بلوچستان میں سیاسی کشمکش اور مسلح جدوجہد کی کہانی عالمی استعمار کی دنیا کو رنگ ، نسل، علاقے اور زبان کی بنیاد پر تقسیم کرنے اور دنیا بھر کو انہی خانوں میں بانٹ کر قومی ریاستوں کی تشکیل سے شروع ہوتی ہے اور بیرونی مداخلت بھی اس زمانے کا عطیہ ہے۔ یوں تو بلوچ قبائل انگریز حکمرانوں کے ساتھ بار بار بڑی بے جگری سے لڑے لیکن رابرٹ سنڈیمن کی ’’فارورڈ پالیسی‘‘ کے ثمرات نے بلوچوں کو تاج برطانیہ کا ساتھی بنا دیا۔ یہ پالیسی قبائلی سرداروں کی معاونت اور قبائلی رسم و رواج کی بنیاد پر قانون سازی سے امن و امان قائم کرنے کے لیے انتہائی کارگر ثابت ہوئی۔ یکم جنوری 1876ء میں قلات میں منعقد ہونے والے دربارِ عام میں سوائے دوسرداروں کے باقی تمام سردار خان آف قلات کی بجائے رابرٹ سنڈیمن کے سا تھ تھے۔یہ وہ دن تھا جب ایک قطرۂ خون بہائے بغیر سنڈیمن نے بلوچستان میں ایک مضبوط حکومت قائم کر لی۔ لیکن کچھ عرصے بعد عالمی طاقتیں دنیا پر اپنے قبضے کے لیے پہلی جنگ عظیم (1914-1918ء) میں کود پڑیں۔ اسی جنگ کے دوران ہندوستانی فوج کے مسلمان فوجی خلافت عثمانیہ کے مسلمان فوجیوں کے خلاف لڑنے گئے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب بلوچ انگریزوں کے خلاف اپنی آخری مزاحمتی جنگ لڑ رہے تھے۔ اس کے بعد قیامِ پاکستان تک کا عرصہ سیاسی ا ور سماجی جدوجہد کا عرصہ ہے‘ لیکن اس جدوجہد میں دبی ہوئی آزادی کی چنگاریاںضرور سلگتی رہیں۔ ادھر جب پوری دنیا کو قومی ریاستوں میں تقسیم کرنے کا عمل تیز ہوا تو دنیا کے نقشے پر 1917ء میں ایک کمیونسٹ ملک سودیت یونین وجود میں آیا۔ زارِ روس کی توسیع پسندی کا ورثہ اسی سوویت یونین کے کمیونسٹ حکمرانوں کو ورثے میں ملا؛ چنانچہ انہوں نے وسط ایشیا کے مسلمان ملکوں پر طاقت کے زور پر قبضہ کر لیا۔ قبضے کے بعد‘ انہوں نے سب سے پہلے اسلام اور مسلم تشخص سمیت ان تمام آثار کو بزور ختم کرنے کی کوشش کی جن سے مسلمانوں کی وابستگی تھی۔ مسجدوں پر تالے پڑگئے اور مزار و مدرسے ویران ہوگئے۔ ان سب کی جگہ ثقافتی مراکز نے لے لی اور علاقائی زبان اور رسم و رواج کو اہمیت دی جانے لگی۔ سوویت یونین نے مسلم معاشروں کی یکجہتی ختم کرنے کے لیے قوم پرستی کے جذبات کو خوب خوب اُبھارا۔ ستمبر1920ء میں سوویت یونین کی مسلم ریاست آذر بائیجان کے شہر ’باکو‘ میں مشرقی اقوام کی کانگریس منعقد کی گئی جس میں بلوچستان سے بھی ایک دفد نے شرکت کی۔ اس کانفرنس سے پہلے لینن نے سوویت روس کے لیے ایک عالمی پالیسی جاری کی جس میں تمام مشرقی اقوام میں بیداری کی تحریکوں کی حمایت اور ہر طرح کی امداد کا اعلان کیا۔ اس کانفرنس کا اعلامیہ یہ تھا ’’مشرق کی آزادی کے لیے ایک مقدس جنگ شروع کی جائے تا کہ وہاں قوموں کا استحصال ختم کیا جائے‘‘۔ اسی بنیاد پر امیر امان اللہ خان کی رہنمائی میں افغانستان کی آزادی اور رضا شاہ کبیر کی سربراہی میں ایران کی خود مختاری کی تحریکوں میں روسی مدد اور کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس کانفرنس اورلینن کے اعلامیہ کے بعد اس پورے خطے میں قوم پرست تحریکوں کو ہر طرح کی مدد ملنے لگی۔ افغانستان چونکہ کمیونسٹ روس کے زیر اثر تھا اس لیے برصغیر پاک وہند سے جو بھی ناراض ہوتا یا بغاوت کا علمبردار ہوتا اسے پناہ افغانستان میں ملتی ۔ نواب خیر بخش مری کے والد ناراض ہوئے تو وہاں گئے ، نواب اکبر بگٹی کے بھائی باپ سے لڑے تو وہ بھی وہاں چلے گئے اور پھر ڈپٹی کمشنر کوئٹہ نے خان عبدالصمد اچکزئی کو ا نہیں منانے کے لیے بھیجا۔ ریشمی رومال کی تحریک ہو یا کوئی اور معاملہ افغانستان ایک جائے امان تھی ان سب کے لیے‘ جو ریاست کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے۔ جن دنوں بلوچ قومی حقوق کے پس پردہ کمیونسٹ نظریات کی ترویج ہو رہی تھی انہی دنوں دنیا بھر میں خلافت اسلامیہ کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے قومیتوں کے نام پر مسلمانوں کے ملک بنائے جا رہے تھے۔ عراقی، شامی، مصری، لبنانی سب اسی بنیاد پر علیحدہ ہو رہے تھے اور روس کے قریب کے علاقوں میں موجود پشتون اور بلوچ اقوام کو بھی اسی قومیتی فریب میں مبتلا کیا گیا تھا۔ لیکن اس دنیا کے نقشے پر ایک معجزہ رونما ہونے والا تھا۔ ایک ایسی لکیر کھنچی جانے والی تھی۔ ایک ایسا نعرۂ مستانہ بلند ہونا تھا جو سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا عکس تھا۔ ایک ملت کا تصور، ایک ایسی قومیت جس کی بنیاد کلمۂ طیبہ پر ہو۔ اس قومیت کا نعرۂ مستانہ حضرت قائد اعظم رحمتہ اللہ علیہ نے بلند کیا۔ جب ساری امت رنگ‘ نسل اور زبان کی بنیاد پر اپنے آپ کو تقسیم کر رہی تھی‘ قائداعظم نے کہا کہ ارجن داس چیمہ اور محمد حسین چیمہ ایک قوم نہیں ہیں، اللہ بخش انٹر اور گوردھن سنگھ انٹر دو علیحدہ قوموں کے فرد ہیں۔ کوئی تین ہزار سال سے بھی پشتون یا بلوچ خون اپنی رگوں میں لیے پھر رہا ہو وہ اُس قوم کا حصہ نہیں بن سکتا جو لا الہ الا اللہ پڑھتی ہے۔ برصغیر میں اسی تصور یعنی لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر ایک بار پھر ’’میدان بدر‘‘ سجا دیا گیا تھا۔ پوری دنیا میں قومیت کا نعرہ بلند کرنے والے کمیونسٹ اور سرمایہ دارانہ طاقتوں کی تقسیم کے مقابلے میں ایک ملک بننے جا رہا تھا۔ قومیت کے نعرے میں بظاہر بڑی کشش ہوتی ہے۔ بلوچ اور پشتون بھی اس تصور قومیت پر آپس میں اکٹھے نہیں تھے بلکہ عبدالصمد خان اچکزئی نے ’’ورور پشتون‘‘ اور غوث بخش بزنجو نے استمان گل بنا رکھی تھی اور دونوں اپنی اپنی قوموں کے لیے علیحدہ وطن چاہتے تھے۔ ایک جانب شاہی جرگہ نے پشتون علاقے کا پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا اور دوسری جانب خان آف قلات میر احمد یار بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے خواب میں آئے اور کہا کہ میرے نام پر ایک ملک بن رہا ہے تم اُس میں شامل کیو ں نہیں ہوتے اور ریاست قلات نے باوجود اختلافات کے پاکستان میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔ اس کے بعد جس نے اس مملکت سے‘ جو دو قومی نظریے کی بنیاد پر بنی تھی بغاوت کا اعلان کیا‘ اسے پنا ہ اور ٹھکانہ افغانستان میں ملا۔ 1948ء میں خان آف قلات کا بھائی عبدالکریم،1974ء میں مری اور دیگر بلوچ مزاحمت کار، سب وہیں پناہ لیتے رہے۔ روس افغانستان سے چلا گیا تو امریکہ نے اُس کی جگہ لے لی۔ اس نے بھی ملک کے نظریے کے خلاف قوم پر ستوں کی امداد شروع کر دی۔ یہ نظریہ اور یہ ملک ہر اُس شخص کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے جو اللہ کی اس دوقومی تقسیم سے انکار کرتا ہے‘ وہ دوقومی تقسیم جس پر حشر کے دن ساری انسانیت کو اٹھایا جائے گا۔ اسی لئے اس نعرۂ مستانہ کو بلند کرنے والے قائداعظم سے بھی نفرت کی جاتی ہے۔ قائداعظم اسلامی تاریخ میں ایک علامت ہیں۔ نسل، رنگ، زبان اور علاقے کے بت کو پاش پاش کرنے والی۔ زیارت ریذیڈنسی کو اس لیے بموں سے اُڑا دیا گیا کہ اسلامی تاریخ کی عظیم علامت (قائداعظم) نے زندگی کے آخری چند ایام یہاں گزارے تھے۔ آپ حیران ہوں گے کہ وہ قوم پرست لیڈر جسے اس ملک نے عزت دی‘ دولت دی‘ پہچان دی‘ ٹیلی وژن پروگرام میں کبھی قائداعظم کا لفظ منہ سے نہیں نکالے گا‘ محمد علی جناح صاحب کہے گا۔ اپنی ہزاروں سالہ تاریخ کی داستان دہرائے گا، کہے گا ہم تین ہزار سال سے پشتون‘ بلوچ‘ پنجابی اور سندھی ہیں اور چودہ سو سال سے مسلمان۔ سیدالابنیاء صلی اللہ علیہ وسلم جب اسلام کی دعوت لے کر عرب کے قبیلوں میں گئے تھے وہ بھی یہی کہتے تھے کہ ہم تین ہزار سال سے قریش ہیں ، ہم باقی قومتیوں سے علیحدہ ہیں۔ یہ کیسا دین آپ لے کر آئے ہیں جو نوع بشر کو رنگ نسل، زبان اور علاقے کے بندھنوں سے آزاد کر کے انسانیت کی ایک لڑی میں پروتا ہے!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved