تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     10-11-2020

سلطانیٔ جمہور…(قسط دوم)

اس عنوان کے تحت لکھے گئے پہلے کالم میں وہ بارہ شرائط بیان کی گئیں جو سلطانیٔ جمہور کے خواب کی عملی تعبیر کیلئے ضروری ہیں۔ اس فہرست میں نمبر11 پرتھی جاندار اور توانا سوسائٹی جس کا مطلب ہے سماجی تنظیمیں‘ عبادت گاہیں‘پریس پیشہ ورانہ انجمنیں اور رضا کارانہ خدمت کے ادارے۔ آزاد‘ غلام یا نیم آزادممالک میں کئی چھوٹے بڑے فرق ہوتے ہیں مگر میرے نزدیک سب سے نمایاں فرق سوسائٹی کا ہوتا ہے کہ وہ مضبوط ہے یاکمزور۔ جب رعایا ایک تاریخی عمل سے گزر کر شہری بن جائے تو وہ ہر سطح پر باگ پر ہاتھ او ررکاب میں پائوں رکھنے کا حق مانگتی ہے اور چاہے راستے میں کتنے کوہِ گراں ہوں‘ وہ کامیاب ہو کر رہتی ہے۔ اجازت دیجئے کہ میں ایک مثال دے کر آگے بڑھوں۔ میں اس سال ماہ مارچ میں سرگودھا بار ایسوسی ایشن کا مہمان تھا۔ اس موقع سے فائدہ اُٹھا کر میں سینکڑوں وکلا میں تبدیلی ٔ نظام و شرکتِ عوام کے بارے میں اپنا موقف ایک منشور کی شکل میں شائع کر کے وہاں تقسیم کر رہا تھا کہ ایک نوجوان میرے پاس آیا اور مجھے اپنا شائع کردہ Leaflet دیا‘جو میں نے حیرت اور خوشی سے پڑھا اور اپنے ساتھ لندن لے آیا۔ وہ میری مطالعہ کی میز کے دراز میں رہتا ہے۔ جب میرا حوصلہ پست ہونے لگے تو میں اسے نکال کر پھر پڑھ لیتا ہوں۔ اس لیفلیٹ میں ایک طرف چھ ماحولیاتی مسائل لکھے گئے ہیں اور دوسری طرف مجوزہ حکمت عملی جس پر عمل پیرا ہو کر وہ مسائل حل کئے جا سکتے ہیں۔ یہ تو تھی ایک چھوٹی مگر قابل تعریف کاوش جو ہمیں خدمت خلق کی بڑی تنظیموں کی صورت میں نظر آتی ہے۔ جوں جوں سلطانی جمہور کا تاریخی عمل آگے بڑھتا ہے تپتے ہوئے صحرا خوشگوار نخلستان میں تبدیل ہوتے جاتے ہیں۔
میں جب سلطانیٔ جمہور کی دنیا بھر میں کرشمہ سازیاں دیکھنے کیلئے تمام براعظموں پر نظر دوڑاتا ہوں تو وہ وسطی یورپ کے ایک چھوٹے سے ملک پر جا کر ٹھہر جاتی ہے جس کا نام ہے سوئٹزر لینڈ۔ اس ملک کی سب سے بڑی خوبی استصواب رائے کے ذریعہ قانون سازی ہے۔ حکومت اہم قوانین کی منظوری سے پہلے اپنے ملک کے لوگوں سے رائے پوچھتی ہے اور اگر ان کی اکثریت کی منظوری نہ ملے تو برسر اقتدار جماعت پارلیمنٹ کے اندر اپنی اکثریت کے بل بوتے پر اسے قانون نہیں بناتی۔ اس ملک نے آخری جنگ دو سو سال پہلے لڑی تھی اور گزری ہوئی دو صدیاں مکمل غیر جانبداری کی حکمت عملی پر عمل کر کے امن سے گزارے۔ آپ کو بمشکل اعتبار آئے گا کہ جغرافیائی طور پر جرمنی کا پڑوسی ہونے کے باوجود یہ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم سے بالکل غیر جانبدار رہا۔ دیہی علاقوں میں رہنے والے بڑے سکون سے اپنے گھروں میں بڑے لاڈ پیار سے رکھی ہوئی گائے کے ریوڑ پالتے اور اُن کا دودھ دوہتے رہے اور دنیا کی سب سے مہنگی گھڑیوں کے پرُزے بناتے رہے۔ اردگرد ہونے والی بمباری اور دن رات بم دھماکوں سے اُن کے معمولات ہر گز متاثر نہ ہوئے۔ اس ملک میں ہر شہری کیلئے فوجی تربیت کا حصول لازمی ہے اور اُسے ہر سال ایک ماہ کیلئے جنگی مشقوں میں حصہ لینا پڑتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ 75 لاکھ کی آبادی میں (بچے اور بوڑھے نکال کر) عوامی فوج چار لاکھ افرادپر مشتمل ہے۔ اس ملک کے کل آبادی لاہور کی آبادی کے برابر ہے اور جزوقتی فوج پاکستان سے نصف۔ ملک کا کل رقبہ 15941 مربع میل (پاکستان کا 307,324 مربع میل) مگر صوبوں (Cantons)کی تعداد 26 ہے۔ صوبے داخلی معاملات میں اس حد تک خود مختار ہیں کہ ملک کے سرکاری نام کے ساتھ کنفیڈریشن (جو وفاق سے بھی ایک قدم آگے کی سیاسی وحدت کو کہتے ہیں) کا لفظ بھی لکھا جاتا ہے۔ اس ملک کی وزارتِ دفاع نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اُسے نئے لڑاکا ہوائی جہازوں کی خریداری کیلئے ساڑھے پانچ ارب پائونڈ خرچ کرنے کی اجازت دی جائے۔ حکومت نے جواب دیا کہ ہم اس مسئلے پر استصواب رائے کرالیتے ہیں اور نئے لڑاکا جہاز صرف اُس صورت میں خریدے جائیں گے کہ ووٹروں کی اکثریت اس کے حق میں ووٹ دے تاکہ سلطانی جمہور کا پرچم سرنگوں ہونے کی بجائے بلند ہو جائے۔ 
19 ستمبر کو شائع ہونیوالے ہفت روزہ اکانومسٹ پر شائع ہونیوالا مضمون ہمیں سلطانی جمہور کی ایک نئی جہت دکھاتا ہے۔ عنوان ہے ''Citizen Assembly‘‘۔ حال ہی میں سکاٹ لینڈ کو پہلی شہری اسمبلی کے انعقاد کا شرف حاصل ہوا۔ یہ سلطانی جمہور کی شاہراہ پر ایک نیا اور روشن سنگ میل ہے۔ یہ اجلاس وہاں کے ایک بڑے شہر گلاسگو میں ہوا۔ اب یہ ایڈنبرا اور دوسرے شہروں میں بھی ہوں گے تاکہ سکاٹ لینڈ کے باشندے فیصلہ کر سکیں کہ اُنہیں بدستور برطانیہ کا حصہ بن کر رہنا چاہیے یا وہ برطانیہ سے اپنا رشتہ توڑ کر اُس یورپی یونین سے جوڑ لیں جس سے برطانیہ نکل گیا ہے۔
پچھلے دنوں Pewنامی تحقیقی ادارہ نے انکشاف کیا کہ اُس نے جن 34 ممالک کے عوام سے سروے کیااُن میں 64 فیصد کی رائے یہ تھی کہ حکومت عوام کی خواہشات کا ہر گز احترام نہیں کرتی اور من مانی کرتی ہے۔ امریکی عوام کا 59 فیصد اور برطانوی عوام کا 69 فیصد اپنی حکومتوں سے غیرمطمئن ہے۔اس صدی کے پہلے 20 سالوں میں کینیڈا‘ ہالینڈ اور چلی میں عوامی اسمبلیاں بلانے اور قومی مسائل پر سنجیدگی سے تبادلۂ خیال کرنے اور رائے عامہ کو اپنی اجتماعی دانش کے بل بوتے پر رہنمائی کا موقع دیا گیا تو بہت اچھے نتائج نکلے۔ عوامی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرنے والوں نے مذہب اور سیاست کے حوالہ سے ایسی باتیں کیں جو پارلیمان میں (سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے) ممکن نہ تھیں۔ سیاسی جماعتوں کے بارے میں اب لوگوں کی رائے میں تعریف کم ہوتی ہے اور مذمت زیادہ چونکہ وہ بے جان مشینیں بن گئی ہیں جو زندہ انسانوں کے مسائل میکانکی طریقہ سے حل کرنے کی عادی ہوگئی ہیں۔ برطانوی راج نے برصغیر پر دو سو سال حکومت کی تو ان کے کل پرُزے مقامی لوگ تھے۔ (کلرک اور نچلے درجہ کے افسر) جنہیں عرفِ عام میں بابو کہا جاتا تھا۔ بابو کی اپنی مخصوص ذہنیت ہوتی ہے۔ وہ فطرتاً عوام دشمن‘ لکیر کے فقیر اور اپنے آقا کی خوشنودی کی خاطر اپنے ہم وطنوں پر اور اپنے ہم مذہب لوگوں پر گولیاں برسانے سے بھی گریز نہیں کرتا (جیسے جلیانوالہ باغ میں)۔ بدقسمتی سے آج بھی پاکستان پر بابوئوں کی حکومت ہے۔ اُن کی واحد دلچسپی اچھی تنخواہ‘ سرکاری مراعات اور معقول پنشن کی وصولی میں ہوتی ہے۔ 
کتنااچھا ہو کہ پاکستان کے آئین میں ایک اور ترمیم کر کے ایوانِ بالا (Senate ) میں سیاسی پارٹیوں کو کروڑوں‘ اربوں روپے رشوت دے کر نشستیں فروخت کرنے کی اجازت دینے کی بجائے چیمبر آف کامرس‘ مزدوروں‘ کسانوں‘وکلا‘ ڈاکٹروں اور دکانداروں کو مناسب نمائندگی دی جائے۔ یہ اس لئے زیادہ ضروری ہے کہ پارلیمان کا ایوانِ زیریں (قومی اسمبلی) محنت کشوں اور متوسط طبقہ کی ہر گز نمائندگی نہیں کرتا۔ انتخابی قوانین میں یہ ترمیم کی جائے کہ سیاسی جماعتوں کے موروثی یا غیر منتخب شدہ قائدین کو ٹکٹ جاری کرنے (بلکہ فروخت کرنے) سے روک دیا جائے۔ ہر انتخابی حلقے میں ہر سیاسی جماعت کی مقامی شاخ کے ارکین کو یہ آئینی حق دیا جائے کہ وہ (یورپ کے ہر ملک کی طرح) اُس حلقہ انتخاب کی نمائندگی کیلئے خود ٹکٹ دیں۔ جنوبی پنجاب صوبہ‘ ہزارہ صوبہ اور کراچی صوبہ کے تنازعات کا واحد حل یہ ہے کہ ہر ڈویژن کو (کراچی سے زیادہ بنا بنایا ڈویژن اور کون سا ہو سکتا ہے؟) صوبائی درجہ دے دیا جائے جو مکمل طور پر بااحتیار ہو۔ اقبال نے سو سال پہلے سلطانیٔ جمہور کے قدموں کی چاپ سن لی تھی۔ ہم اتنے بہرے ہو گئے ہیں کہ ہمیں اب تک سنائی نہیں دی‘مگرانسانی تاریخ کا ایک سبق یہ ہے کہ وہ اندھی‘ گونگی اور بہری قوم کو معاف نہیں کرتی بلکہ سخت سزا دیتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved