تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     09-11-2020

کاک ٹیل

قادر بلوچ اور ثنا زہری نے اپنی سیاست تباہ کر لی: مریم نواز
مستقل نا اہل، سزا یافتہ اور اشتہاری سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''قادر بلوچ اور ثناء اللہ زہری نے اپنی سیاست تباہ کر لی‘‘ اگر انہوں نے اپنی سیاست تباہ ہی کرنا تھی تو ہمارے ساتھ رہ کر کر لیتے کیونکہ ہم بھی تو یہی کچھ کر رہے ہیں اور اپنی سیاست کا نام و نشان مٹا رہے ہیں بلکہ آدھے سے زیادہ کام تو ہم نے کر ہی لیا ہے کیونکہ والد صاحب اب لندن سے واپس نہیں آئیں گے اور کوئی پارٹی بیرونِ ملک بیٹھ کر نہیں چلائی جا سکتی، خاص طور پر اس حالت میں کہ آپ سزا یافتہ بھی ہوں اور مفرور و اشتہاری بھی جبکہ چچا جان اور باقی لوگوں کے خلاف گھیرا روز بروز تنگ سے تنگ تر ہوتا جا رہا ہے۔ آپ اگلے روز گلگت بلتستان کے ضلع شگر میں کارنر میٹنگ سے خطاب کر رہی تھیں۔
گلگت بلتستان میں دھاندلی کا شور اعترافِ شکست : شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''گلگت بلتستان میں قبل از وقت دھاندلی کا شور اعترافِ شکست ہے‘‘ اور یہ واویلا بالکل اسی طرح کا ہے جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مچا رکھا ہے کیونکہ غیبی مدد کو دھاندلی نہیں کہا جا سکتا بلکہ اس کی صرف آرزو کی جا سکتی ہے اور یہ مدد روزِ اوّل ہی سے ہمارے سر پر موجود ہے اور یہی ہمارے مقبول ہونے کی نشانی بھی ہے۔ یہ دستِ شفقت باری باری خود اپوزیشن کے سروں پر بھی رہا ہے اور جس کے کرشمے بھی وہ اچھی طرح سے دیکھ چکے ہیں اور اب کس قدر دیدہ دلیری سے اسے دھاندلی کا نام دیا جا رہا ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کر رہے تھے۔
تبدیلی کے نام پر تباہی پھیلائی جا رہی ہے: بلاول
چیئر مین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''تبدیلی کے نام پر تباہی پھیلائی جا رہی ہے‘‘ جبکہ یہ کام ہم نے بھی کیا تھا لیکن ہم نے ایسا کوئی بہانہ تلاش نہیں کیا اور یہ سارا کام بر سر عام سر انجام دیا تھا اور اس کے فوائد و برکات سے بھی مالا مال ہوئے جبکہ موجودہ حکومت یہ کام کچھ حاصل وصول کیے بغیر ہی کر رہی ہے اور قدرے دال دلیا کر بھی رہی ہے تو بھی وہ ہمارے مقابلے میں عشر عشیر کے برابر بھی نہیں ہے اور اس کی اہلیت کا اندازہ اسی بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گلاس توڑا، بارہ آنے۔ حالانکہ گلاس ایک معقول معاوضے پر بھی توڑا جا سکتا تھا، افسوس صد افسوس کہ اس نے ہم سے بھی کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ آپ اگلے روز دیامر میں انتخابی جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔
نواز اور مریم سیاست کو بند گلی کی طرف لے جا رہے : شیخ رشید
وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''نواز شریف اور مریم سیاست کو بند گلی کی طرف لے جا رہے ہیں‘‘ جیسے ہم نے کہا تھا کہ تبدیلی آ نہیں رہی بلکہ آ چکی ہے۔ یہ دونوں سیاست کو بند گلی میں داخل کر چکے ہیں اور اسی میں حال دہائی مچاتے رہیں گے کیونکہ وہ آگے جا نہیں سکتے۔ اور پیچھے جانا ان کے لیے باعثِ شرمندگی ہو گا جبکہ ہم نے کبھی اس کی کوشش نہیں کی کیونکہ یہ کام کئی اور کاموں کی طرح ہمیں آتا ہی نہیں ہے ورنہ ایسے مقامات قدم قدم پر آتے ہیں لیکن ہم وہاں سے پوری بے نیازی کے ساتھ گزر جاتے ہیں ۔آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
