سماج کے آئینے میں‘ اپنا چہرہ دیکھ کر کیا آپ کو یہ لگتا ہے کہ یہ خدوخال ہمارے ہیں؟کیا ہم واقعی ایسے ہو گئے ہیں‘ جیسے سماج کے آئینے میں‘ ہمیں اپنی صورت دکھائی دیتی ہے؟ کوئٹہ میں طالبات کی ایک بس کو بم سے اڑایا گیا‘ تو سارے انتہاپسند اور اعتدال پسند بلوچ‘ بیک زبان پکار اٹھے کہ ’’بلوچ عورتوں کو نشانہ نہیں بنایا کرتے۔‘‘ یہ سارے کام سوات میں بھی ہوئے تھے۔ خیبرپختونخوا میں بھی ہو رہے ہیں۔ قبائلی علاقوں میں بھی ہو رہے ہیں۔ ملالہ جیسی لڑکیوں کے واقعات کی دنیا بھر میں تشہیر ہو چکی ہے۔ غیرمردوں کے ہجوم میں ایک بچی کوزمین پر لٹا کر کوڑے لگانے اور اس کی دلدوز چیخیں نکلنے کے مناظر‘ ٹی وی پر دکھائے جا چکے ہیں۔ اس پر شرمانے اور اپنے آپ کو ملامت کرنے کی بجائے‘ ہم نے وہ ڈھیٹ اور بے شرم لوگ بھی دیکھے ہیں‘ جو ٹیلیویژن پر آ کر‘ ایک نہتی اور بے بس لڑکی کو تشدد کا نشانہ بنانے والوں کا دفاع کر رہے تھے۔ کسی نے کہا یہ ویڈیو ہی جعلی ہے۔ کسی نے کہا ایسا کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں۔ مگر دفاع کرنے والوں میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ اگر ایسا واقعہ ہوا ہے‘ تو یہ کھلی درندگی تھی۔ کیا ہم واقعی اس طرح کے ہو گئے ہیں؟ کیا جو کچھ ہم نے فاٹا یا پختونخوا کی بستیوں اور شہروں میں دیکھا‘ وہ ہمارا ہی چہرہ تھا؟ یہ بلوچ کیسے لوگ ہیں؟ ایک دوسرے سے اختلاف کرتے ہیں۔ ان کی سیاست الگ الگ ہے۔ طور طریقے جدا جدا ہیں۔ گولیوں کی سیاست بھی کرتے ہیں۔ اسمبلیوں کی سیاست بھی کرتے ہیں۔ قبائلی سیاست بھی کرتے ہیں۔ ترقی پسند بھی ہیں۔ رجعت پسند بھی ہیں۔ انتہاپسند بھی ہیں۔ اعتدال پسند بھی ہیں۔ لیکن ایک مقام پر آ کر ان سب کی زبان ایک ہو جاتی ہے اور وہ یہ کہ ’’بلوچ عورت کے ساتھ زیادتی نہیں کر سکتا۔‘‘ کوئٹہ میں جب طالبات کی بس جلانے کا سانحہ ہوا‘ تو میرا بھی پہلا تبصرہ یہ تھا کہ طالبات کو جلا کر مارنے کا کام کوئی بلوچ نہیں کر سکتا۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کے پیچھے ایک تاریخ ہے۔ بلوچوں کے قبائلی جھگڑوں میں خواتین کے ساتھ کچھ بھی سلوک کیا جاتا ہو۔ یہ ان کی روایات کا حصہ ہے۔ شاید ہمیں قبائلی روایات اچھی نہ لگتی ہوں۔ لیکن ایک بات میں خوب جانتا ہوں کہ اگر دشمن کی بیٹی کسی بلوچ کے گھر چلی جائے‘ تو اسے عزت ہی نہیں ‘ وہ سب کچھ مل جاتا ہے‘ جو وہ مانگنے کے لئے وہاں پہنچی ہو۔ بلوچوں کی لوک کہانیوں میں ایسے ان گنت واقعات ملتے ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں ‘ نواب اکبر بگٹی نے اپنی جان کس کے لئے دی؟ لاہور میں پیدا ہونے والی ڈاکٹر شازیہ خالد کے لئے۔ نواب صاحب کا اس سے کوئی رشتہ نہیں تھا۔ واقفیت بھی نہیں ہو گی۔ شاید نواب صاحب نے اسے کہیں دیکھا بھی نہ ہو۔ لیکن جب اس کی دردبھری کہانی‘ نواب صاحب تک گئی‘ تو انہوں نے وقت کے آمر پرویزمشرف کو للکار دیا اور مطالبہ کیا کہ شازیہ کی بے آبروئی کرنے والوں کو بلاتاخیرسزا دی جائے۔ مشرف نے جواب دیا کہ وہ ’ ’ اپنے بچے کو ہاتھ نہیں لگائے گا‘‘ اور نواب صاحب ڈٹ گئے کہ بلوچوں کے گھر میں انسانی خدمت کے لئے آئی ہوئی ایک بیٹی کی آبرو کا تحفظ کرنا ان کا فرض ہے۔اس دردناک کہانی میں ایک موڑ ایسا بھی آیا‘ جس پر میڈیا کے حوالے سے میرا سر ندامت سے جھک جاتا ہے۔ اس شعبے میں جہاں شاندار کارنامے انجام دینے والے کارکن اور سٹارز‘ ہمیں فخرمندی کے مواقع مہیا کرتے ہیں‘ وہاں کالی بھیڑیں بھی گھس آئی ہیں‘ جو میڈیا کے نام پر ایک دھبہ ہیں۔ ایسے ہی ایک ’’دھبے‘‘ نے مشرف کا ایجنٹ بن کر‘ دکھی اور غمزدہ ڈاکٹر شازیہ کے ساتھ دغا بازی کی۔ وہ میڈیا کے نام پر اس سے ملا۔ اس کا ہمدرد بنا اور پھر مزاحمت اور اپنے حق کے لئے لڑنے مرنے پر تلی ہوئی خاتون کا اعتماد حاصل کیا اور اسے آمادہ کیا کہ وہ پاکستان میں رہ کر پرویزمشرف کے ساتھ لاحاصل جنگ لڑنے کے بجائے‘ بیرون ملک جا کر پناہ حاصل کر لے۔ وہ اسے پرویزمشرف سے تمام سہولتیں اور مراعات حاصل کر کے دے گا۔ اس کے ساتھ وعدہ کیا گیا کہ وہ دنیا میں جس ملک میں بھی چاہے گی‘ اس کی شہریت اسے مل جائے گی اور وہاں آسودہ زندگی گزارنے کے وسائل بھی مہیا کر دیئے جائیں گے۔ وہ مظلوم خاتون ‘ جوظلم و تشدد کا نشانہ بن کر پرویزمشرف کی طاقت کے سامنے ڈٹی ہوئی تھی‘ میڈیا کی اس کالی بھیڑ کے فریب میں آ گئی اور اس نے بیرون ملک جانا قبول کر لیا۔ مگر کچھ عرصے کے بعد کراچی کے ایک میگزین میں اس کا انٹرویو شائع ہوا‘ جس میں ڈاکٹر شازیہ نے بتایا کہ اس فریب کار کے سارے وعدے جھوٹے نکلے۔ برطانیہ جانے کے بعد کسی نے اس کا حال نہ پوچھا۔ کینیڈا میں اس کے کچھ رشتے دار رہتے تھے۔ ان کی وجہ سے اس نے کینیڈا میں شہریت حاصل کرنے کی درخواست دی جو میرے علم کے مطابق 2سال تک تو منظور نہیں ہوئی تھی‘ تازہ حالات کی مجھے خبر نہیں۔ لیکن اس مظلوم خاتون کی خاطر بلوچستان کے دوسرے بڑے قبیلے بگٹی کے سربراہ نواب اکبر نے‘ ایک آمر کے سامنے کھڑے ہو کر‘ جس طرح اسے للکارا اور جواب میں‘ اس آمر نے پوری ریاستی طاقت کو اپنا تکبر بناتے ہوئے دھمکی دی کہ ’’اکبر بگٹی کو پتہ بھی نہیں چلے گا کہ کس چیز نے اسے کس طرف سے نشانہ بنا دیا۔‘‘ یہ کوئی دیومالائی کہانی نہیں‘ چند سال پہلے کا سچا واقعہ ہے۔ مشرف کے ساتھ نواب بگٹی کا جو تنازعہ شروع ہوا‘ اس کی وجہ ایک مظلوم پنجابی لڑکی تھی‘ جو سوئی کے علاقے میں انسانی خدمت پر مبنی پیشہ ورانہ فرائض انجام دینے گئی تھی۔ اس کی بے آبروئی کی گئی۔ نواب صاحب اس کے حق میں کھڑے ہو گئے۔ یہاں تک کہ انہیں غاروں میں جا کر پناہ لینا پڑی اور پرویزمشرف نے واقعی انہیں اس طرح سے نشانہ بنایا کہ نواب صاحب کو پتہ بھی نہیں چلا ہو گا‘ انہیں کس طرف سے؟ کس چیز نے ہٹ کیا؟ آج کے بلوچ لیڈرجب طالبات کی بس جلائے جانے کے واقعہ پر اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر یہ کہتے ہیں کہ ایسا کام بلوچ نہیں کر سکتے‘ تو یقین کیجئے وہ سچے ہی نہیں‘ اس بات پر دکھی بھی ہوں گے کہ یہ گندا کام بلوچوں کی سرزمین پر کیا گیا۔ ہمارے ملک میں جو نسلیں اور قبیلے بستے ہیں‘ سب کی اپنی اپنی روایات ہیں۔ سب کے اپنے اپنے فخر ہیں۔ ہم نے اپنے ملک کے اندر بہت سی بغاوتیں اور بے چینیاں محض اس لئے پیدا کیں کہ ہم نے اپنے لوگوں کی مخصوص روایات کا احترام نہیں کیا۔ یہ وہ کام ہے‘ جو کبھی غیرملکی حکمرانوں نے بھی نہیں کیا۔ انگریز‘ مقامی روایات اور عادات کا بے حد احترام کیا کرتا تھا۔ مگر ہماری بدنصیبی ہے کہ ہم نے یہاں انتہاپسندی کا کلچر پروان چڑھا کر اپنے معاشرے کا حلیہ بگاڑ دیا۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ ہم جب اپنے سماج کے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھتے ہیں‘ تو وہ ہمیں اپنا نہیں لگتا۔ یہ کس کا چہرہ ہے‘ جو ہمیں آئینے میں دکھائی دیتا ہے؟ ان دنوں ایک بس ہوسٹس پر‘ ایک ایم پی اے کے تشدد کی خبریں آ رہی ہیں۔ پاکستان میں تو ہوائی جہازوں کے اندر بھی میزبانی کی ڈیوٹی پر مامور لڑکیوں کو بدتمیزیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بسوں میں سفر کرنے والے تو اور بھی بازاری کلچر کے قریب ہوتے ہیں۔ جو بہادر لڑکیاں وہاں میزبانی کے فرائض انجام دیتی ہیں‘ ان کے حوصلے کی داد دینا چاہیے۔ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ بسوں کے بعض مسافر انہیں میزبان کے بجائے‘ ایک ادنیٰ نوکر تصور کرتے ہیں۔ کچھ انہیں حریصانہ نظروں سے بھی دیکھتے ہیں اور کچھ اس سے بھی آگے بڑھ کر بدتمیزی پر اتر آتے ہیں۔ یہ میزبان خواتین جذبات پر قابو پا کر‘ اپنے فرائض ادا کرنے میں مصروف رہتی ہیں۔ لیکن ایک خاتون مسافر اور وہ بھی صوبائی اسمبلی کی رکن‘ اس کے ساتھ ایسا سلوک کرے‘ جس کی تفصیلات میڈیا پر آ رہی ہیں‘ تو مجھے سماج کے آئینے میں اپنا چہرہ مکروہ دکھائی دینے لگتا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ اس واقعہ کو جان لینے کے بعد ‘ شہبازشریف کو اپنا چہرہ کیسا لگا ہو گا؟ اس واقعے میں تسلی اور حوصلے کا ایک پہلو بھی ہے اور وہ ہے بس کے مسافروں کا طرز عمل۔ جس طرح انہوں نے حکمران طبقے کی ایک رکن کی زیادتی کے خلاف بیک زبان آواز اٹھائی‘ اس کی تحسین کئے بغیر چارہ نہیں۔میں ان تمام مسافروں کو اپنا محسن سمجھتا ہوں۔ کیونکہ ان کے طرزعمل کو دیکھ کر‘ جب میں نے سماج کے آئینے میں‘ اپنے آپ کو دیکھنا چاہا‘ تو یوں لگا کہ میرا چہرہ مجھے واپس مل گیا ہے۔ان مسافروں کی جرات اور حق گوئی کا نواب بگٹی کی جرات مندی سے تو موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن مرحوم نواب صاحب کی ذرا سی چھب تو ان مسافروں میں بھی نظر آ رہی ہے۔ متاثرہ لڑکی کو‘ مریم نواز کی ایک ٹیلیفون کال نے ‘ ان کی سیاست کے انسانی روپ سے متعارف کرایا۔دیکھنا چاہیے کہ یہ واقعی سیاست کا انسانی روپ ہے‘ یا صرف سیاست؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved