شیر کھڑے ہوں، گیدڑ بھاگ جائیں گے:مریم نواز
مستقل نااہل، سزا یافتہ اور اشتہاری سابق وزیراعظم کی سزا یافتہ صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''شیر کھڑے ہوں، گیدڑ بھاگ جائیں گے‘‘ کیونکہ گیدڑ ہمیشہ بھاگ جایا کرتے ہیں جبکہ کچھ گیدڑ تو پہلے ہی بھاگ چکے ہیں اور جو باقی رہ گئے ہیں اُن کی منزل بھی دُم دبا کر بھاگنا ہی ہے البتہ شیروں کی تعداد روز بروز کم پڑتی جا رہی ہے کیونکہ رفتہ رفتہ یہ بھی گیدڑ بنتے اور بھاگتے ہی پائے جا رہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ اس جنگل میں ایک شیر ہی اکیلا رہ جائے گا، بھلے اس نے شیر کی کھا ل ہی زیب تن کر رکھی ہو جبکہ بھاگنے والوں کو بھگوڑے ہی کہا جائے گا یا مفرور۔ آپ اگلے روز چلاس میں ایک جلسے سے خطاب کر رہی تھیں۔
ہماری قربانیوں کو جو رائیگاں کرے گا اسے کسی
دوسرے ملک بھیج دیں گے: علی امین گنڈاپور
وفاقی وزیر برائے امورِ کشمیر گلگت بلتستان علی امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ ''ہماری قربانیوں کو جو رائیگاں کرے گا اسے بھارت بھیج دیں گے‘‘ بلکہ وہ تو پہلے ہی باہر جانے کے لئے تیار بیٹھے ہیں، ہم نے صرف انہیں ویزے ہی دینے ہیں اگرچہ کچھ کو یہاں آنے کے لئے ویزوں کی بھی ضرورت نہیں ہوتی جیسے مودی یہاں بغیر ویزے کے آئے تھے بلکہ جو لندن میں بیٹھے ہیں وہ بھی، جب سے انہوں نے سُنا ہے کہ برطانوی حکومت انہیں واپس بھیجنے پر غور کر رہی ہے، کہیں اور جانا چاہتے ہیں کیونکہ ملک کے اندر ان کے لئے اب کچھ بھی باقی نہیں بچا ہے جبکہ زیادہ تر تو وہ ساتھ لے جا بھی چکے ہیں۔ آپ اگلے روز سکردو میں ایک جلسے میں خطاب کر رہے تھے۔
مریم نواز بہادری کے ساتھ باپ
کا بیانیہ لے کر نکلی ہے: خواجہ آصف
نواز لیگ کے مرکزی رہنما خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ ''مریم نواز بہادری کے ساتھ باپ کا بیانیہ لے کر نکلی ہے‘‘ کیونکہ اس بیانیے کو لے کر چلنے کے لئے غیر معمولی بہادری درکار ہوتی ہے جبکہ اسے خوبصورت سیاسی تنہائی بھی کہا جا سکتا ہے‘اور یہ بیانیہ ایک اجتماعی سیاسی تنہائی کی طرح ہے اور جو مسلم لیگی جماعت کو چھوڑ چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں وہ یہ سعادت حاصل کرنے سے محروم رہ جائیں گے، اپنی اپنی قسمت کی بات ہے اور ہر آدمی دنیا میں اپنی قسمت لے کر ہی آتا ہے۔ آپ اگلے روز سیالکوٹ میں ایک انٹرویو دے رہے تھے۔
حکومت جا نہیں رہی، آگے بڑھ رہی ہے: فردوس عاشق
وزیراعلیٰ پنجاب کی معاونِ خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''حکومت جا نہیں رہی آگے بڑھ رہی ہے‘‘ اگرچہ اس کا رُخ ابھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ آگے کی طرف ہے یا پیچھے کی طرف، اور اگر پیچھے کی طرف ہے تو یہ واقعی تشویش ناک صورتِ حال ہو گی اس لئے سب سے پہلے حکومت کو اپنے رُخ کے حوالے سے تسلی کر لینی چاہیے کہ وہ آگے کی طرف ہے یا پیچھے کی طرف، اور اُس وقت تک اس کے لئے کھڑے رہناہی بہتر ہوگا کیونکہ اگر یہ پیچھے کی طرف بڑھ رہی ہے تو کہیں ضرورت سے زیادہ ہی پیچھے نہ بڑھ جائے جہاں سے واپسی کے لئے اسے بہت زیادہ فاصلہ طے کرنا پڑے گا، اگرچہ اس کے لئے آگے یا پیچھے بڑھنا کچھ زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ آپ اگلے روز لاہور سے ٹویٹر پر ایک پیغام نشر کر رہی تھیں۔
مہنگا اور مُفت
ایک صاحب ایک دکان پر گئے اور خریدنے کے لئے ایک چیز کی قیمت دریافت کی، جب اُنہیں قیمت بتائی گئی تو وہ بولے: ساتھ والی دکان پر تو اس سے نصف قیمت پر مل رہی ہے۔ ''تو آپ نے ساتھ والی دکان سے کیوں نہیں خریدی؟‘‘ دکاندار نے سوال کیا۔
''اس لئے کہ اُن کے ہاں آؤٹ آف سٹاک ہے‘‘ وہ صاحب بولے۔ ''ہمارے ہاں جب یہ آؤٹ آف سٹاک ہوتی ہے تو ہم اسے مفت دے دیتے ہیں‘‘ دکاندار بولا۔
کتابی سلسلہ ''رنگِ ادب‘‘
اسے کراچی سے ہمارے دوست شاعر علی شاعر شائع کرتے ہیں۔ موجودہ شمارے کا نمبر 53ہے۔ اسے بزمِ رنگِ ادب نے پیش کیا ہے۔ سلسلۂ شعر کو رنگِ سخن کا نام دیا گیا ہے جس کے تخلیق کاروں میں خاکسار کے علاوہ غلام حسین ساجد، عقیل عباس جعفری، ریاض ندیم نیازی جبکہ خصوصی گوشہ کے شاعر کرامت بخاری ہیں۔ یہ رنگِ تنقید میں احمد ندیم قاسمی (انتخاب از نوید صادق) علامہ بشیر رزمی، ڈاکٹر نجیب جمال، ڈاکٹر مشتاق احمد، ڈاکٹر عزیز احسن، فراست رضوی، ڈاکٹر شیما ربانی، اکرم کنجاہی، حمیرا اطہر، حمایت رضوی، شاعر علی شاعر اور دیگران ہیں۔ رنگِ افسانہ میں امر کانت، اشتیاق احمد، شاکر انور اور دیگران جبکہ رنگِ تبصرہ میں حمیرا اطہر، ریاض ندیم نیازی، راغب مرادآبادی، محمد علی منظر اور زاہد رشید شامل ہیں جبکہ رنگِ مزاح میں ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی اور ابو الفرح ہمایوں ہیں، رنگِ خود نوشت میں مسلم شمیم اور اس کے بعد رنگِ ادب کے اعزازات اور خورشید بیگ ملسیانی۔
اور‘ اب مسعود احمد کی شاعری:
جو اچھل کود ہو رہی ہے یہاں
ساری بے سود ہو رہی ہے یہاں
یہ ہوا کس قدر مصفا تھی
زہر آلود ہو رہی ہے یہاں
آسماں تک غُبار پھیلا ہے
چاندنی دور ہو رہی ہے یہاں
ایک جو رہگزر تھی صدیوں سے
وہ بھی مسدود ہو رہی ہے یہاں
وہ محبت بھی اک زمانے سے
غیر موجود ہو رہی ہے یہاں
اس طرح تو گزر نہیں ہوتی
جیسے مسعودؔ ہو رہی ہے یہاں
٭......٭......٭
وہیں باتیں پرانی کر رہا ہوں
میں پتھر پانی پانی کر رہا ہوں
چراغِ آخرِ شب ہوں مگر میں
ہواسے چھیڑ خانی کر رہا ہوں
وہ خنجر کی طرح دل میں لگی ہے
میں جس کو آنی جانی کر رہا ہوں
زمیں تب سے دہائی دے رہی ہے
میں جب سے حکمرانی کر رہا ہوں
اُسی اک شام کے صدقے ابھی تک
کئی شامیں سُہانی کر رہا ہوں
یہ جمع و خرچ میں سارے کا سارا
ابھی تک تو زبانی کر رہا ہوں
میں خود پر مہرباں ہوتا ہوں‘ جیسے
کسی پر مہربانی کر رہا ہوں
آج کا مطلع
اس سے بڑھ تو کہاں درکار ہے
کچھ زمیں کچھ آسماں درکار ہے