امریکی صدارتی انتخابات نے قابل فہم وجوہ کی بنا پر پوری دنیا کی توجہ مبذول کروائی۔ امریکہ ایک عالمی طاقت ہے، اور یہ دنیا کے تمام خطوں میں سیاسی اور سلامتی کے مفادات کو برقرار رکھتی ہے۔ امسال، کچھ غیر معمولی پیشرفتوں کی وجہ سے ان انتخابات نے خاصی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی۔الیکشن سے متعلق سیاست کی پانچ خصوصیات قابل ذکر ہیں۔ پہلی، صدارتی انتخابات میں ووٹرز کا ٹرن آئوٹ اب تک کا سب سے زیادہ رہا۔ پہلے کی نسبت کہیں زیادہ ووٹرز نے ووٹنگ کے دن سے پہلے ہی ووٹ ڈال دئیے تھے یا ڈاک کے ذریعے اپنے ووٹ ارسال کر دئیے تھے۔ دوسری، اس سے پہلے کبھی کسی بھی امیدوار نے انتخابی عمل اور ووٹوں کی گنتی پر اتنے اعتراضات نہیں اٹھائے تھے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پولنگ کے دن سے پہلے ہی واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ اگر وہ نتائج سے مطمئن نہ ہوئے تو ان کو قبول نہیں کریں گے۔ سب سے بڑے اعتراضات جلد ووٹنگ شروع ہونے اور پوسٹل ووٹوں پر ہیں۔ تیسری، اندیشہ ہے کہ اس صدارتی الیکشن میں کسی بھی دوسرے صدارتی انتخابات کے مقابلے میں زیادہ عدالتی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا؛ تاہم توقع نہیں کہ امریکی عدالتیں ووٹنگ میں دھوکہ دہی کو ثابت کرنے کے لئے قابل اعتماد اور تجرباتی ثبوت فراہم کئے جانے تک ٹرمپ کے اعتراضات پر کوئی توجہ دیں گی۔ چوتھا، ٹرمپ کی صدارت کے چار سالوں کے دوران دائیں بازو کے زیادہ سخت گیر گروپ طویل عرصے کے بعد امریکی سیاست میں سرگرم ہو گئے ہیں۔ محض 'سفید فام بالا دستی‘ گروپ ہی نہیں، بلکہ بہت ساری نئی قسم کے گروپ بھی ابھرے ہیں اور امریکی سیاست میں اپنا کردار تلاش کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو گزشتہ ایک یا دو سالوں میں سامنے آئے ہیں، اور کووڈ 19 کے سماجی و معاشی اثرات، نسل و نسلی امور اور پولیس اصلاحات کے معاملات پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ بائیں بازو کے گروہ دائیں بازو کے گروہوں کا مقابلہ کرنے یا مختلف خطوط پر ایک ہی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کیلئے سرگرم عمل ہو چکے ہیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ بحالی گروپ کا سرگرم ہونا مستقبل میں امریکہ کی مقامی سیاست پر اثر ڈالے گا۔ پانچویں یہ کہ نتائج کے غیر سرکاری اعلان میں انتخاب ہارنے والے امیدوار نے اپنی شکست کو قبول نہیں کی اور اعلان کیا کہ وہ نتائج کو چیلنج کرے گا۔ ان صدارتی انتخابات کا ایک اہم سبق یہ ہے کہ امریکہ جیسے مستحکم جمہوری نظام کو بھی مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایسی مشکلات اور مسائل ہیں‘ ایشین اور افریقی ممالک کو بھی انتخابات میں جن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس سے جمہوری عمل کی نازک نوعیت کی نشاندہی ہوتی ہے؛ تاہم مستحکم جمہوریت کی روایت کے حامل شمالی امریکہ اور یورپ کے ممالک سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ترقی پذیر ممالک‘جہاں جمہوری روایات پوری طرح سے قائم نہیں ہیں‘ کے مقابلے میں ایسے دباؤ سے نمٹنے کی زیادہ صلاحیت رکھتے ہیں۔
یہ بات امریکہ سے باہر بہت سوں کے لئے حیرت کا باعث ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی ووٹنگ اور ووٹوں کی گنتی پر سنجیدہ سوالات اٹھاتے ہوئے ایشیائی اور افریقی ممالک کی لیڈرشپ کی طرح کا رویہ اختیار کیا۔ انہوں نے انتخابی دھوکہ دہی اور انتخابی عمل کے اپنے خلاف استعمال ہونے کی جوڑنے کی بات کی۔ انہوں نے ڈاک کے ذریعے آنے والے ووٹوں اور ابتدائی ووٹوں کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے جن کی وجہ سے کچھ ریاستوں میں گنتی میں تاخیر ہوئی۔ ابتدائی ووٹنگ اور پوسٹل ووٹوں پر ان کا اعتراض درست نہیں ہے کیونکہ قانون کے تحت دونوں کی اجازت ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک سپورٹر نے ایک ٹی وی کی براہ راست نشریات میں شکایت کی تھی کہ جب وہ اپنی بوڑھی والدہ کو پولنگ سٹیشن لے کر گیا تو اسے بتایا گیا کہ اس کی والدہ کا ووٹ پوسٹل بیلٹ کے ذریعے ڈالا جا چکا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹرمپ کے کچھ حامی سمجھتے ہیں کہ تمام پوسٹل ووٹ حقیقی نہیں تھے‘ بائیڈن کے حق میں ڈالے گئے پوسٹل ووٹوں میں سے کچھ جعلی ہیں۔ ٹرمپ کے منہ سے یہ بات سن کر بڑا تعجب ہوا کہ ان کے سیاسی حریف نے انتخابات چوری کر لئے ہیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے پاکستان میں حزب اختلاف کی جماعتیں فاتح پارٹی کے بارے میں یہ شکایت کر رہی ہوں کہ اس نے انتخابات چوری کر لئے ہیں۔ پاکستان میں، کوئی ایک بھی الیکشن ایسا نہیں ہوا جب اپوزیشن نے اپنی شکست قبول کر لی ہو۔ اب ہم ایسے ہی بیانات امریکہ میں بھی سن رہے ہیں۔ امریکہ میں انتخابات کے بعد اب دو طرح کے خدشات سر ابھار رہے ہیں۔ ایک یہ کہ ڈونلڈ ٹرمپ انتخابی عمل بالخصوص پوسٹل ووٹوں کے سلسلے میں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو ان کی کامیابی کے امکانات بہت کم ہوں گے‘ تاہم اس طرح کے مقدمات درج کروانے سے امریکہ میں انتخابی عمل کے بارے میں سوالات اٹھیں گے۔ دوسرا اہم سوال اقتدار کی منتقلی سے متعلق ہے۔ نیا صدر 20 جنوری 2021 کو اپنا اقتدار سنبھالے گا‘ تاہم، اس سے پہلے آنے والے اور سبکدوش ہونے والے صدور ملتے ہیں اور پھر ان کا عملہ معاملات کو نئی انتظامیہ کے حوالے کرنے کے سلسلے میں کام کرتا ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ اقتدار کی منتقلی کے اس عمل میں سبکدوش ہونے والی ٹرمپ انتظامیہ کس حد تک تعاون کرے گی؟
بلا شبہ انتخابات میں سخت مقابلہ ہوا ہے کیونکہ ان کے ووٹوں کے مابین فرق کم تھا۔ امریکہ سے باہر مفروضہ یہ تھا کہ جو بائیڈن کے لئے یہ ایک آسان جیت ہو گی کیونکہ ٹرمپ نے اپنی امیگریشن پابندیوں اور نسلی معاملات بارے بدانتظامی کے ذریعے ہسپانوی بولنے والی آبادی اور افریقی امریکیوں کو خود سے دور کر دیا تھا۔ ٹرمپ کو دیئے گئے ووٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنوبی اور وسطی امریکہ اور افریقی امریکیوں کی ایک بڑی تعداد نے انہیں ووٹ دیئے۔ مزید یہ کہ دیہی علاقوں میں مقیم انتہائی مذہبی مسیحیوں نے ان کو بڑی تعداد میں ووٹ دیئے۔ اس زمرے میں غیر سفید فام ووٹرز کی اچھی خاصی تعداد شامل ہے۔امریکہ کے حالیہ صدارتی انتخابات میں ماضی کے معاملات سے کہیں زیادہ تنازعات موجود تھے۔ اگر یہ تنازعات ایک وقتی معاملات ہیں تو امریکی جمہوریت کے مستقبل کیلئے سب سے اہم معاملہ کیا ہو سکتا ہے؟ کیا یہ تنازعات ٹرمپ کی شخصیت کا خاصہ ہیں اور ٹرمپ کے بعد کے دور ایسے معاملات نہیں ہوں گے؟ یا یہ امریکی صدارتی الیکشن کی سیاست کی ایک مستحکم خصوصیت بن جائیں گے؟
جوزف بائیڈن کے صدر منتخب ہونے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری میعاد کو محفوظ بنانے کی کوشش کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ ان چند صدور میں شامل ہو گئے ہیں جنہیں دوسری مدت نہیں مل سکی۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد کے دور میں مندرجہ ذیل صدور کو دوسری مدت نہیں ملی تھی: جارج ایچ ڈبلیو بش (سینئر بش)‘ جمی کارٹر‘ لنڈن جانسن‘جان کینیڈی‘ جیرالڈ فورڈ کا معاملہ دلچسپ ہے۔ وہ واحد امریکی صدر تھے جنہوں نے نائب صدر یا صدر منتخب ہوئے بغیر یہ منصب سنبھالا تھا۔ 1973 ء میں منتخب نائب صدر سپیرو اگنو کے استعفا دینے کے بعد انہیں صدر رچرڈ نکسن نے نائب صدر نامزد کیا تھا۔ اگست 1974 میں جب رچرڈ نکسن نے استعفیٰ دیا تو انہوں نے صدارت کا عہدہ سنبھالا تھا۔ انہوں نے 1976 میں ہونے والا صدارتی انتخاب لڑا تھا لیکن وہ جمی کارٹر سے ہار گئے تھے۔
صدر اور نائب صدر کی نئی ٹیم کو امریکی داخلی سیاق و سباق اور خارجہ پالیسی دونوں میں کئی مشکل چیلنجوں کا سامنا ہے۔ سب سے اہم مسئلہ امریکہ میں بڑھتے ہوئے سیاسی پولرائزیشن کے پیش نظر انتخابی عمل پر امریکی اعتماد کو بحال کرنا ہے۔ اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ انتخابات ہار گئے، لیکن انہوں نے 47 فیصد سے زیادہ مقبول ووٹ حاصل کرلئے اور ریپبلکن ایوان بالا یعنی سینیٹ پر غلبہ حاصل کرتے رہے۔ ان سے توقع کی جارہی ہے کہ وہ نئے صدر کو ٹف ٹائم دیں گے۔