وزیراعلیٰ خدمت پر یقین رکھتے ہیں: فردوس عاشق
مشیر وزیراعلیٰ پنجاب برائے اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''وزیراعلیٰ دعوے نہیں، خدمت پر یقین رکھتے ہیں‘‘ اگرچہ کسی چیز پر خالی یقین رکھنے سے کچھ نہیں ہوتا، کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے‘ چنانچہ اس مایوس کن صورتحال کے بعد اب انہوں نے سوچا ہے کہ وعدے کر کے بھی دیکھ لیں، شاید کوئی فرق پڑ جائے، اگرچہ اس کے بعد بھی معاملات ویسے کے ویسے ہی رہنے کا احتمال ہے؛ تاہم وہ کسی قدر مطمئن اس لیے بھی ہیں کہ تبادلوں سمیت وہ جو کچھ کر رہے ہیں‘ اسی کو خدمت سمجھ رہے ہیں؛ تاہم مجھے وزارت کا قلمدان دوبارہ عنایت کرنا واقعی خدمت ہی کے زمرے میں آتا ہے اور اسی کو غنیمت سمجھنا چاہیے۔ آپ اگلے روز لاہور سے اپنا معمول کا بیان جاری کر رہی تھیں۔
پی ڈی ایم جماعتیں ایک ایجنڈے پر متفق‘ دسمبر
تک حکومت چلی جائے گی: مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''پی ڈی ایم جماعتیں ایک ایجنڈے پر متفق، دسمبر تک حکومت چلی جائے گی‘‘ اور اگر دسمبر تک نہ گئی تو آگے کی کوئی اور تاریخ دی جا سکتی ہے کیونکہ اگر بڑے بڑے مقدمات میں تاریخیں دی جا سکتی ہیں تو ہم کیوں نہیں دے سکتے۔ البتہ مجھے خواہ مخوا اس مصیبت میں ڈال دیا گیا ہے کیونکہ تحریک کی سربراہی شہباز شریف نے کرنا تھی لیکن وہ بہانہ کر کے بیمار پڑ گئے جبکہ پی ڈی ایم نے کسی ایجنڈے پر خاک متفق ہونا ہے کہ خود ہمارے ایک لیڈر بھی نواز شریف کے بیانیے سے متفق نہیں ہیں اور اس کے خلاف کھلم کھلا بیان بھی دے رہے ہیں اور اوپر سے بلاول نے اس بیانیے کی لٹیا ہی ڈبو دی ہے۔ آپ اگلے روز پشاور میں کارکنوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
ایک چینی مقولہ
درخت لگانے کا پہلا بہترین موقع آج سے بیس سال پہلے تھا جبکہ دوسرا بہترین موقع آج ہے۔
اور‘ اب آخر میں علی ارمان کی شاعری
میانِ ممکن و موجود کوئی باب ہیں ہم
کتابِ حسرت و ہستی کا انتساب ہیں ہم
نئے زمانوں کی مَیلی ہوا سے لڑتے ہوئے
نئے پرندوں کے اُجلے پروں کا خواب ہیں ہم
جو بات آپ نے کرنی ہے ہم سے کر لیجے
بہ اتفاق ابھی خود کو دستیاب ہیں ہم
لرز رہا ہے عدم میں ابھی وجود اپنا
نمو کی نیند میں کِھلتے ہوئے گلاب ہیں ہم
سمندروں کو بھی سُن کر پسینہ آتا ہے
قسم خدا کی وہ دریائے پیچ و تاب ہیں ہم
جہاں غبار اڑایا ہے آپ نے برسوں
جنابِ قیس اُس دشت کے خراب ہیں ہم
ابھی نہیں ہے جنہیں پوچھنے کی تاب تمہیں
کچھ ایسے سخت سوالات کے جواب ہیں ہم
نئی نمود کے پھولوں پہ تھرتھراتی ہوئی
نئے جہانِ تحیر کی آب و تاب ہیں ہم
ہمِیں سے ہونی ہے تعمیرِ تازہ دنیا کی
کسی شکست تمنا کا اضطراب ہیں ہم
٭......٭......٭
تنگ آ جاتا ہوں جب عالمِ نابُود سے میں
لڑکھڑا لیتا ہوں اک نشۂ نابود سے میں
میرے مطلب کا صدف کوئی یہاں ہے کہ نہیں
پوچھتا پھرتا ہوں ہر گوہرِ مقصود سے میں
اک تمنّا کے کنارے پہ پڑا ہوں چُپ چاپ
سیر ہو کر کسی ندی کی اُچھل کُود سے میں
صبر کی تپتی ہوئی ریت پہ رکھ کر ماتھا
سجدۂ شکر میں جا ملتا ہوں مسجود سے میں
آج کا مقطع
کشمکش ختم ہوئی جان میں جان آئی وہیں
دل سے جس لمحہ ظفرؔ تیرِ تمنا نکلا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved