مجھے تو بالکل ایسا لگا جیسے امریکہ میں مودی کو شکست ہوئی ہو۔ مودی بے شک ہزاروں میل دور بھارت کے وزیر اعظم ہوں لیکن ان کی بڑی نظریاتی اور ذہنی مماثلت انہیں امریکن مودی بناتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں۔ ذہنیت، تعصب اور انتخابی پالیسیوں سے لے کر ملک گیر طبقاتی تقسیم تک۔ ایسا لگتا تھا کہ مودی نے زندہ ہوتے ہوئے بھی آواگون کے کسی چکرا دینے والے طریقے سے ڈونلڈ ٹرمپ کے روپ میں جنم لیا ہے۔ سچ یہ ہے کہ دونوں کا اصل دھرم ہٹ دھرمی ہے۔ دونوں بلا کے خودپرست، انا پرست، نسل پرست، وطن پرست ہیں۔ مودی کے معاملے میں بت پرست کی صفت کا اضافہ کرلیں۔ ذہنی خبط، غرور اور کج مزاجی ٹرمپ کے کھاتے میں ڈال دیں اور چالاکی، زمانہ شناسی اور رنگ بدلنے کی صفت مودی کی جھولی میں شامل کردیں۔
نریندر مودی کی بی جے پی کی طرح ٹرمپ بھی اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ الیکشن جیتنے کے لیے اکثریت کو دیکھنا چاہیے۔ اقلیت کو نظرانداز کردیا جائے اور اکثریت کی من پسند فکرکو اس کی خوراک دی جاتی رہے توپھر اس کی پروا نہ کی جائے کہ معتدل، باشعور، پڑھے لکھے طبقات کیا کہتے، کیا سوچتے اور کیا شور اٹھاتے ہیں۔ یہ سب اقلیتیں ہیں۔ اکثریت اگر ساتھ ہے تو یہ جو چاہے کہتے رہیں۔ ملک بھی اپنا ہے اور تخت بھی اپنا۔ یہ بھی بیکار سی بات ہے کہ دستور کا تقاضا کیا ہے اور ملک کی اپنی روایات کیا کہتی ہیں۔ ویسے بھی ان روایات اوراس دستور کو یہ دونوں اسی حد تک مانتے ہیں جس حد تک انہیں پسند آتا ہواور راس آتا ہو۔ دستور وہی ہوگا اور روایت وہی بنے گی جو یہ چاہیں گے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے 2016 کے انتخابات میں ان طبقات پرتوجہ مرتکز کی جوکم پڑھے لکھے، کم شعور رکھنے والے اور جذباتی نعروں کے پیچھے لگ جانے والے تھے۔ انہیں امریکی عرف عام میں ریڈ نیک (Red neck) کہا جاتا ہے۔ ان لوگوں کے دل سے بات بھی کبھی نہیں نکلی کہ سفید فام قوم ہرلحاظ سے برتر قوم ہے۔ کالے تو خیر تھے ہی صدیوں تک ان کے غلام لیکن بعد کے ادوار میں امریکہ میں آباد ہونے والی گندمی، زرد قومیں بھی ان سے کمتر ہیں اورانہیں کمتر ہی رہنا چاہیے۔ اس طبقے کے دل میں یہ احساس شدید ہے کہ ان اقوام کا مسلسل آگے بڑھنا دراصل گوری نسل کی حق تلفی ہے۔ امریکہ میں جو تعصب اور نسل پرستی ٹرمپ سے پہلے بھی مسلسل چلی آتی ہے اس کا اصل منبع یہی طبقہ اوریہی احساس ہے۔ بارک اوباما شخصی اعتبار سے امریکہ کیلئے کتنا ہی مفید سہی، تھا تو کالا۔ اوروہ بھی پہلا کالا صدر۔ اوباما نے پڑھے لکھے اور باشعور طبقات کے بل پر دوبار انتخاب جیتا لیکن ریڈ نیکس کے دل سے یہ کانٹا کبھی نکلا نہیں۔ ایسے میں جب ڈونلڈ ٹرمپ نے ان کے دل کی بات کہہ دی۔ سفید فام اکثریت کوبرتر قرار دے دیا، امیگرینٹس پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا۔ عیسائیت کے علاوہ دیگر مذاہب خاص طور پر اسلام سے کھلے تعصب کا اظہار کیا تو یہ گویا اس بہت بڑے طبقے کی ترجمانی تھی جسے ٹرمپ کی صورت میں آواز مل گئی۔ اور یہ خیالات محض الیکشن جیتنے کا طریقہ ہی نہیں تھے، ٹرمپ کا نظریۂ حیات بھی تھے؛ چنانچہ اس امریکہ میں جس کی طرف دنیا دیکھتی تھی اور پیروی کرتی تھی‘ اور جس نے متواتر صدارتوں میں امریکہ کو متحد رکھا تھا، یہ طبقہ ڈونلڈ ٹرمپ کی صورت میں برسراقتدار آگیا۔
برسر اقتدار آتے ہی انہوں نے پے در پے وہ قوانین اور ضابطے بنانے اور لاگو کرنے شروع کیے جو ان کے ایجنڈے کے مطابق تھے۔ اقلیتیں خواہ وہ مذہب کی بنیاد پر تھیں، نسل کی بنیاد پر یا نظریے کی بنیاد پر‘ سب دیوار سے جالگیں۔ ان کے خوف کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ زمین جہاں انہوں نے عمریں اور کئی کئی نسلیں گزاری تھیں، رفتہ رفتہ ان کے پیروں کے نیچے سے کھینچی جارہی تھی۔ کل کیا ہوگا؟ کچھ پتہ نہ تھا۔ ان کے مذہب، زبانیں، ثقافت، شہریت حتیٰ کہ جانیں سب خطرے میں تھیں۔ اسی دور میں نسل پرست زیادہ کھل کر سامنے آئے اورمعاشرہ تیزی سے ٹکڑوں میں تقسیم ہونے لگا۔ ایسا امریکہ میں پہلے کبھی نہیں ہواتھا۔ ٹرمپ کی صورت میں امریکہ پر ایسا صدر حکمران تھا جسے سوچنے سمجھنے کی زیادہ عادت نہیں تھی اور وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کہنے اورکر گزرنے پر قادر تھا؛ چنانچہ یہ خوف امریکہ سے نکلا اور چھوٹے ممالک میں بھی سرایت کرتا گیا۔ خاص طور پروہ ممالک جن پر ٹرمپ کی نظر تھی۔ یہ سب ٹرمپ کے مزاج سے خائف ممالک بن گئے۔
یہی کام مودی نے بھارت میں کیا تھا لیکن اس کا خبط اور طرح کا تھا اوراس میں چالاکی اور عیاری کا عنصر ٹرمپ سے کہیں زیادہ تھا۔ ان پڑھ ہندوئوں یا کم پڑھی لکھی اکثریت کا تناسب ہندوستان میں بہت زیادہ ہے؛ چنانچہ مودی کو کامیابی بھی زیادہ اور دوبار ملی۔ ہندو مذہب اورہندو قوم دوسری قوموں سے برتر ہے اور دوسری اقوام نے اس کے حقوق غصب کررکھے ہیں‘ یہ نعرہ ہر خاص وعام تک پہنچا دیاگیا۔ ٹرمپ کی طرح مودی خود بھی ان باتوں پر یقین رکھنے والا رہنما تھا؛ چنانچہ برسراقتدار آنے سے پہلے ہی وہ اقلیتیں اس کے عزائم سے خائف ہوگئیں جن کی طرف مودی کا رخ زیادہ تھا‘ خاص طور پر مسلمان‘ لیکن مودی یہ جانتا تھاکہ مسلمان اور دیگر اقلیتوں کا ووٹ منقسم ہے۔ نیزجو ہندو باشعور، پڑھا لکھا اور سوچنے والا طبقہ ہے وہ بذات خود ایک اقلیت ہے۔ یہ سب مل کراور اکٹھے ہوکر بھی اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکیں گے۔ اس نے ہم خیال اور ہم مزاج جماعتوں سے اتحاد کیے، مسلم دشمنی اور پاکستان دشمنی جو معاشرے میں پہلے ہی بہت موجود تھی، کو مزید مہمیز کی اوراسے جنون کی حدوں تک پہنچا دیا۔ یہ ان کا نظریہ بھی تھااور مطلوبہ انتخابی نتائج حاصل کرنے کا گُربھی، جو بہت کامیابی سے استعمال کیا گیا۔ نتیجہ وہی جو متوقع تھا۔ سب اقلیتوں پراور مسلمانوں پر خاص طورپر، جابجا حملے ہوئے، ان کیلئے تعصب پرمبنی نسل پرست اور مذہب پرست قوانین بنائے گئے۔ بھارت کئی طبقات میں بری طرح تقسیم ہوگیا اور یہ صاف نظرآنے لگاکہ ملک تیزی سے ایک ہندو ریاست بن رہا ہے۔ خوف بھارت کے طبقات سے نکلا اور ہمسایہ ملکوں میں بھی پھیلتا گیا۔ وزارت عظمیٰ کے پچھلے اورنئے ادوار کا مجموعی نتیجہ اب یہ ہے کہ آئین، دستوراور روایات کچھ بھی کہتی ہوں، بھارت ایک ہندو ریاست ہے اورمزید اسی سمت میں بڑھتا جائے گا‘ اور یہ وہی خطرہ ہے جسے قیام پاکستان کے حامی مسلم قائدین بہت پہلے سے بھانپ رہے تھے۔
مجھے خطرہ ہے کہ بھارت میں یہ معاملہ اور آگے بڑھے گااور کئی اور سیکولر جماعتیں بھی کامیابی کا یہ گر دیکھ کراس پر گامزن ہوں گی، خواہ وہ اس طرح نسل پرست اور مذہب پرست بھی نہ ہوں۔ امریکہ میں ٹرمپ نے یہ انتخاب ہار دیا لیکن ظاہر ہے کہ وہ بہت سے طبقات میں اب بھی بہت مقبول ہے۔ کورونا کا معاملہ ٹرمپ کی شکست میں ایک بڑا عنصر رہا ہے ورنہ یہ بہت ممکن تھاکہ وہ یہ انتخاب بھی جیت جاتا۔ اسی طرح ٹرمپ کا مزاج اس کے بہت سے ساتھیوں کو بھی دور کرچکا تھا جبکہ مودی کا معاملہ خبط کا نہیں عیاری کا ہے۔ امریکہ کا معاملہ اس لیے بھی بھارت سے مختلف تھاکہ باشعور طبقہ بہرحال بڑی تعداد میں موجود ہے اوراس نے ٹرمپ کے خلاف اپنا پورازور بھی لگایااور لوگوں میں بھی شعور اجاگر کیا‘ لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ ٹرمپ نے ایک راستہ بنا دیا ہے۔ یہ بھی بالکل ممکن ہے کہ چار سال بعد یہ نعرے دوبارہ مقبول ہوں اور ریڈ نیکس کے ووٹ کھینچنے کیلئے یہی باتیں کوئی زیادہ متاثرکن شخص لے کر اٹھے۔گوری چمڑی کی برتری کا نظریہ اتنی جلدی ختم ہوتا نہیں لگتا اور یہ سب سیاستدان سیاسی فتح کیلے کوئی بھی کام کرگزرنے پرقادر ہیں۔
تواگر میں یہ کہتا ہوں کہ امریکہ میں نریندر مودی کو شکست ہوئی ہے، امریکن مودی ہارا ہے تو کیا غلط کہتا ہوں؟