیکلریشن تو مل نہیں سکتا تھا، جواں ہمت دوستوں کی پیشکشیں کامآتی رہیں، اور اشاعت کا سلسلہ جاری رہا۔ یہ عہد تمام ہوا قریشی برادران کے انمٹ نقوش اس پر ثبت تھے۔ اس دوران ادارہ اُردو ڈائجسٹ ہفت روزہ ''زندگی‘‘ کی اشاعت سے دستکش ہو گیا تو مَیں نے اپنے رفقا کے ساتھ گریبان کو پرچم بنا لیا۔ معاش علیحدہ ہو گئی، لیکن راستہ الگ نہیں ہوا۔ محبت اور عزت کا تعلق آخر دم تک استوار رہا۔ ڈاکٹر صاحب نے کم وسیلہ ہونہار بچوں کی مالی معاونت کے لئے ''کاروانِ علم فائونڈیشن‘‘ کی بنیاد رکھی، تو مجھے بھی شریکِ سفر بنایا۔ اس کے پہلے صدر اورینٹ ایڈورٹائزرز کے شہرہ آفاق سربراہ ایس ایچ ہاشمی مرحوم تھے، ان کی وفات کے بعد ایس ایم ظفر صاحب نے یہ ذمہ داری سنبھالی، خرابیٔصحت کے باعث انہوں نے معذوری ظاہر کی تو کاروانِ علم فائونڈیشن کی صدارت مجھے سونپ دی گئی، مجھے اس کا ڈاکٹر عارف علوی کہہ لیجیے یا ممنون حسین، یا رفیق تارڑ۔ اس ادارے کے عمران خان یا نواز شریف ڈاکٹر صاحب ہی تھے۔ اس کی بدولت ہزاروں نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے اپنے حصے کی شمع روشن کرنے میں مصروف ہیں۔ ان میں ڈاکٹر ہیں، انجینئر بھی اور دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے بھی۔ ڈاکٹر صاحب بانوے سال گزار کر اس دُنیا سے رخصت ہوئے ہیں تو دِل ان کی یادوں سے بھرا ہوا ہے، آنکھیں بھی بھر بھرآتی ہیں؎
یہ تیرے قرب کا اعجاز ہے ورنہ پہلے
طاق اتنے کہاں جینے کے ہنر میں ہم تھے
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)