ایک ٹی وی شو میں میزبان ماریہ میمن سے بات ہورہی تھی۔
میں نے کہا: ماریہ میں نے دو ہزار چودہ میں آپ کی امریکہ پر بنائی گئی ایک ڈاکومنٹری دیکھی تھی جو نیویارک میں فلمائی گئی تھی۔ اس ڈاکومنٹری میں اتنی جان تھی کہ مجھے چھ برس بعد بھی اچھی طرح وہ یاد ہے۔ اچھی چیزیں جلدی ذہن سے محو نہیں ہوتیں۔ ہم ایسے ہی شکایت کرتے ہیں کہ لوگ دیکھنا چھوڑ گئے ہیں یا کتابیں پڑھنا چھوڑ گئے ہیں۔ یہ کبھی نہیں ہوگا کیونکہ اچھی چیز دیکھنا اور اچھی چیز پڑھنا انسان کی جبلت میں ہے۔ ہاں اس کی شکلیں بدل سکتی ہیں، اس کا میڈیم بدل سکتا ہے، کاغذ کی جگہ فون سکرین لے سکتی ہے لیکن وہاں بھی تو آپ دیکھ یا پڑھ ہی رہے ہوتے ہیں۔ کچھ نہ کچھ آپ حاصل کررہے ہوتے ہیں۔ میں نے بات جاری رکھی: مجھے اس ڈاکومنٹری کا جو حصہ آج تک یاد ہے وہ نیویارک کے دریائے ہڈسن کے کناروں پر لئے گئے شاٹس اور انٹرویوز ہیں۔ کیا کمال کیا تھا آپ کے کیمرہ مین نے۔ ماریہ کہنے لگی کہ ان کا کیمرہ مین بہت اچھا اور آرٹسٹک تھا اور اس نے اس جگہ کی خوبصورتی کو سکرین پر اجاگر کر دیا تھا۔ آپ کو ایک بات بتائوں۔ امریکہ میں جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا‘ یہ تھی کہ وہاں بندہ جتنا بڑا ہے اور جتنا بھی وہ اوپر پہنچ گیا ہے‘ اس کے اندر اتنی ہی زیادہ انکساری اور عجز ہے۔ وہ اپنے کام خود کرے گا۔ وہ اپنے بارے میں گفتگو نہیں کرے گا۔ وہ آپ کو اپنے کارناموں سے متاثر کرنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ آپ کو کہیں سے نہیں لگے گا آپ کسی بڑے آدمی یا ارب پتی سے مل رہے ہیں۔
ماریہ نے مزید بتایا کہ وہ اپنی ڈاکومنٹری کے لیے ایک بہت اہم امریکی کے پاس گئیں تو انہیں حیرانی ہوئی جب وہ ان کے لیے خود کافی بنا کر لایا اور پیش کی۔ امریکی یا یورپی معاشرے کا یہ پہلو آپ کو ہمارے ہاں پاکستان میں نہیں ملتا۔ یہاں کسی کے پاس تھوڑا بہت آ جائے تو ساتھ ہی اس کی گردن میں سریا آ جاتا ہے۔ اس کی اکڑ ہی ختم نہیں ہوتی۔ اور پھر وہ اپنے سوا کسی کو انسان ماننے کو تیار نہیں ہوتا۔
میں نے کہا: شاید آپ کو یاد ہو‘ کچھ عرصہ پہلے ایک ویڈیو سامنے آئی تھی جس میں برطانیہ کے موجودہ وزیراعظم بورس جانسن اپنے گھر کے باہر گھنٹوں سے انتظار میں کھڑے رپورٹرز کے لیے خود کافی بنا کر لائے‘ انہیں پیش کی اور انہیں کہا کہ وہ اگرچہ ان سے کوئی آفیشل بات چیت نہیں کرسکتے لیکن کم از کم انہیں کافی تو پلائی جاسکتی ہے؛ اگرچہ بعد میں پتہ چلا کہ وہ ویڈیو ان کے وزیراعظم بننے سے کچھ عرصہ پہلے کی ہے۔ وہ پہلے کا واقعہ تھا یا بعد کا‘ اصل بات رویے کی ہے کہ ایک بندے کو احساس ہوا کہ گھنٹوں سے رپورٹرز اس کے گھر کے باہر کھڑے ہیں کہ وہ شاید ان سے کچھ بات چیت کر لیں تو ان کی خبر بن جائے‘ وہ بات چیت نہیں کرسکتا، ان کی خبر نہیں بنوا سکتا لیکن کم ازکم ان کو کافی تو بنا کر پیش کرسکتا ہے۔ اس لیے وہ عام سے کپڑوں میں کافی کے مگ اٹھائے آپ کو نظر آئے اور دو تین منٹ رپورٹروں سے گپ شپ بھی کرتے رہے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ ایسا پاکستان میں ہونا چاہیے یا کیوں نہیں ہوتا؟ یہ باتیں میں اب اپنے کالموں میں نہیں لکھتا‘ نہ ہی دہراتا ہوں۔ میرے بہت سے کالم نگار دوست پاکستان سے باہر جائیں گے تو واپسی پر درجن بھر کالم لکھیں گے کہ فلاں ملک میں یہ ہوتا ہے وہ ہوتا ہے ایسے ہوتا ہے ویسے ہوتا ہے‘ میں ایسا کچھ نہیں لکھتا یا لکھوں تو بہت کم لکھتا ہوں۔ جو مجھے اندازہ ہوا ہے‘ بیوروکریسی ہو‘ حکمران جماعت یا پھر عام لوگ انہیں ان کالموں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سب کو پتہ ہے کہ یہ ہمارے ہاں نہیں ہو سکتا۔ ہمارے ہاں جب بھی کچھ نیا ہوا‘ وہ باہر سے آئے لوگوں نے ہی کیا۔
مان لیا حملہ آوروں نے اس خطے کو بہت لوٹا اور تباہیاں مچائیں لیکن وہ اپنے ساتھ بہت ساری ترقی بھی لائے جو اس خطے کو آگے لے جانے میں مددگار ثابت ہوئی۔ اب بھی دیکھ لیں جو کچھ ہو رہا ہے وہ چین ہی کررہا ہے اور ہم بھی اس پر پوری طرح توکل کیے بیٹھے ہیں کہ جو کرنا ہے چین کرے گا‘ ہم نے بیٹھ کر روٹی کھانی ہے۔ اس سے پہلے ہم نے امریکہ پر تکیہ کیے رکھا اور پھر سعودی عرب نے ہمارا خرچہ اٹھایا۔ میں اکثر بیوروکریٹوں اور حکمرانوں سے پوچھتا ہوں کہ آپ لوگ بیرون ملک جاتے ہیں اور وہاں کی ترقی اور انتظام دیکھتے ہیں تو وہ سب کچھ اپنے ملک میں پیدا کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟
فی زمانہ کینیڈا پاکستانی سرکاری افسران سے بھرتا جارہا ہے۔ ہر دوسرے افسر نے کینیڈا کی شہریت لے رکھی ہے۔ یہ زیادہ تر سرکاری بابوز شامل ہیں۔ بچے باہر شفٹ کرکے یہاں حکومت کررہے ہیں اور یہاں سے کماکر وہاں بھیج رہے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کو بھی اس ملک پر اعتبار نہیں رہا۔ اعتبار ہوتا تو یہ لوگ اپنے ملک کو کینیڈا بنانے کی کوشش کرتے۔ یہ سب کام حکمران اور بابوز کرسکتے تھے۔ یہ ان کے بس میں تھا لیکن انہوں نے پاکستان کو لاعلاج سمجھا اور چھوڑ دیا۔ انہیں اپنا ملک درست کرنا یا کینیڈا کی طرح کرنا ناممکن لگا کہ کون اتنی محنت کرے۔ کیوں نہ ایک تیار شدہ ترقی یافتہ ملک میں جا کر آرام سے رہا جائے‘ چاہے اداسی اور اکیلا پن آپ کو مار ہی کیوں نہ دے۔ آپ نے اجنبی دیس اور اجنبی لوگوں میں رہنا پسند کر لیا لیکن جہاں آپ پیدا ہوئے، پلے بڑھے، بڑے ہوئے اور یاری دوستیاں سب کچھ پایا‘ اسے آپ نے بدلنے کی کوشش نہ کی۔ کوئی ایک بھی حکمران اور بیوروکریٹ نہ ملا جس نے کسی شہر کو بدلا ہو۔ سب نے کہا‘ جیسے ہے جہاں ہے کی بنیاد پر چلنے دو‘ ہم کیوں محنت یا کوشش کریں۔ یہاں سے پیسہ کمائیں اور باہر سیٹل ہو جائیں‘ یہ زیادہ آسان کام ہے۔
اب بڑے عرصے بعد فیس بک پر ایک آصف حسین صاحب کی ایک تصویر دیکھی تو دل خوش ہوا۔ اس تصویر کے مطابق سیالکوٹ کی ایک تحصیل ڈسکہ شہر کے ایک چوک میں رات کے وقت خوبصورت لائٹنگ کے درمیان چند بڑی کتابوں کے مجسمے بنا کر رکھے گئے ہیں اور اس کے ساتھ ایک باپ بیٹی کو دکھایا گیا ہے۔ اس خیال کا مقصد معاشرے میں کتاب اور تعلیم کو فروغ دینا ہے۔ رات کے وقت یہ سب کچھ بہت خوبصورت لگ رہا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ ڈسکہ کے شہری احمد فاروق ساہی نے اس سلسلے میں مدد کی ہے جبکہ ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔ خوشی اس بات کی ہوئی ہے کہ چلیں بیوروکریسی کو بھی احساس ہونا شروع ہوگیا ہے کہ ہمارے شہروں کے درمیان کس طرز کے چوک ہونے چاہئیں۔ ایسے جن سے لوگوں کو علم دوستی اور کلچر سے محبت کی ترغیب ملے۔ ہر جگہ شاہین، گھوڑے اور عقاب چوک ہیں لیکن آپ کو کوئی کتاب چوک نہیں ملتا جہاں ایک باپ اپنی بیٹی کو کتابوں سے روشناس کرارہا ہو۔ احمد فاروق ساہی کا خصوصی شکریہ کہ انہوں نے آصف حسین صاحب کے اس خیال کو عملی جامہ پہنانے میں اہم کردار ادا کیا اور جیب سے پیسہ خرچ کیا۔
یہ وہ کام تھے جو ہمارے کرنے کے تھے لیکن ہم نے قوم کو کسی اور کام پر لگا دیا۔ اپنے بچے ہم نے اعلیٰ سکولوں میں بھیج کر انہیں اعلیٰ نوکریاں دلوا دیں جبکہ غریبوں کے بچوں کو لا یعنی کاموں پر لگا دیا۔
یہ ہمارے معاشرے میں نئی شروعات ہے اور اس کے لیے ڈسکہ کے شہری اور افسران مبارکباد کے مستحق ہیں۔ بس ایک بات کا خطرہ ہے‘ چند دنوں بعد اس چوک میں اس باپ، بچے اور ان کتابوں کے مجسموں پر ہر قسم کے اشتہارات، پوسٹر، بینرز چسپاں ہوں گے‘ ہررنگ اور ہر زبان میں‘ جنہیں پڑھ کر ہم سب شرمندہ ہوں گے کیونکہ ترقی یا نئے خیالات ہمیں ہضم نہیں ہوتے۔ ہر صاف ستھرا آئیڈیا ہو یا پارک، چوک یا محلہ جب تک اسے گندگی سے خراب نہ کر لیں، ہمیں چین نہیں آتا۔