پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں ہنزہ کا خوبصورتی میں اپنا مقام ہے۔ یہاں کے باغات، برف پوش پہاڑیاں اور سرسبز چراگاہیں ہمارا دامنِ دل اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے حسن مجسم ہو کر رہ گیا ہے۔ یوں ہنزہ کا بنیادی تعارف ایک حسین اور دل کش خطے کا ہے۔ مجھے دو بار ہنزہ جانے کا اتفاق ہوا اور اس دوران مجھے معلوم ہوا کہ ہنزہ کا ایک اور تعارف بھی ہے۔ اور وہ ہے تعلیم۔ تعلیم کے حوالے سے ہنزہ میں کیے گئے اقدامات ایسے ہیں جو پاکستان کے دوسرے علاقوں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ ہنزہ میں مادی وسائل میں کمی کے باوجود لوگ اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کے لیے ساری کوششیں بروے کار لاتے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ہنزہ وادی میں خواندگی کی شرح 95 فیصد سے زیادہ ہے جبکہ پاکستان کی مجموعی شرح خواندگی 62.3 فیصد ہے۔ برطانوی راج کے دوران 1913ء میں یہاں پہلا پرائمری سکول شروع کیا گیا تھا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ہنزہ تعلیم کے میدان میں اتنی تیزی سے ترقی کرتے ہوئے ملک کے بہت سے علاقوں سے سبقت لے جائے گا۔ اس تیز تر سفر کا راز کیا ہے؟ اس کا ادراک مجھے یہاں کے لوگوں سے مل کر اور یہاں کی تاریخ پڑھ کر ہوا۔ تعلیم کے سفر کو مہمیز دینے میں بنیادی کردار آغا خان سوم کا ہے۔ سر سلطان محمد نے ریاست کے سرداروں کو قائل کیا کہ وہ تعلیم پر زیادہ سے زیادہ توجہ دیں کیونکہ تعلیم ہی ان کے روشن مستقبل کی ضامن ہے۔ قیامِ پاکستان سے ایک برس پہلے 1946ء میں سولہویں ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر ڈائمنڈ جوبلی سکولوں کا اجرا کیا گیا۔ ان سکولوں نے ہنزہ میں تعلیمی سفر کا رُخ متعین کر دیا۔ دوسرا بڑا اقدام حکومتِ پاکستان کا شمالی علاقہ جات کے ساتھ ساتھ ہنزہ میں سکولوں کا قیام تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی تعلیمی ضروریات میں اضافہ ہوتا گیا اور تعلیمی سہولیات کی کمی کا احساس ہونے لگا۔ پھر جوں جوں لوگوں کی سکولوں تک رسائی ہوتی گئی دو طرح کے مسائل سامنے آنے لگے۔ پہلا مسئلہ تعلیم کے معیار (Quality) کا تھا اور دوسرا لڑکیوں کی تعلیم کا۔
اس سلسلے میں ایک اہم اقدام ہنزہ میں لڑکیوں کے لیے معیاری سکولوں کا قیام تھا جہاں داخلے کی واحد بنیاد میرٹ تھا۔ لڑکیوں کے لیے ہوسٹل کی سہولت کے ساتھ کریم آباد میں آغا خان اکیڈمی کا قیام 1983ء میں عمل میں آیا جس کی بنیاد پرنس کریم آغا خان نے رکھی۔ اس موقع پر انہوں نے اپنی تقریر میں اُمید ظاہر کی کہ یہ اکیڈمی مستقبل میں ترقی کی نئی راہیں کھولے گی۔ لڑکیوں کے لیے اس اکیڈمی کا قیام بھی ہنزہ کے تعلیمی سفر کا اہم سنگِ میل ہے۔ اس تعلیمی سفر کا ایک اور اہم سنگِ میل کمیونٹی سکولوں کا قیام تھا۔ ان سکولوں نے کمیونٹی میں شراکت داری کے احساس کو اُجاگر کیا۔ ہنزہ کے ایک خوبصورت گاؤں گلمیت کے مقام پر 1991ء میں الامین ماڈل سکول کے نام پر ماڈل کمیونٹی سکول کا قیام عمل میں آیا۔ اس سکول کے قیام نے گھر اور سکول کے درمیان ٹوٹے ہوئے تعلق کو ازسرِ نو جوڑنے میں مدد دی۔ یہاں والدین اور خاندان کے بزرگوں کو نئی نسل سے اپنی دانائی اور حکمت کو شیئر کرنے کی دعوت دی گئی۔ خاندان کے بزرگوں کو یہ احساس دلایا گیاکہ ان کا علم متروک نہیں ہوا اور نئی نسل اب بھی ان کے تجزیے اور دانائی سے استفادہ کر سکتی ہے۔ اس کمیونٹی سکول کا آغاز نرسری کلاس سے ہوا۔ الامین سکول کی کامیابی آنے والے سالوں میں نئے کمیونٹی سکول کی کامیابی کی نقیب ثابت ہوئی۔ اس تعلیمی سفر کا ایک اور اہم سنگِ میل گلگت میں قراقرم یونیورسٹی کا قیام ہے جہاں طلباء کی کثیر تعداد تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ یونیورسٹی کا قیام اس لیے بھی اہم ہے کہ اس کے ذریعے مقامی لوگوں کو روزگار کے مواقع ملے۔
ایک اور عنصر جس نے ہنزہ میں کوالٹی ایجوکیشن میں اہم کردار ادا کیا وہ آغا خان کی مختلف تنظیمیں ہیں جن میں آغا خان فاؤنڈیشن، آغا خان ایجوکیشنل سروسز، پاکستان آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک اور آغا خان رورل سپورٹ پروگرام شامل ہیں۔ ان تنظیموں نے طلباء کے لیے وظائف کا اجراء کر کے سکولوں کی استعداد میں بہتری کے لیے مختلف اقدامات کیے۔ یہ بات اہم ہے کہ تعلیمی معیار میں بہتری کے لیے اساتذہ کا کردار بنیادی ہے۔ اس سلسلے میں اساتذہ کی تربیت کے لیے پروفیشنل ڈویلپمنٹ سینٹر نارتھ (PDCN) کا ادارہ گلگت میں قائم کیا گیا جہاں تربیتِ اساتذہ کے مختصر اور طویل دورانیے کے پروگرام منعقد کرائے جاتے ہیں۔ اساتذہ کے علاوہ سکولوں کے ہیڈ ماسٹرز اور پرنسپلز کے لیے بھی لیڈرشِپ اور مینجمنٹ کے کورسز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
ہنزہ میں تعلیمی سفر کی کامیابی میں سب سے بڑا ہاتھ مقامی لوگوں کی تعلیم کی اہمیت سے آگاہی کا تھا۔ یہاں کے لوگوں کو یقین ہے کہ تعلیم یافتہ ہونے کا مطلب زندگی میں زیادہ مواقع کا حصول ہے‘ لہٰذا تعلیم حاصل کرنا ان کے لیے ایک بنیادی ضرورت ہے۔ ہنزہ کے لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ وہ اپنے بچوں کے لیے جو بہترین کام کر سکتے ہیں‘ وہ حصولِ تعلیم میں ان کی مدد کرنا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہنزہ میں لڑکیوں میں تعلیم حاصل کرنے کا شوق بڑھ رہا ہے اور والدین اس شوق کی تکمیل کے لیے اپنی بیٹیوں کو گھروں سے دور بڑے شہروں مثلاً کراچی، لاہور، اسلام آباد میں تعلیم دلوا رہے ہیں کیونکہ ہنزہ کے لوگ سمجھتے ہیں کہ سب سے بڑی اور قیمتی سرمایہ کاری بچوں کی تعلیم ہے۔
ہنزہ میں تعلیمی سفر کی کامیابی کی ایک اور وجہ مختلف سٹیک ہولڈرز کا آپس میں گہرا ربط وتعلق ہے۔ مثلاً ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن، آغا خان کی تنظیمیں، مقامی آبادی اور بیرونی امدادی ایجنسیاں مل کر تعلیم کے شعبے میں بہتری کیلئے کام کر رہی ہیں۔ یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہے جب تعاون کی تہہ میں مقصد سے اخلاص کا جذبہ ہو۔
ایک طویل عرصے سے ہمیں پاکستان میں خواندگی کا چیلنج درپیش ہے۔ اس وقت اڑھائی کروڑ بچے سکول سے باہر ہیں۔ دوسرا بڑا چیلنج بچوں کی بڑی تعداد ہے جو آٹھویں جماعت تک پہنچنے سے پہلے ہی سکول چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں یوں پاکستان میں Dropout کی شرح انتہائی بلندہے۔ نتیجتاً یہ بچے بھی آؤٹ آف سکول بچوں میں شامل ہو جاتے ہیں اور معاشرے سے کٹ کر رہ جاتے ہیں۔ ہمارے نظامِ تعلیم کو ایک چیلنج معیار کا بھی ہے۔ تعلیمی جائزوں کے مطابق سکولوں میں زیرِ تعلیم بہت سے بچوں کی تعلیمی استعداد اس کلاس سے کم ہے جس میں وہ پڑھ رہے ہیں۔ پاکستانی نظامِ تعلیم کا ایک اور چیلنج وہ نصاب ہے جس کا دورِ حاضر کے تقاضوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اکیسویں صدی‘ جو علم کی صدی ہے‘ اور جس میں تعلیم کا مرکزی کردار ہوگا‘ اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم بحیثیتِ قوم اپنے وسائل اور اپنی توجہ کا رُخ تعلیم کے شعبے کی طرف موڑیں۔ اکیسویں صدی میں وہی قوم سربلند ہوگی جس کے افراد تعلیم یافتہ اور ان مہارتوں سے لیس ہوں جو اکیسویں صدی کا تقاضا ہیں۔ اس سلسلے میں پہلا کام ان اڑھائی کروڑ بچوں، جو وسائل کی کمی کی وجہ سے ہم سے بچھڑ کر رہ گئے ہیں، کو تعلیم کے مرکزی دھارے میں لانا ہے۔ اس کیلئے اہم بات تعلیم کے شعبے کیلئے بجٹ میں فوری اضافہ ہے۔ اس وقت ہم تعلیم کیلئے جی ڈی پی کا صرف 2 فیصد کے لگ بھگ مختص کر رہے ہیں۔ یہ شرح کم از کم 4 فیصد ہونی چاہیے۔ ہنزہ کے تعلیمی سفر کی کہانی پاکستان کے دیگر علاقوں کیلئے نشانِ راہ ہے کہ نوجوانوں کی اکثریت کو کیسے سرگرمِ عمل کیا جا سکتا ہے۔ کیسے کمیونٹی کو تعلیمی سفر کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔ کس طرح سیاسی قیادت عوام میں تعلیمی بیداری پیدا کر سکتی ہے اور کس طرح تعلیم کے میدان میں پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کے اشتراک سے ان چیلنجز کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