تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     19-06-2013

احتیاط ‘ جنابِ والا احتیاط!

تاریخی تجربہ یہ ہے کہ کوئی قوم سرخرو نہیں ہوتی ، اگر باہم وہ متصادم رہے ۔ کیا میاں محمد نواز شریف کو ادراک ہے ؟ کیا ان کے وزیرِ داخلہ اوران کے حلیف معاملہ خودبگاڑ رہے ہیں یا ان کے ایما پر ؟ احتیاط، جنابِ والا احتیاط۔ ملک جمہوریت کی ناکامی کا متحمل نہیں۔ الطاف حسین نے یہ کہا: مجھ سے اگر پاکستانیت چھینی گئی تو اسے پاکستان کے خاتمے کا اعلان سمجھیں ۔ ان کے اس طرزِ عمل پرکوئی تعجب نہیں ۔ موصوف کا مزاج یہی ہے ۔ چوہدری نثار علی خان کو مگر کیا ہوا اور جناب محمود اچکزئی کو؟ جوشِ خطابت کا جو مظاہرہ انہوںنے کیا، اس کا فائدہ کیا ہوگا؟ سیاسی اور عسکری قیادت میں مفاہمت کی جتنی ضرورت آج ہے ، اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔ بلوچستان لبریشن آرمی اور لشکرِ جھنگوی نے پیغام دے دیا ہے کہ وہ بحران کا حل اور استحکام گوارا نہ کریں گے ۔ کس کی مالی سرپرستی انہیں حاصل ہے ؟کہاں انہیں پناہ دی جاتی ہے ؟ اقوامِ متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل سمیت، ملک کی بعض معروف این جی اوز جہاں وعدہ معاف گواہ بن گئی ہیں ، کون ان کی پیٹھ تھپتھپاتا ہے ؟ مولوی فضل اللہ سمیت ، قبائلی علاقوں سے فرار ہو کر افغانستان میں آسودہ وہ طالبان جنگجو کس کے ایما پر حملہ آور ہوتے ہیں ؟ یقینا قومی پالیسیوں کی تشکیل میں فوج کا کردار اس سے کہیں زیادہ ہے، جتنا کہ ہونا چاہیے۔ یہ بھی واضح ہے کہ رائے عامہ سیاسی اور عسکری قیادت دونوں کو اس کا ذمہ دار سمجھتی ہے ۔ غیر ذمہ دار اور مہم جو جنرلوں نے بار بار اقتدار پہ شب خون مارا۔ دوسری طرف منتخب وزرائِ اعظم بھی فوجی آمروں کی طرح حکمرانی فرماتے رہے ۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو تھے ، 23مارچ 1974ء کو جن کے مسلّح کارکنوںنے لیاقت باغ راولپنڈی میں متحدہ اپوزیشن کے جلسہ ٔ عام پر بے رحمی سے آگ برسائی؟ عبدالولی خان کیا اسی اجتماع سے گیارہ کارکنوں کی لاشیں اٹھا کر پشاور نہ پہنچے تھے ؟ ایف ایس ایف کے نام سے ایک ذاتی آرمی بھٹو نے تشکیل دی۔ بلوچستان پر فوج چڑھا دی۔ اپنے ہی ساتھیوں کو دلائی کیمپ میں قید کر ڈالا ۔ 1977ء کے الیکشن میں نہ صرف خود بلامقابلہ منتخب ہوئے بلکہ چاروں وزرائِ اعلیٰ کو بھی اجازت مرحمت فرمائی ۔ جیلوں کے دروازے حکم عدولی کرنے والے ایڈیٹروں پر کھلے رہتے تھے ۔ عدالتوں کی مجال نہ تھی کہ ان کی دادرسی کریں۔ الطاف گوہر، محمد صلاح الدین اور قریشی برادران نے اقتدار کا بیشتر عرصہ جیلوں میں بسر کیا اور نہایت ناگفتہ بہ حالت میں۔ حیرت ہوتی ہے کہ بھٹو صاحب جس انجام سے دوچار ہوئے ، اکثر دانشور تنہا فوجی قیادت کو اس کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ تاریخ کا سبق تو یہ ہے : چاہ کن را چاہ درپیش! میاںمحمد نواز شریف کی کہانی مختلف ہے مگر اپنی روح میں ہرگز نہیں۔ تفصیل کی کیا حاجت کہ ماضی قریب کا قصہ ہے ۔ ٹیلی ویژن کے مباحثوں میں آئے دن ذکر رہتا ہے ۔ وہ اور ان کے فدائین 12اکتوبر 1999ء کو فوجی انقلاب کے بعد کیا جانے والا سروے ملاحظہ فرمالیں ۔ یہ میاں صاحب کے محبوب ادارے گیلپ نے کیا تھا۔ 70فیصد ، جی ہاں بدقسمتی سے 70فیصد پاکستانیوںنے سول حکومت کی برطرفی کا خیر مقدم کیا تھا ۔ دس فیصدغیر جانبدار اور صرف بیس فیصد نے مخالفت کی۔ ظاہر ہے کہ ان سب کا تعلق نون لیگ سے نہیں تھا۔ ازراہِ احتیاط میاں صاحب اس روز بی بی سی کو دیئے جانے والے اپنے سیاسی لے پالک احسن اقبال کے انٹرویو کا متن بھی دیکھ لیں۔ یہ دونوں دستاویزات انہیں سرہانے تلے رکھنی چاہئیں۔ اس میں کوئی کلا م نہیں کہ کاروبارِ حکومت کو اگر واقعی ثمر مند اور نتیجہ خیز بنانا مقصود ہو تو تمام کا تما م اختیار سول حکومت کے پاس ہونا چاہیے۔ ساری دنیا میں قرینہ یہی ہے تو پاکستان میں مختلف کیسے ہو سکتاہے ۔ سوال یہ ہے کہ یہ کام بتدریج ہوگا یا کسی شام اچانک؟ کچھ مراحل طے ہو گئے ،چندباقی ہیں ۔ ترقی یافتہ معاشروں کا دستور بھی یہ نہیں ، جنرل کیانی نے مگر اچھا کیا کہ وزارتِ عظمیٰ سنبھالنے سے پہلے ہی سول لیڈر کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ساری دنیا کا تجربہ یہ ہے کہ ملوکیت سے جمہوریت یا ملٹری سے سول صلاحیتِ کار رفتہ رفتہ بڑھتی اور ذمہ داریاں منتقل کرنے کا سلسلہ ایک منصوبے کے تحت بروئے کار آتا ہے نہ کہ چھینا جھپٹی سے ۔ پارلیمنٹ میں چیختی چلاتی تقریروں سے کیا مقصود حاصل ہو سکتاہے یا جیسے ترکی میں حسن و حکمت سے انجام دیا گیا؟ عوامی امنگوں سے ہم آہنگ ،اپنے تاریخی ، تہذیبی اور تمدّنی ورثے کا شعور رکھنے والی سیاسی پارٹی نے عوامی خد مت کے شاندار ریکارڈ اور غیر معمولی ساکھ سے یہ کارنامہ انجام دیا۔ دنیا کی بہترین معیشتوں میں سے ایک معیشت کی تعمیر اور معاشرے کے بہترین افراد کو زمامِ کار سونپ کر۔بحران اب بھی ہے مگر کیا ترک فوج مداخلت کر سکتی ہے؟ اپنا اپنا موقف دہرانے کے لیے نہیں بلکہ مفاہمت بڑھانے اور مسئلہ حل کرنے کے لیے آئندہ چند روز میں وزیراعظم اور سپہ سالار کی مفصل ملاقات ہونی چاہیے ورنہ اندیشے جنم لیں گے۔ ایک بچّہ بھی سمجھ سکتا ہے کہ سول فوجی تعلقات میں مزید الجھائو کا نتیجہ کیا ہوگا مگر چوہدری نثار علی خان نہیں ؟ جنر ل محمد ضیاء الحق تو ان کے لیڈر کو سازگار تھے بلکہ وہ انہیں اپنا محسن کہتے۔ ہر سال ان کے مزار پر حاضری دے کر ان کا مشن مکمل کرنے کا اعلان فرمایا کرتے۔ موجودی عسکری قیادت کیوں نہیں ، جس نے پانچ برس تک کمال صبر کا مظاہرہ کر کے الیکشن اور انتقالِ اقتدار کو بطریقِ احسن ممکن بنایا؟ کیا یہ واقعہ نہیں کہ بھارت پاکستان میں انتشار کا آرزومند ہے ؟ کیا وہ شیعہ سنّی تنازع بڑھانے اور خون خرابہ کرنے والے گروہوں کی سرپرستی نہیں کرتا؟ کیا امریکہ اور بھارت کی اشیرباد ہی سے صدر حامد کرزئی پاکستان کے خلاف اشتعال انگیزیاں نہیں کیا کرتے ؟ کیا یہ دونوں ممالک کابل میں دہلی کے مستقل رسوخ کا تہیہ نہیں رکھتے ؟ کیا اس خطے میں بھارتی بالادستی امریکی ایجنڈہ نہیں؟ کیا امریکی اداروں سے مالی امداد حاصل کرنیو الی این جی اوز مستقل طور پر بھارت کی حمایت اور پاکستانی فوج کے خلاف پروپیگنڈہ نہیں کرتیں ؟ کیا یہ انہی کی ترجیح نہیں کہ پاک ایران تعلقات میں بہرحال کھنڈت ڈالی جائے۔ حالیہ الیکشن میں بعض عرب ریاستوں کی غیر معمولی دلچسپی کا سبب کیا تھا اور کیا وہ اپنے طور پر بروئے کار تھے ؟نواز شریف کے پرجوش وزرا میں سے ایک سے پوچھا گیاکہ ان کا لیڈر کتنا بدل سکا ہے ؟ اس نے جواب دیا: بس اتنا کہ سر پہ بال اگا لیے ہیں ۔ اخبار میں نہیں لکھنا چاہتا، کوئی پوچھے تو نام بتایا جا سکتاہے ۔ حال یہ ہے کہ سوات میں فوجی کارروائی کے چار سال گزر جانے کے باوجود سول انتظامیہ نظم و نسق سنبھالنے کے قابل نہیں۔ کوئٹہ شہر کے سوا ، پورے بلوچستان کو ان لیویز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے ، جن کے اہلکار چٹے ان پڑھ ہیں اور جو ریاست نہیں، سرداروں کو جواب دہی کرتے ہیں۔ ان سرداروں کو ، جو سکول، ہسپتال اور سڑک بننے نہیں دیتے۔ سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ سچّی سول ملٹری مفاہمت ہی سے ملک میں استحکام پیدا ہو سکتاہے ۔اتنی ہی واضح سچائی یہ کہ بھارت اور امریکہ ہیں ، جو پاک فوج کی تباہی کے خواہش مند ہیں ۔ کوشش ان کی یہ رہتی ہے کہ سیاسی جماعتوں اور عسکری قیادت کے درمیان غلط فہمیاں پیدا ہو تی اور بڑھتی رہیں۔ سب سے اچھی تجویز غالباً آفتاب احمد خان شیر پائو نے پیش کی ہے۔ وزیرِاعظم کی قیادت میں ایک کمیشن بنا کر ، جس میں فوجی لیڈر بھی شریک ہوں، خطرناک علاقوں اور خطرناک مسائل سے نمٹا جائے ۔ کابینہ کی دفاعی کمیٹی شاید بہتر متبادل ہو ، جسے زیادہ اختیار دے کر مستقل حکمتِ عملی تشکیل دی جائے۔ دو گروہوں میں اگر اعتماد کارفرما نہ ہو تو یہ تبدریج ہی بڑھتا اور یقینی ہوتاہے ؛حتیٰ کہ آہنگ جنم لیتا اور برگ و بار لاتاہے۔ فارسی کی ضرب المثل یہ ہے : احمق بھی وہی کرتے ، جو دانا مگر خرابیِ بسیار کے بعد۔عربوں کا محاورہ یہ ہے: دانا وہ ہے، جو دوسروں سے سبق سیکھے۔ پوٹھوہاری کہتے ہیں: جلد باز آدمی تین بار غسل خانے جاتا ہے۔ ہم پانچ بار جا چکے۔ تاریخی تجربہ یہ ہے کہ کوئی قوم سرخرو نہیں ہوتی ، اگر باہم وہ متصادم رہے ۔ کیا میاں محمد نواز شریف کو ادراک ہے ؟ کیا ان کے وزیرِ داخلہ اوران کے حلیف معاملہ خود بگاڑ رہے ہیں یا ان کے ایما پر ؟ احتیاط، جنابِ والا احتیاط۔ ملک جمہوریت کی ناکامی کا متحمل نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved