تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     10-11-2020

جوزف بائیڈن : ذاتی و سیاسی زندگی

جوزف بائیڈن 29 برس کی عمر میں سینیٹر اور 78 برس کی عمر میں صدر امریکہ منتخب ہوئے ہیں۔ وہ سب سے کم عمر سینیٹر اور سب سے زیادہ عمروالے امریکی صدر ہیں۔ اُن کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ وہ اونگھتے اور بھولتے سیاسی لیڈر ہیں‘ مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ وہ نوجوانی اور جوانی میں جتنے چاق و چوبند تھے آج بھی اتنے ہی مستعد ہیں۔ اُن کی ذاتی اور سیاسی زندگی میں کئی اتار چڑھائو آئے مگر انہوں نے عزیزوں اور دوستوں کی رفاقت میں ہمیشہ ان پر قابو پالیا۔کالج کے ایام میں اگرچہ بائیڈن بظاہر ایک نحیف و نزار نوجوان نظر آتے تھے مگر عملاً وہ بڑے متحرک تھے۔ وہ فٹ بال کے بہت اچھے کھلاڑی اور پارٹیوں کے شوقین تھے۔
ایک کالج ٹرپ کے ساتھ وہ سراکیوز یونیورسٹی گئے اور وہاں اُن کی ملاقات نیلیہ ہنٹر سے ہوئی۔ پہلی ہی نظر میں وہ خالص مشرقی انداز میں دل دے بیٹھے۔ تاہم اس ہدف کے حصول کیلئے انہوں نے بڑی گہری منصوبہ بندی کی اور سراکیوز یونیورسٹی کے لا سکول کے داخلہ ٹیسٹ کیلئے بھرپور تیاری کی اور اس میں کامیابی بھی حاصل کی۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ انہوں نے ''مشقِ سخن‘‘ بھی جاری رکھی اور بالآخر لا ڈگری اور اپنی پہلی محبت کو جیون ساتھی بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ اب قانون اور سیاست ہی اُن کی تمام سرگرمیوں کی جولاں گاہ تھی۔ وہ 1972ء میں 29 برس کی عمر میں دلے ویر سے سینیٹر منتخب ہو گئے۔ اس وقت تک اُن کے تین بچے ہو چکے تھے۔ چار سالہ بیٹا بیو‘ تین سالہ ہنٹر اور تیرہ ماہ کی بیٹی نومی۔ فیملی لائف کے دلدادہ بائیڈن کی زندگی ہنسی خوشی گزر رہی تھی مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ 1972ء ہی کے دسمبر میں کرسمس کیلئے شاپنگ کر کے واپس آتی ہوئی نیلیہ بائیڈن کی گاڑی کو خوفناک حادثہ پیش آ گیا۔ اسی حادثے میں نیلیہ اور تیرہ ماہ کی بچی نومی ہلاک ہو گئے اور بائیڈن کے دونوں بیٹے شدید زخمی حالت میں ہسپتال داخل کر دیے گئے جو وہاں کئی ماہ تک زیر علاج رہے۔ اس دوران بائیڈن کا زیادہ تر وقت ہسپتال میں اپنے بیٹوں کی تیمارداری اور نگہداشت میں گزرتا۔ اس حادثے نے بائیڈن کی شخصیت پر گہرا اثر چھوڑا۔ وہ آنسو بہاتا اور اپنے رب سے گڑگڑا کر شکوہ کرتا اور سوال پوچھتا رہا کہ آخر ''میرا ہی آشیاں کیوں؟‘‘ چند روز کیلئے تو وہ دنیا کی محفلوں اور دلچسپیوں سے بالکل اُکتا گیا اور اس خیال نے اس کے دل و دماغ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا کہ کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو۔
اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ کم عمر ترین سینیٹر کے اعزاز کو ٹھکرا دے گا اور سینیٹر کا حلف نہیں اٹھائے گا؛ تاہم بائیڈن خوش قسمت ثابت ہوا۔ اس کے کچھ عزیزوں اور دوستوں نے اس موقع پر اسے بہت تسلی دی اور قضاو قدر کے فیصلوں کے آگے سر تسلیم خم کرنے کی اہمیت اس پر واضح کی اور اسے نہایت محبت سے سمجھایا کہ اس کا ترکِ دنیا کا فیصلہ ایک جذباتی فیصلہ ہے اسے یہ فیصلہ واپس لینا چاہئے۔ بائیڈن نے اس محبت آمیز مشورے کے سامنے سر جھکا دیا اور کم عمر ترین سینیٹر کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا۔ تین سال کے بعد کہ جب وہ دلے ویر کے نوجوان سینیٹر تھے اور جل یونیورسٹی کے آخری سال میں تھی‘ دونوں کی ملاقات ہوئی۔ بقول بائیڈن جل نے انہیں زندگی میں واپس آنے میں بڑی مدد دی۔ ''تبادلۂ خیال کی ملاقاتوں‘‘ سے بات شروع ہوئی جو بڑھتے بڑھتے شادی تک جا پہنچی۔ جب بائیڈن نے اپنے سات سالہ اور چھ سالہ بیٹوں سے جل کا تعارف کروایا تو دونوں بچوں نے وہ فیصلہ صادر کیا جسے کئی ماہ سے بائیڈن دل سے زباں پر نہ لا سکے تھے۔ بائیڈن کے بیٹوں نے باپ سے کہا کہ آپ نئی امی کو کب گھر لا رہے ہیں؟ ہم منتظر ہیں۔ باقی ساری تاریخ ہے۔ بچوں کو ایک نئی بہن ایشلی مل گئی۔ یوں ایک بار پھر اس گھرانے میں خوشیاں لوٹ آئیں۔
بائیڈن بڑی ثابت قدمی اور مستقل مزاجی کے ساتھ سیاسی سفر پر گامزن رہے۔ بائیڈن نے اپنے دل میں وائٹ ہائوس کو اپنا ہدف قرار دیا ہوا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ ایک شوروشغب کے شوقین ''غیرسیاسی‘‘ صدر کے چار سالہ ہنگامہ خیز دور کی بنا پر سنجیدہ و متین بائیڈن کے بارے میں عمومی تاثر یہ تھا کہ شاید وہ اتنے متحرک نہیں۔ بائیڈن ایک مرتبہ نہیں چھ مرتبہ سینیٹر منتخب ہوئے۔ پہلی مرتبہ جنوری 1973ء میں اور آخری مرتبہ جنوری 2009ء میں۔ صدر باراک اوباما کے ہمراہ وہ دو بار نائب صدر امریکہ بھی منتخب ہوئے۔ بائیڈن کی زندگی جہد ِ مسلسل کی کہانی ہے۔ لگتا ہے انہوں نے کنگ بروس اور مکڑے کی کہانی کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھا۔ ایک بار وہ پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار کی دوڑ میں 1988ء میں اور دوسری بار 2008ء میں بڑی تندہی کے ساتھ شامل ہوئے مگر انہیں کامیابی نہ ملی۔ اس سے وہ ہرگز بددل نہ ہوئے بلکہ انہوں نے اس کامیابی کیلئے اپنی منصوبہ بندی کو تیزتر کر دیا اور بالآخر وہ 2020ء کے صدارتی انتخاب میں ڈیمو کریٹس کی طرف سے بطور امیدوار نامزدگی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ وہ ''اپنی نگاہ اپنے ہدف پر رکھو اور مسلسل جدوجہد کرتے رہو‘‘ پر یقین رکھتے ہیں۔ ایک بلند آہنگ‘ شیخی باز اور ٹویٹر پر متحرک صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں اپنی انتخابی مہم چلانا کوئی آسان کام نہ تھا۔ اس مہم میں ڈیموکریٹس نے ٹرمپ کی کردارکشی پر کوئی خاص توجہ نہیں دی بلکہ ٹرمپ کی غیرمقبول پالیسیوں سے دل شکستہ امریکیوں کی دل جوئی پر زیادہ توجہ مرکوز رکھی اور ایک صحت مند‘ کورونا سے آزاد اور خوش حال امریکہ کی نوید لوگوں کو سنائی اور اس کے لیے اپنی پالیسیوں سے ووٹروں کو آگاہ کیا۔ اس مہم کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کیلئے بائیڈن کے حامیوں اور ٹرمپ کے مخالفین نے ڈیموکریٹس کے ساتھ بھرپور مالی تعاون بھی کیا۔ پارٹی کے علاوہ ڈیموکریٹس کے سابق صدر باراک اوباما کہ جو بائیڈن کے اب ذاتی دوست بھی ہیں‘ نے بھرپور ساتھ دیا۔ بائیڈن کی 69 سالہ بیگم ڈاکٹر جل بائیڈن بھی قدم قدم پر اپنے میاں کی انتخابی مہم میں پیش پیش رہیں۔ 
اب ذرا ڈونلڈ ٹرمپ کی غلطیوں کا بیان ہو جائے جن کی بنا پر ریپبلکن ووٹرز سمیت اکثریت نے ٹرمپ کے خلاف ووٹ دیے اور اسے شکست سے دوچار کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔لوگ ٹرمپ کی اقتصادی پالیسیوں سے بہت نالاں تھے۔ دو سالہ کساد بازاری اور اس کے بعد کورونا کے دوران ٹرمپ کی ناقص منصوبہ بندی کی بنا پر اس وقت امریکہ میں ایک کروڑ چالیس لاکھ لوگ بیروزگار ہیں۔ بہت سے لوگوں کو گھر کی قسط نہ دینے کی بنا پر بے گھر ہونا پڑا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کورونا کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔ وہ ڈاکٹروں اور میڈیا پر گرجتے برستے رہے۔ اس وقت تک امریکہ میں ایک کروڑ سے اوپر لوگ اس وبا میں مبتلا ہو چکے ہیں اور دو لاکھ 43 ہزار 768 امریکی کورونا سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ تیسرا سبب یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ پہلے صدر ہیں جنہوں نے صدیوں کے بعد ایک بار پھر نسلی امتیاز کو ہوا دی۔ اُن کے اس رویے کو نہ صرف کالوں نے ناپسند کیا بلکہ سمجھدار گوروں نے بھی اس کے خلاف نفرت کا اعلان کیا۔ تارکین وطن کے بارے میں ٹرمپ کی شدت پسند پالیسیوں سے سارے ہی تارکین وطن بہت ہی دل گرفتہ تھے۔ ٹرمپ کی فلسطین و کشمیر میں مسلم مخالف پالیسیوں کی بنا پر امریکی مسلمانوں کی اکثریت نے بھی بائیڈن کے حق میں ووٹ دیا۔ 
جوبائیڈن سینیٹ کی فارن کمیٹی کے چیئرمین ہونے کی حیثیت سے اور دو بار نائب صدر کی حیثیت سے امریکہ کی اندرونی وبیرونی سیاست سے بخوبی آگاہ ہیں۔ بائیڈن پاکستان امریکہ کے تعلقات کے بارے میں کسی شک و شبہے میں مبتلا نہیں۔ وہ پاکستان کو اپنا ایک بااعتماد ساتھی اور پرانا اتحادی سمجھتے ہیں۔ امید ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی بہتری اور کشمیریوں کو حق خودارادیت دلانے میں مثبت کردار ادا کریں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved