فوج کے ذریعے سرحد کی حفاظت، عدالت کے ذریعے انصاف کی فراہمی ، صحت اور تعلیم، انفراسٹرکچر، امن و امان اور ایسی معاشی حکمتِ عملی کہ کمزور طبقات استحصال سے محفوظ رہیں۔ ان خدمات کے عوض شہری اپنی آمد ن کا ایک حصہ حکومت کو ادا کرتا ہے۔ بجٹ صرف حکو مت کی آمدن اور اخراجات کا حساب ہوتاہے، نجی شعبے کی معاشی سرگرمیاں اس کے علاوہ ہیں ۔ان تمام سرگرمیوں کا میزان جی ڈی پی (گراس ڈومیسٹک پروڈکٹ) کہلاتاہے ۔بجٹ 3591ارب روپے کا ہے تو جی ڈی پی 23000ارب تک جا پہنچتاہے ۔ متوازی طور پرتقریباً اتنی ہی مالیت کی منافع بخش لیکن غیر قانونی سرگرمیاں بھی جاری ہیں ۔ 1149ارب یعنی بجٹ کا تقریبا ایک تہائی ہمیں قرضوں کی واپسی اورسود کی مد میں ادا کرنا ہے ۔ جون 2008ء میں یہ قرضے 6000ارب تھے ، آج 14000 ۔ دوسر ی طرف پچھلے پانچ برسوں میں لیے گئے ان قرضوںکے باوجود زرِ مبادلہ کے ذخائر بڑھے نہیں بلکہ نچلی ترین سطح پر ہیں ۔ہمارے 8000ارب کہاں گئے ؟ ایسے کون سے عظیم الشان منصوبے بنائے گئے کہ ساٹھ سال کے قرضے ایک طرف اور گزشتہ دورکے پانچ سالہ دور کے دوسری طرف ؟ لوٹ مار اور کرپشن کی بجائے یہاں دہشت گردی کا لفظ استعمال ہونا چاہیے ۔ ہمیں برباد کر دیا گیا ۔ یہ وہ رقم ہے ، جو ہم نے لی ہی نہیں لیکن ہماری کئی نسلیں اسے لوٹائیں گی ۔ کیا نئی حکومت پچھلے دور کا احتساب کرے گی ؟ جی نہیں ۔ نئی حکومت کی آمد سے معاشی بحالی کی امیدوں نے جنم لیا تھا۔ماہرین کی تجویز یہ تھی کہ ایک خاص حد سے زیادہ کمانے والوں پر ایک جتنا ٹیکس لاگو کیا جائے۔ پانچ لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ لینے والوں سے اگر پینتیس فیصد چھین لیا جائے گا تو زراعت اور سٹاک ایکسچینج سے اتنا ہی کمانے والوں کو بخش کیوں دیا جائے ؟ زرعی ملک میں زمینوں کی آمدن سے حاصل ہونے والا ٹیکس صرف ایک ارب روپیہ سالانہ ہے ۔ صدر مشرف کے دور میں پراپرٹی کے کاروبار سے کھربوں کمائے گئے ۔ دوسرا نکتہ یہ تھا کہ خفیہ آمدن سے بنائے گئے کئی ہزار ارب روپے کے اثاثے رکھنے والوں کی تفصیلات بمع شناختی کارڈ نمبر ریکارڈ میں موجود ہیں ۔ کس خوشی میں وہ دندناتے پھر رہے ہیں ؟ تمام تجاویز ردّی کی ٹوکری میں پھینک دی گئیں اور پہلے سے ٹیکس ادا کرنے والوں کے گلے میں انگوٹھا اور زیادہ زور سے دے دیاگیا۔ افواجِ پاکستان کے لیے 627ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ افسوسناک یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے سیاستدان امن اور بقائے باہمی کی اہمیت اجاگر کرنے میں ناکام رہے ۔ میڈیا بھی اکثر جلتی پہ تیل چھڑکتا رہا ۔جو روپیہ دونوں اطراف کے عوام کی تعلیم ،صحت اور دوسری ضروریات پہ اٹھنا تھا ،بم اور میزائل پہ صرف ہوتا رہا ۔ اور نہیں تو ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کے بعد ہوش کے ناخن لینے چاہئیں تھے ۔ اس باب میں بھارت کا حال ہم سے بدتر ہے ۔ یہاں بھی لال ٹوپیوں والے موجود ہیں ۔ وہ نہ صرف خطے میں غلبہ چاہتا ہے بلکہ عالمی طاقت بننے کا خواب بھی ۔ امسال اس کا دفاعی بجٹ 3740ارب پاکستانی روپے کے برابر ہے یعنی ہمارے کل بجٹ سے بھی زیادہ ۔ بجٹ پر ایک نگاہ او رڈالیں تو افسوسناک انکشاف ہوتاہے کہ شدید مہنگائی کے باوجود حکومت کو مختلف اشیا ء پر 364ارب کی سب سڈی دینا ہے ۔ پچھلے پانچ برسوں میں صر ف بجلی کی مد میں 1400ارب یعنی 280ارب سالانہ کی سب سڈی دی گئی ۔ اس وقت بھی حکومت بجلی کے ایک یونٹ پر چھ روپے اپنی جیب سے دے رہی ہے ۔ اس لیے کہ کوئلے او رگیس سے چھ سے آٹھ روپے فی یونٹ میں بننے والی بجلی تیل سے 17، 18روپے میں پیدا کی جا رہی ہے ۔ملک میں گیس کے محدود ذخائر اور ایران سے گیس کے حصول میں تاخیر اور بے یقینی کے باوجود دل کھول کر سی این جی سٹیشنز لگانے کی اجازت دی گئی ۔ گاڑیوں میں سلنڈر نصب کرنے کی بھی ؛حتیٰ کہ بجلی کے لیے درکار گیس کم ہوتی چلی گئی ۔اب یکایک سی این جی سٹیشنز بند کرنے اور سلنڈر اتارنے کی بات کی جا رہی ہے ۔ پچھلے برسوں میں تیل کی قیمتوں میں تقریباً تین سو گنا اضافے کے باوجود کوئلہ استعمال کرنے کی کوئی کوشش نہ کی گئی ۔ نتیجہ آج یہ ہے کہ نہ صرف بجلی بے حد مہنگی ہے بلکہ حکومت بھاری سب سڈی دے رہی ہے ۔ آٹھ روپے فی یونٹ والی بجلی پر کوئی سب سڈی نہ دینی پڑتی بلکہ یہ خاصی سستی ہوتی ۔ نئے بجٹ میں صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات کے لیے بالترتیب 21اور 39ارب کی قلیل رقم مختص کی گئی ہے ۔ عجیب بات یہ ہے کہ چند بڑی کارپوریشنیں جیسا کہ پاکستان ریلوے ، پاکستان سٹیل ملز ، پی آئی اے ، پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی، پاکستان ایگریکلچر سٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن (پاسکو)اور یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کا مجموعی خسارہ سالانہ تین سو ساٹھ ارب روپے ہے۔نئے بجٹ میں ریلوے کی بحالی کے لیے 31ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ۔ پبلک پرائیویٹ اشتراک اور اہل افسران کے تقرر سے یہ ادارے بھاری منافع کما کر دیتے ، جیسا کہ سٹیل مل کماتی رہی ۔ المیہ یہ ہے کہ ابھی بھی 83ارب روپے کے منصوبوں کا ہدف مقبولیت حاصل کرنا ہے ، نہ کہ معیشت کی بحالی۔ بجٹ خسارہ 1650ارب روپے ہے۔ آسان الفاظ میں حکومتی اخراجات کے لیے درکار 1650ارب موجود نہیں ۔ ظاہر ہے کہ اندرونی اور بیرونی ذرائع سے قرض لینا ہوگا۔ یوں ریاست مزید مقروض ہوتی چلی جائے گی ۔خوشی کی خبر یہ ہے کہ قرضوں اور سود کے 1149، دفاع کے 627، بجلی اور دوسری اشیا پر سب سڈی کے 364اور سرکاری کارپوریشنوں کے 360ارب کے بعد صرف 1091ارب روپے بچتے ہیں ۔ یہ وہ رقم ہے ، جس سے یہ پورا ملک چلے گا۔ ان پیسوں میں بجلی اور آبی ذخائر کے منصوبے بنائے جائیں گے ، صحت او رتعلیم پر خرچ ہوگا اور سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بھی اسی سے اد اکی جائیں گی ۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved