تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     09-11-2020

اطمینان کا فریب

رکاوٹو ں کے باوجود آگے بڑھنا اور اپنے چہرے سے غم کے آثار دور کرنا ہی زندگی ہے۔ مایوسی انسانی سماعت اور بصارت کو مفلوج کر دیتی ہے‘ اس لیے امیدوں سے لبریز نغموں سے جی بہلانے میں ہی عافیت ہوتی ہے۔ وزیراعظم اگر کہتے ہیں کہ انہوں نے معیشت کی سمت درست کردی ہے تو ہم مان کیوں نہیں لیتے؟ وہ اگر کہتے ہیں کہ معیشت کے بعد قانون کی بالادستی پر زور دیں گے تو ہمیں عجیب کیوں لگتا ہے؟ اگر بیان آتا ہے کہ عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے میکنزم بنا لیا گیا ہے، اب پوری توجہ عوامی فلاحی منصوبوں پر مرکوز ہے تو ہم چپ کا روزہ کیوں رکھ لیتے ہیں؟ کیا ضروری ہے کہ باغِ زیست میں ہمیشہ ناامیدی کی فصل بوئی جائے؟ زندگی کا سفینہ فنا کی لہروں سے ٹکرا کر ساحل کا رخ بھی تو کر سکتا ہے؟ آخر وزیراعظم کے بیانات پر یقین کرنے اور ایک موقع اور دینے میں ہرج ہی کیا ہے؟ اس شعر میں خواجہ میر درد کا درد ذاتی ہے یا قومی‘ کوئی تو فیصلہ کرے؟ 
اذیت‘ مصیبت‘ ملامت‘ بلائیں
ترے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا
دل تو کرتا ہے کہ محترم وزیراعظم کی خود اعتمادی کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دوں مگر کیا کروں‘ دماغ کچھ اور ہی کہانی سنانے بیٹھ جاتا ہے۔ وہی کہانی جو بائیس سال تک روز سنائی گئی۔ ایک موقع دیں‘ دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی۔ کراچی، لاہور اور پشاور دبئی‘ لندن اور نیویارک کی طرح مہکنے لگیں گے‘ یہ ہو جائے گا‘ وہ ہو جائے گا۔ اتنے نشیلے خواب شاید ہی کسی اور نسل نے دیکھے ہوں جو ہمارے حصے میں آئے۔ نئے پاکستان کاخواب، کرپشن کے خاتمے کا خواب، میرٹ کی بالادستی کا خواب، نوکریوں کا خواب، گھروں کا خواب، مہنگائی اور بے روزگاری کے خاتمے کا خواب، قرضوں کی واپسی کا خواب، فوری انصاف کا خواب اور ملکی ترقی کاخواب۔ پھر کیا ہوا؟ سارے خوابوں کو چوراہے میں لٹکا کر ''یوٹرن‘‘ لے لیا گیا۔ چلیں! یہاں تک بات سمجھ میں آتی ہے۔ لاعلمی میں کیے ہوئے وعدوں کا کفارا ادا کیا جا سکتا ہے مگرا ن وعدوں کا کیا کریں جو اقتدار میں آنے کے بعد کیے گئے۔ وہ تو لاعلمی کا نتیجہ نہ تھے۔ اگر ان وعدوں کو ترتیب دیا جائے تو یہ بائیس سال کے وعدوں کا ریکارڈ بھی توڑ دیں۔ 
تحریک انصاف کی حکومت آتے ہی کراچی کے عوام کے ساتھ وعدہ کیا گیاکہ 162 ارب روپے کراچی کی ترقی پر خرچ ہوں گے۔ یہ وعدہ مگر وعدہ ہی رہا، آج تک ایک روپیہ بھی اس مد میں جاری نہیں ہو سکا۔ گزشتہ بارشوں میں کراچی کے مسائل ایک بار پھر منہ پھاڑ کر صوبائی اور وفاقی حکومت کا منہ چڑانے لگے تو سب کو دوبارہ کراچی یاد آ گیا۔ پھر بڑوں کی بیٹھک ہوئی اور 1100 ارب روپے کا کراچی ٹرانسفارمیشن پلان کا اعلان ہوا۔ اب پانچ ماہ گزرنے کے باوجودبھی کراچی ویسا ہی ہے‘ جیسا پہلے تھا۔ حکومت کی اپنی اتحادی جماعت ایم کیو ایم پاکستان رو رہی ہے کہ کراچی میں کام انتہائی سست روی کا شکار ہے۔ کراچی پیکیج سیاست کی نذر ہو رہا ہے، وفاقی حکومت اس پر توجہ دے مگر شنوائی ندارد۔ حکومت بتائے کہ ایسا کیوں ہے؟ کراچی کو اس کا حق کیوں نہیں دیا جا رہا؟
حکومت نے دو جولائی 2019ء کو ملک بھر میں ''زرعی ایمرجنسی پروگرام‘‘ کا نفاذ کیا تھا، جس کے تحت 309 ارب روپے کے زرعی شعبے میں ترقی اور بہتری کے منصوبے صرف کیے جانا تھے‘ افسوس کہ کچھ بھی نہ ہو سکا۔ آج حال یہ ہے کسان سٹرکوں پر ہیں اور حکومت ان کے مطالبات کو ایک بار پھر وعدوں کی بھینٹ چڑھا رہی ہے۔ملک میں گزشتہ دو سال سے مہنگائی کا راج ہے۔ محترم وزیراعظم نے مہنگائی پر تیرہ بار نوٹس لیا اور ہر بارعوا م کو سبز باغ دکھائے گئے کہ اب مہنگائی پر قابو پا لیا جائے گا کیونکہ مہنگائی کو اب براہ راست وزیراعظم آفس سے مانیٹر کیا جا رہا ہے، ذخیرہ اندوز اور ناجائز منافع خور اپنی خیر منائیں۔ سوال یہ ہے کیا مہنگائی کم ہوئی؟ کیا منافع خور پکڑے گئے؟ کیا ذخیرہ اندوزی کی دکان بند ہو سکی؟ 2019ء میں چینی اور گندم کے مسئلے نے سر اٹھایا تو حکومت نے انکوائری کمیشن بنایا، چینی اور گندم کی عدم دستیابی پر کمیشن نے تہلکہ خیز رپورٹ دی‘ بڑے بڑے سیاستدانوں کی طرف انگلیاں اٹھیں۔ پھر کیا ہوا؟ کسی ایک کے خلاف بھی کارروائی ہو سکی؟ الٹا چینی 80 سے 110 پر چلی گئی اور آٹا 55 سے 75 روپے کلو ہو گیا۔ کورونا کے ہنگام عالمی منڈی میں تیل سستا ہوا مگر پاکستانیوں تک اس کے ثمرات نہ پہنچ سکے۔ سستا تیل مارکیٹ سے غائب ہو گیا تو حکومت نے انکوائری کروائی اور ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا عزم دہرایا۔ سات ماہ گزر چکے‘ کوئی گرفتاری ہوئی نہ کوئی پیڑول پمپ سیل ہوا۔ اربوں روپیہ عوام کی جیب سے نکل گیا مگر آج تک کسی کی جواب طلبی نہیں ہوئی۔ کیوں؟ وزیراعظم نے2 جولائی 2019ء کو فرمایا تھا کہ پاکستان میں 45 فیصد بچے غذائی قلت اور صاف پانی نہ ہونے کی وجہ سے ذہنی طور پر کمزور پیدا ہوتے ہیں۔ حکومت اس پر ترجیحی بنیادوں پر کام کرے گی تاکہ مستقبل میں اس مسئلے پر قابو پایا جا سکے۔ وہ دن اور آج کا دن اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہ ہو سکی‘ وجہ؟ حکومت نے اعلان کیا تھا کہ انتخابی اصلاحات کی جائیں گی تاکہ آئندہ الیکشن پر سوالات کھڑے نہ ہو سکیں۔ دو سال گز ر گئے مگر بات کمیٹی سے آگے نہ بڑھ سکی۔ حکومت نے سنجیدگی دکھائی نہ اپوزیشن نے۔ ستمبر 2019ء میں حکومت نے خوشخبری سنائی تھی کہ دیوانی مقدمات کا فیصلہ دو سال تک کرنے کی قانونی پابندی لاگو کی جا رہی ہے تاکہ عوام کو سستا اور فوری انصاف فراہم ہو سکے۔ آج ایک سال سے زائد عرصہ گزر چکا‘ اس فیصلے کو قانونی شکل نہ دی جا سکی، کیوں؟ وزیراعظم نے اپنی پہلی تقریر میں اعلان کیا تھا کہ وہ برطانیہ کے وزیراعظم کی طرح ہر بدھ کو قومی اسمبلی آئیں گے اور سوالات کے جوابات خود دیں گے۔ پوچھنا یہ تھا کہ سوا دو سالوں میں وہ کتنی بار اسمبلی گئے؟ کیا اسمبلی میں سوال جواب کی نشست ہو سکی؟ عوام کو ڈیجیٹل پاکستان کا خواب دکھایا گیا تھا۔ تانیہ ایدروس اس کی سربراہ کے طور پر آئیں اور چلی گئیں‘ اس بارے میں لگتا ہے کہ حکومت محض یہی چاہتی ہے کہ ٹک ٹاک پر پابندی ہو اور باقی سوشل میڈیا کو بھی لگام ڈالی جائے۔ حکومت نے گینگ ریپ اور ریپ کے ملزمان کو سخت سزا دینے کے لیے Castration کا قانون بنانے کی خواہش ظاہر کی تھی‘ کیا کوئی بتائے گا اس قانون کا کیا ہوا؟ وزیراعظم کی جانب سے وعدہ کیا گیا کہ وہ اب کشمیر کا مقدمہ خود لڑیں گے اور کشمیر کا سفیر بن کر ملکوں ملکوں جائیں گے‘ وہ دنیا کو بھارت کا مکروہ چہرہ دکھا کر رہیں گے۔ کوئی بتائے کہ اس حوالے سے سوا سال میں کتنے ملکوں کا دورہ کیا گیا؟اسلاموفوبیا کا مقابلہ کرنے کے لیے وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ ترکی اور ملائیشیا کے ساتھ مل کر پاکستان ایک نیا اتحاد بنائے گا اور انگریزی زبان میں ٹی وی چینل بھی لاؤنچ کیا جائے گا‘ اس اعلان کے بعد آج تک کسی کو نہیں پتا کہ اس اتحاد کا کیا ہوا؟
اب محترم وزیراعظم نے فرمایا ہے کہ نواز شریف کو واپس لانے کے لیے مجھے خود لندن جانا پڑا تو جاؤں گا‘ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن سے بات کرنا پڑی تو کروں گا۔ خدا جانے یہ وعدہ بھی پورا ہوگا یا نہیں؟ البتہ! حکومت کا پناہ گاہیں بنانا اور موسمیاتی تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پودے لگانا احسن اقدامات ہیں‘ ان کی جتنی تعریف کی جائے‘ کم ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کے قابلِ تعریف کارنامے اتنے تھوڑے ہیں کہ ان سے عوام کو اطمینان کا فریب تو دیاجا سکتا ہے‘ حقیقت کے ترازو میں تولا نہیں جا سکتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved