تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     08-11-2020

نواز شریف کا بیانیہ اور شہباز شریف کا حیرانیہ

آج کل جمہوریت پسندوں میں میاں نواز شریف کے بیانیے کا بڑا غلغلہ ہے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ جہاں تک اس بیانیے کا تعلق ہے میں خود اس کا کافی حد تک قائل اور مقلد ہوں۔ لیکن اب اس بیانیے کے باعث اگر کوئی میاں نواز شریف کو مجاہد ملت، جانبازوں کے دستے کے سالار، جمہوریت کے قافلے کے قائد اور ملک کی آخری امید قرار دے کر ان کی بہادری، جانبازی اور دلیری کے جھنڈے بلند کرنے لگ جائے تو مجھے بہت ہنسی آتی ہے۔ پنجابی کی ایک کہاوت ہے کہ جو شخص آپ کے منہ پر جھوٹ بولے اور دریا کے پار کھڑا ہو کر آپ کوبرا بھلا کہے آپ اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔ میاں صاحب ہمارے منہ پر جھوٹ بول رہے ہیں اور دریا کے پار کھڑے ہو کر مقتدر حلقوں کو للکار رہے ہیں۔ یہ بہادری نہیں۔ سچ یہ نہیں کہ آپ اپنے ملازموں، ماتحتوں اور زیردست لوگوں کے سامنے بولیں اور پھر اپنی سچائی اور بہادری کا ڈنکا بجائیں۔ بہادری اپنے افسر، اپنے سے زبردست اور طاقتور کے سامنے حق گوئی کا نام ہے۔ اسی طرح بہادری اور دلیری سامنے آکر للکارنے کا نام ہے نہ کہ وڈیو لنک پر خطاب کے ذریعے اپنی بہادری، حق گوئی اور بے باکی کا جھنڈا گاڑا جائے۔ میاں صاحب آج کل ایسے ہی جھنڈے گاڑنے میں مصروف ہیں اور ان کے حواری، طبلچی اور متوالے اس بہادری کا ذکر کرتے ہوئے ان کو دنیا کے چند نابغہ قسم کے جانباز لیڈروں میں سے ایک قرار دے رہے ہیں۔ ہائیڈ پارک کے سپیچ کارنر میں کھڑے ہوکر میں نے ان سے زیادہ حق اور سچ پر مبنی تقاریر سنی ہیں۔ وہاں تو ایسے ایسے حق گو نظر آتے ہیں جو برطانیہ میں رہ کر ملکہ برطانیہ کو سرعام برا بھلا کہہ رہے ہوتے ہیں۔ لندن بیٹھ کر گوجرانوالہ اور کوئٹہ وغیرہ کے جلسے میں وڈیو لنک پر بہادری کے جھنڈے گاڑنے پر انہیں جرات کے تمغوں سے نوازنے سے پہلے میاں صاحب سے اس عاجز کی درخواست ہے کہ ملک و قوم کو آپ کے بیانیے کے ساتھ ساتھ آپ کی قیادت کی بڑی ضرورت ہے۔ آپ براہ کرم ہمیں صرف بیانیے سے نہیں بلکہ اپنی ذات شریف سے بھی نوازیں اور واپس پاکستان آکر قوم کو بہادری کا سبق پڑھائیں۔ اور ہاں! واپسی پر اپنے دونوں برخورداران عزیزی حسن اور حسین نواز کو واپس لیتے آئیں اور جھونگے میں سلمان شہباز اور ان کے بہنوئی کو بھی اس جدوجہد میں حصہ ڈالنے کیلئے اپنے ہمراہ لائیں کیونکہ ہمارے سیاسی لیڈر چوری اپنے اولاد کو کھلاتے ہیں اور قربانی قوم کے بچوں سے طلب کرتے ہیں۔ ایک طرف ان کے بیانیے کا غلغلہ ہے اور دوسری طرف ان کے ممدوح قوم کو اس بیانیے کی خاطر جان کی قربانی کے لیے تیار کر رہے ہیں۔
قارئین! اس سے قبل کہ میاں نواز شریف کے شہرہ آفاق بیانیے پر قوم کو جان قربان کرنے کا سبق دینے والوں پر کوئی بات کروں، مناسب سمجھتا ہوں کہ اس سلسلے میں ایک پرانا واقعہ بیان کر دوں۔ یہ واقعہ سوشل میڈیا پر خاصا مقبول ہو رہا ہے۔ اس کی گوکہ تصدیق نہیں ہوئی؛ تاہم اتنا وائرل ہونے کے باوجود کسی جانب سے تردید بھی نہیں آئی تو اسے درست ماننے میں کوئی خاص حرج نہیں ہے کہ تصدیق یا تردید کی غیر موجودگی میں خاموشی کو نیم رضامندی ہی سمجھا جائے گا۔ یہ 12اکتوبر 1999ء کا واقعہ ہے جب میاں نواز شریف نے بطور وزیراعظم جنرل پرویز مشرف کی برطرفی کا نوٹیفکیشن جاری کیا اور حکم دیا کہ اسے پی ٹی وی پر فوراً چلایا جائے۔ تب یوسف بیگ مرزا پی ٹی وی کے ایم ڈی تھے۔ اب پی ٹی وی نے دو تین بار یہ خبر چلا دی کہ جنرل پرویز مشرف کو برطرف کر دیا گیا ہے اور ان کی جگہ جنرل ضیاالدین بٹ کو نیا آرمی چیف مقرر کر دیا گیا ہے۔ وزیراعظم ہائوس کی اس خبر کے دو تین بار نشر ہونے سے تسلی نہیں ہو رہی تھی اور وہاں سے اصرار تھاکہ یہ خبر بار بار اور مسلسل نشر کی جاتی رہے۔ اسی اثنا میں آرمی کے دستے پی ٹی وی کی عمارت میں داخل ہو گئے اور انہوں نے وہاں کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اسی دوران وزیراعظم ہائوس سے حسین نواز کا بار بار یوسف بیگ مرزا کو فون آ رہا تھاکہ آپ لوگوں نے جنرل پرویز مشرف کی برطرفی اور ضیاالدین بٹ کی تعیناتی کی خبر چلانا کیوں بند کر دی ہے۔ حسین نواز کو بتایا گیا کہ نیوز روم پر آرمی کا کنٹرول ہے۔ حسین نواز شریف نے کہا کہ پھر کیا ہوا؟ آپ ایم ڈی ہیں۔ خبر چلوائیں۔ اس پر بیگ صاحب نے کہا کہ جناب! ان کے پاس بندوقیں ہیں اور وہ کسی کو قریب نہیں آنے دے رہے۔ اس پر حسین نواز نے ایک تاریخی فقرہ کہا: بیگ صاحب! یہ شہادت کا وقت ہے۔ آپ ان سے لڑ جائیں، کیا ہوا اگر وہ آپ کو گولی مار دیں گے، آپ شہادت کے رتبے پر فائز ہو جائیں گے۔ دوسروں کو شہادت کے رتبے پر فائز ہونے کا درس دینے والے خود لندن میں ان فلیٹوں میں مزے کر رہے ہیں جو ان کی ملکیت ہی نہیں تھے اور قوم کو اپنے بیانیے پر قربان ہونے کی تلقین کی جا رہی ہے۔
قوم کو بیانیے پر جان دینے کی ترغیب سے یاد آیا کہ میاں نواز شریف کے بیانیے سے تو شہباز شریف کو اتفاق نہیں ہے‘ یعنی پارٹی کے رہبر اور قائد کے بیانیے سے پارٹی کے صدر کو اتفاق نہیں۔ کیا مزے کی بات ہے۔ شہباز شریف اپنے بڑے بھائی میاں نواز شریف کے تابع فرمان بھی ہیں اور حکم کے غلام بھی۔ ان سے محبت کرتے ہیں اور بے پناہ احترام بھی۔ ان کی خاطر کئی بار اقتدار کی آفرز کو ٹھوکر بھی مار چکے ہیں اور ان کی سیاسی میراث کے آج کل امین بھی ہیں‘ یعنی مسلم لیگ ن کے صدر بھی ہیں‘ لیکن اپنی تمام تر فرمانبرداری اور احترام کے باوجود ان کے بیانیے سے ایک سو اسی ڈگری کا موقف رکھتے ہیں۔ اسی دوران شہباز شریف صاحب کی گرفتاری کا معاملہ بھی بڑا مزیدار ہے۔ انہوں نے اپنی درخواست ضمانت واپس لے لی تھی‘ جس کے نتیجے میں انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ درخواست ضمانت واپس لینے سے مراد یہ ہے کہ مجھے اب باہر رہنے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں اور اب میں برضا و رغبت اور بلا جبر و کراہ اپنی مرضی سے جیل جانے کا خواہشمند ہوں‘ لہٰذا مجھے میری مرضی سے حوالۂ زنداں کر دیا جائے۔ عموماً وہ سمجھدار مجرم جنہیں یقین ہوتا ہے کہ ان کو پولیس مقابلے میں مار دیا جائے گا‘ وہ کسی مناسب سے ضامن کو درمیان میں ڈال کر از خود گرفتاری دے دیتے ہیں تاکہ جیل میں سرکاری حفاظت سے لطف اندوز ہو سکیں۔ یہی میاں شہباز شریف نے کیا ہے۔ میاں نواز شریف کے بیانیے کی مخالفت بھی نہیں اور حمایت سے بھی صاف بچ گئے ہیں۔ جلسوں کی سیریز سے چھٹی مل گئی اور بیانیے کے جھنجھٹ سے بھی آزاد ہو گئے۔ اب راوی چین لکھتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا میاں شہباز شریف واقعتاً اپنے قائد اور رہبر کی مرضی کے خلاف اپنی صوابدید کو استعمال کرتے ہوئے مفاہمت کی سیاست کرتے رہے ہیں؟ میرے خیال میں ایسا ممکن ہی نہیں کہ وہ مسلسل اپنی پارٹی کے قائد اور رہبر کے بیانیے سے بغاوت کریں اور ان کی پارٹی کی صدارت کی مسند بھی سنبھالے رکھیں۔ وہ بھائی کے بیانیے کے مخالف ہیں اور ان کی سیاسی میراث کے وارث اور امین بھی ہیں۔ ایک طرف ان کی جنگ و جدل پر تلی ہوئی بھتیجی ہیں اور دوسری طرف مفاہمت کے علمبردار چچا ہیں۔ عوام احمق ہیں اور انہیں اس بیانیے پر قربانی کے لیے اکسایا جا رہا ہے۔ میں سیاسیات کا معمولی سا طالب علم ہوں۔ میرے ایک طرف میاں نواز شریف کا بیانیہ ہے اور دوسری طرف میاں شہباز شریف کا حیرانیہ ہے۔ عام آدمی کی طرح میں بھی بڑا کنفیوژ ہوں کہ کدھر جائوں؟ ایک طرف چار عشروں سے اقتدار کے مزے لوٹنے والے گھر کے اندر دو بھائیوں میں اس بیانیے پر اتفاق نہیں ہو رہا اور یہ چلے ہیں پوری قوم کو اپنے بیانیے کے نام پر بیوقوف بنانے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved