ہمارا میڈیا اس وقت خورد بینیں لگا کر بلاول بھٹو زرداری کے حال ہی میں برطانوی نشریاتی ادارے کو دیے گئے انٹرویو سے پی ڈی ایم اتحاد میں دراڑیں تلاش کر رہا ہے، جس میں انہوں نے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی جانب سے گوجرانوالہ کے جلسہ میں الیکشن میں دھاندلی اور عدالتی فیصلوں پہ اثرانداز ہونے کے براہِ راست الزامات پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ امید ہے کہ نواز شریف اس حوالے سے ثبوت بھی پیش کریں گے۔ مرکزی دھارے کے تمام بڑے چینلز نے بلاول بھٹو زرداری کے اس انٹرویو سے بریکنگ نیوز نکال کے اس پہ ماہرین سے تجزیہ بھی لیا، ظاہر ہے کچھ نہ کچھ کہنے کی غرض سے ان تجزیہ کاروں کو ایسی دور کی کوڑی لانا پڑی، جس میں پیپلزپارٹی اور نواز لیگ کے موقف میں فرق کو پی ڈی ایم کے اتحاد کی متوقع تحلیل کا سبب بتایا جا سکے، حالانکہ بلاول بھٹو زرداری نے ایک منجھے ہوئے سیاستدان کی طرح قطعیت کے ساتھ بات کرنے کے برعکس اگر، مگر اور چونکہ، چنانچہ میں ہر سوال کا جواب دے کر اپنی پوزیشن تبدیل نہیں کی لیکن ابہام سے لبریز ان کی اس گفتگو سے ہم زیادہ سے زیادہ یہی تاثر لے سکتے ہیں کہ وہ خود اور ان کی جماعت براہ راست کسی کو ہدفِ تنقید بنانے کی قائل نہیں ہے لیکن نوازشریف کے الزامات پر بھی انہیں کوئی خاص مسئلہ نہیں ہے۔ بلاشبہ نوازشریف کے موقف کی کھل کی حمایت کرنے والے مولانا فضل الرحمن کے علاوہ وہ چھوٹی جماعتیں بھی اس کی مخالفت نہیں کر رہیں جو اس بیانیے کا بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رکھتیں۔ پی ڈی ایم میں شامل گیارہ جماعتوں کو اس امر کا ادراک ہو گا کہ میاں نوازشریف اور ان کا بیانیہ ہی اس تحریک کی اصل قوتِ محرکہ ہے اور خود اپوزیش میں شامل سیاسی پارٹیوں کی اپنی بقا بھی اب اسی بیانیے کی افزائش کے ساتھ معلق رہے گی۔ جس طرح نواز لیگ نے طاقت کے مراکز سے ٹکرانے کو اپنی سیاست بنا لیا ہے، اسی طرح پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کی سلامتی بھی بامقصد مزاحمت کی حرکیات میں پوشیدہ ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتیں اپنی تنظیمی استعداد، نظریاتی بقا کے تقاضوں اور سیاسی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے موجودہ حالات میں اپنی گنجائش اور مستقبل کے امکانات کو مختلف زاویوں سے دیکھ رہی ہیں، خاص کر انتخابی دنگل میں ان کے مابین صحت مند مقابلے کا میدان ہمہ وقت سلگتا نظر آتا ہے لیکن اس الائنس میں شامل تمام جماعتیں 2018ء کے الیکشن میں مبینہ دھاندلی سمیت مملکت کی خارجہ پالیسی اور تقسیم اختیارات کے آئینی فارمولہ پہ عمل درآمد جیسے چند بنیادی مطالبات پہ متفق ہیں۔ دنیا بھر کی جمہوری روایات اور خود ہماری اپنی سیاسی تاریخ میں سیاسی قوتوں نے ہمیشہ بنیادی انسانی حقوق، جمہوری آزادیوں اور آئین و قانون کی حکمرانی کے لئے مل کر جدوجہد کرنے کی متنوع روایات چھوڑی ہیں۔ اگر ہم پیچھے پلٹ کے دیکھیں تو ماضی میں بننے والے تمام سیاسی اتحاد اسی طرح مختلف الخیال جماعتوں کے کسی ایک یا دو‘ اصولی ایشوز پہ متفق ہونے کی وجہ سے وجود میں آئے، جس کی سب سے نمایاں مثال پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی وہ تحریک تھی جس میں بائیں بازو کی مزدور موومنٹ، تحریک استقلال اور نیشنل عوامی پارٹی(نیپ )جیسی سیکولر جماعتوں نے بلاجھجک، جماعت اسلامی اور جے یو آئی جیسی سکہ بند مذہبی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کیا تھا۔
ضیاآمریت کے خلاف ایم آر ڈی کی تحریک میں پیپلزپارٹی کے ساتھ سابقہ پی این اے کی وہ ساری جماعتیں مل گئیں جنہوں نے چند سال قبل بھٹو گورنمنٹ کا تختہ الٹ کے آمریت کی راہ ہموار کی تھی۔ بعد ازاں نواز شریف حکومت کو گرانے کے لئے بنائی گئی اے آر ڈی کی موومنٹ سمیت ہر دو الائنسز میں متضاد مفادات کی حامل مذہبی و سیاسی جماعتیں ون پوائنٹ ایجنڈا پہ اکٹھی ہوتی رہیں؛ سوائے مشرقی بنگال کی عوامی لیگ کے، ماضی میں اٹھنے والی کسی سیاسی تحریک کا ہدف سیاسی و انتخابی نظام میں اصلاحات اورتقسیم اختیارات کے آئینی فارمولے پہ عملدرآمد یقینی بنانے کا ایشو شامل نہیں تھا بلکہ ماضی میں بننے والے تمام اتحاد مارشل لا یا پھر سیاسی حکومتوں کو ہٹانے تک محدود تھے جو حصولِ مقصد کے ساتھ ہی یہاں کی ملتبس سیاسی فضا میں ازخود تحلیل ہوتے گئے، دانش کبھی بھی الفاظ کے ذریعے آگے منتقل نہیں کی جا سکتی، یہ صرف مثال اور تجربات کے وسیلے دوسروں تک پہنچائی جا سکتی ہے۔ لاریب‘ فطرت نے اس دنیا میں عبرت کا سامان صرف آنکھوں والوں کیلئے مختص کر رکھا ہے۔
حیرت انگیز طور پہ متضاد نظریات کی حامل سیاسی جماعتوں کی تمام اینٹی گورنمنٹ تحریکوں میں کسی نہ کسی کو عارضی ریلیف ملنے کے سوا سیاسی قوتوں کو کبھی کوئی دیرپا اجتماعی مفاد نہیں ملا، البتہ اسی جدلیات کے اضافی عوامل نے انہیں سیاسی رواداری اور جمہوریت کی بنیادی اقدار پہ متفق رہنے کا ہنر ضرور سکھا دیا ہے جس کی وجہ سے ماضی میں ایک دوسرے کے مدمقابل جماعتیں بھی آج سیاست کی ساری تلخیاں فراموش کر کے مشترکہ اہداف کے حصول کی خاطر متحد ہونے میں حجاب محسوس نہیں کرتیں؛ تاہم ماضی کی حکومت مخالف تحریکوں اور موجود سیاسی جدوجہد میں بنیادی فرق یہی ہے کہ اب یہ تحریک محض حکومت گرانے پہ اکتفا نہیں کر رہی بلکہ اس کا ہدف آئینی فارمولے کے تحت اس کھوئی ہوئی سیاسی طاقت کا دوبارہ حصول ہے جس کے تحت اختیارات اور قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم کے ذریعے ملک میں سیاسی استحکام لانے کا مقصد حاصل کیاجا سکتا ہے۔
بلاشبہ! عالمی سیاست کے حیران کن تغیرات اور خطہ میں وقوع پذیرہونے والی تزویراتی تبدیلیوں کی بدولت یہ ایک ایسا مقبول بیانیہ بن چکا ہے، جسے سوشل میڈیا کی ٹیکنالوجی نے زیادہ پُرکشش بنا دیا ہے، اس لئے پاکستان پیپلزپارٹی سمیت کوئی بھی دوسری سیاسی جماعت خود کو اس پُرزور سیاسی لہر سے الگ نہیں رکھ پائے گی کیونکہ یہاں' موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں‘ والی صورتحال ہے۔ البتہ طاقت کے پیچیدہ نظام میں توازن لانے کی جدوجہد کی راہیں اتنی آسان بھی نہیں جس کی دو ٹوک الفاظ میں پیشگوئی کی جا سکے بلکہ اس کے ہمہ گیر پھیلائو میں ابھی کئی گہری کھائیاں اور اندھے موڑ پوشیدہ ہیں جو اس کاروانِ جمہوریت کو نادیدہ خطرات سے دوچار کر سکتے ہیں۔ جُوں جُوں یہ تحریک آگے بڑھتی جائے گی اس کی چھپی ہوئی جہتیں اور وہ مہیب عوامل سر اٹھاتے چلے آئیں گے ۔ جس طرح ماضی میں نے اقتدار و اختیارات منتخب سویلین قیادت کو سونپ کے واپس جانے کے مطالبات کی گونج میں علیحدگی کی مزاحمتی تحریک اٹھا لی گئی تھی، بالکل اسی طرح نوازشریف کی ''ووٹ کو عزت دو‘‘کی تحریک کے ناگوار تصادم میں ڈھلنے کا خطرہ موجود ہے، زندگی کے اجتماعی مقاصد کیلئے اتنا کافی ہوتا ہے کہ ہم ان مشاہدات کو حقیقی سمجھیں جن کے متعلق یکساں واقعات اور مختلف لوگ ایک جیسی شہادت دے رہے ہوں لیکن ہمیں یقین ہے کہ ادارے سیاسی قوتوں کے ساتھ تصادم سے بچنے کی خاطر کوئی نہ کوئی راہِ عمل ضرورنکال لیں گے۔ پرویز مشرف نے اپنی بہترین حکمت عملی سے امریکا کے ساتھ براہِ راست تصادم کو ٹال کے جو موقع حاصل کیا تھا‘ اسی نے افغانستان میں امریکی فوج کے غرور کو خاک میں ملا دیا، اب جنرل قمرجاوید باجوہ نے ابھینندن کی واپسی کے ذریعے انڈیا کے ساتھ جس بے مقصد جنگ کو ٹال کے اپنی قوت کو بچانے کا جو فیصلہ کیا وہ بھی قومی سلامتی کے لئے نیک فال ثابت ہو گا۔ بلاشبہ ایک اچھا جرنیل سب سے پہلے اپنی سپہ اور ملک و قوم کا دفاع کرتا ہے اور یہی جنگ کا بنیادی اصول ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کہا کرتے تھے کہ سیاستدان انتخابی میدان میں اترنے سے گھبراتے ہیں کیونکہ جس طرح جنگ بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیتی ہے اسی طرح الیکشن بھی سیاسی جماعتوں کی چولیں ہلا کے رکھ دیتے ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا کی واحد سپر پاورکے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پہلے انتخابی اکھاڑے میں اترنے سے ہچکچاتے رہے اور اب اسی انتخابی عمل کی پیچیدگیوں نے امریکا جیسی سپر پاور کو کبھی نہ تھمنے والی کشیدگی کی دہلیز پہ لا کھڑا کیا ہے۔