حالیہ صدارتی انتخاب امریکہ کی تاریخ میں کئی حوالوں سے منفرد اور غیر معمولی تھا۔ جوبائیڈن امریکہ کے معمر ترین صدر ہوں گے(دس روز بعد 20نومبر کو 79سال کے ہو جائیں گے)مزید یہ کہ وہ امریکہ کے دوسرے کیتھولک صدر ہوں گے۔ اتوار کی صبح‘جب ان کی فتح یقینی ہو گئی تھی‘ وہ اپنے ہوم ٹاؤن کے چرچ میں تھے۔ جیت کے لیے 538الیکٹورل ووٹوں میں سے 270درکار تھے اور وہ 290ووٹوں کے ساتھ امریکہ کے 46ویں صدر منتخب ہو گئے۔ انہوں نے 76,343,332 پاپولر ووٹوں کے ساتھ صدارتی انتخابات کی تاریخ میں نیا ریکارڈ قائم کیا۔ ان کے حریف 74سالہ ڈونلڈ ٹرمپ نے 214الیکٹورل ووٹ اور71,444,567 پاپولر ووٹ حاصل کئے(ان کے یہ ووٹ گزشتہ صدارتی انتخاب میں حاصل کردہ ووٹوں سے زیادہ تھے )۔ اس بار امریکہ کے صدارتی انتخاب میں تاریخ کاسب سے زیادہ ٹرن آؤٹ رہا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ جمہوری عمل پر امریکیوں کا یقین کم نہیں ہوا۔ ٹرمپ دوسری جنگِ عظیم کی بعد تیسرے صدر ہیں جو دوسری ٹرم نہ جیت سکے‘اس سے پہلے یہ ''اعزاز‘‘ ڈیموکریٹ جمی کارٹر کو 1980میں اور ری پبلکن جارج بش(سینئر) کو 1992 میں حاصل ہوا تھا۔
حالیہ الیکشن کی ایک اہم تر بات 56سالہ کملا ہیریس کا نائب صدر منتخب ہونا ہے‘ پہلی خاتون جو اس منصب کی مستحق ٹھہریں۔ ایک اہم نکتہ ا ن کا ''بلیک‘‘ ہونا بھی ہے۔ ان کی والدہ شیاملا گوپالن ہیرس کا تعلق ہندوستانی ریاست تامل ناڈو سے تھا‘ وہ 1958میں امریکہ آئی تھی۔ کینسر کی محقق گوپالن شہری حقوق کی سر گرم کارکن بھی رہیں‘کملا کے والد ڈونلڈ جے ہیریس 1961میں جمیکا سے امریکہ آئے ۔ وہ سٹینفورڈ یونیورسٹی میں معاشیات کے پروفیسر ہیں ۔ کملا نے یونیورسٹی آف کیلے فورنیا سے قانون کی ڈگری حاصل کی ۔گزشتہ بار ہلیری کلنٹن‘ ڈونلڈ ٹرمپ کی حریف تھیں لیکن قسمت نے یاوری نہ کی اور وہ جیتتے جیتتے ہار گئیں۔ اب کملا خوش قسمت نکلیں۔ہمیں یہاں اپنا امریکہ کا سٹڈی ٹور یاد آیا۔ ایک ہم تھے او ر دوسرے مظفر محمد علی(مرحوم)۔ ''جمہوری معاشرے میں میڈیا کا کردار‘‘ اس کا موضوع تھا۔ اس ٹور میں ہمیں اٹلانٹک سے پیسیفک کے ساحل تک پانچ‘ چھ ریاستوں میں جانے کا اتفاق ہوا۔واشنگٹن سے آغاز ہوا‘اس کے بعد چل سو چل۔ نیو یارک‘ پنسلوینیا‘میسوری‘نیو میکسیکواور کیلے فورنیا۔ یونیورسٹیوں کے سکول آف ماس کمیونیکیشنز اور میڈیا ہائوسنز کے وزٹ کے علاوہHome Hospitalityبھی شیڈول کااہم نکتہ تھی‘ امریکن فیملیز کے ساتھ ڈنر یا لنچ جس میں میزبان‘ ایک دو اور فیملیز کو بھی مدعو کرلیتا۔ یہ عام امریکیوں کے رہن سہن کے مشاہدے اور باہم تبادلۂ خیال کا بہانہ ہوتا۔ ٹور کا پروگرام بنا تو ہمارے کوائف میں ہماری حساسیتیں (sensibilities)بھی شامل کی گئی تھیں۔ اس میں ''مسلم فوڈ‘‘ اہم ترین تھی‘ منکرات اورمکروہات سے پاک خور ونوش۔ یہ بات میزبانوں کے علم میں بھی ہوتی ۔ ان کی طرف سے اس کا پورا خیال رکھا جاتا۔ وہ جو شاعر نے کہاہے؎
خیالِ خاطرِ احباب چاہئے ہر دم
انیسؔ ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو
کھانے کی میز پر بے تکلف گفتگو میں‘ ہمیں اندازہ ہوتا کہ عام امریکیوں کی بڑی تعداد پاکستان کے حقائق سے لاعلم تھی۔(ویسے خود اپنے ملک کے حوالے سے بھی ان کی معلومات بہت زیادہ نہ تھیں۔ ان کی بیشتر دلچسپی‘ اپنے شہر اور اپنی ریاست کے حالات وواقعات کے حوالے سے ہوتیں)۔ اُن کے خیال میں پاکستان کی Male dominatedسوسائٹی میں عورتوں کی حیثیت دوسرے درجے کے شہری کی تھی‘ جن کا کام بچوں کی پیدائش‘ ان کی پرورش‘ خاوند کی خدمت اور ساس سسر کی اطاعت وفرماں برداری تھا۔ہماری باری آتی تو ہم امریکہ کے جمہوری نظام‘ یہاں انسانی مساوات اور قانون کی حکمرانی کے ذکر میں مبالغے سے کام لینے کو بھی روا سمجھتے پھر انجان بن کر سوال کرتے کہ امریکی تاریخ میں کوئی خاتون‘کبھی صدر کے منصب تک پہنچی؟ ظاہر ہے جواب نفی میں ہوتا۔ ''نائب صدر‘‘؟ یہاں بھی وہی ''NO‘‘ ۔ تب ہم انہیں بتاتے کہ پاکستان سمیت جن ملکوں کو آپ پسماندہ سمجھتے ہیں‘ وہاں حقائق کیا ہیں۔
یہ پاکستان میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری وزارتِ عظمیٰ کا دور تھا۔ بنگلہ دیش میں خالدہ ضیا وزیر اعظم تھیں۔ ترکی کو تب یورپ کا ''مردِ بیمار‘‘ کہا جاتا تھا اور وہاں مادام تانسوچیلر اس منصب پر فائز تھیں۔ ہمارے امریکی میزبانوں کا دھیان کبھی ادھر نہیں گیا تھا۔ اب کملاہیریس نائب صدر بنی ہیں‘تو امریکی کہہ سکتے ہیں کہ ان کے ہاں بھی ایک خاتون نائب صدر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے 79سالہ بائیڈن کو عمردراز عطا فرمائے اور وہ اپنی ٹرم بخیروخوبی گزارلیں۔ خدانخواستہ کسی انہونی کی صورت میں کملا وائٹ ہائوس میں باقی ماندہ مدت کے لیے ان کی جانشین ہوسکتی ہیں‘ اگلے صدارتی انتخاب تک بائیڈن 83سال کے ہوچکے ہوں گے۔ کیا وہ اس ارزل عمر میں بھی اگلے چار سال کے لیے صدارتی امید وار ہوں گے؟ یہ امکان نہ ہونے کے برابر لگتا ہے۔ اس صورت میں کیا کملا ڈیموکریٹس کی صدارتی امید وار ہوں گی اور اگر وہ ہیلری کی طرح بدقسمت نہ ہوئیں تو امریکہ کی صدارتی تاریخ کا نیا عنوان بنیں گی؟
ٹرمپ جتنی بھی ضد کرلیں‘ بچوں کی طرح پائوں زمین پر رگڑیں‘ انہیں 20جنوری 2021ء کو وائٹ ہائوس سے رخصت ہوجانا ہے۔منہ پھٹ‘ بڑبولا‘ پھڈے باز‘ اَنا پرست‘ متکبر‘ متعصب اور ناقابلِ اعتبار‘ ان سب الفاظ کو مخالفین اور ناقدین ٹرمپ کے لیے روا رکھتے۔ پاکستان اور وزیر اعظم پاکستان کے ساتھ ٹرمپ کے معاملات ایک دلچسپ موضوع ہے۔ عمران خان وزیر ا عظم بنے تو ٹرمپ نے مبارکباد کے پیغام میں یہ ''یاددہانی‘‘ بھی ضروری سمجھی کہ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو اربوں ڈالر ڈیئے لیکن نتائج توقع کے مطابق نہیں نکلے۔ وزیر اعظم پاکستان نے جوابی ٹویٹ میں شکریے کے ساتھ وہ جانی ومالی قربانیاں گنوا دیں جو پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دی تھیں۔ ایک ماہ بعد(ستمبر میں) یواین جنرل اسمبلی کا اجلاس تھا۔پاکستان سے صدر مملکت یا وزیر اعظم اس اجلاس میں ملک کی نمائندگی کرتے رہے ہیں۔ عمرا ن خان سے اس اجلاس میں شرکت کا پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا‘ ٹرمپ خاصے Unpredictableہیں‘ ان سے کوئی بھی حرکت غیر متوقع نہیں‘ جواب میں مجھ سے بھی نہ رہا گیا تو بات بڑھ جائے گی؛ چنانچہ اس اجلا س میں شرکت کے لیے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو بھیج دیا گیا۔ Unpredictableٹرمپ کی طرف سے دسمبر 2019میں وزیر اعظم پاکستان کے لیے دورۂ امریکہ کی دعوت آگئی‘ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان جس سے لاعلمی کا اظہار کررہی تھیں۔ وائٹ ہائوس میں ملاقات کے بعد میڈیا بریفنگ میں ایک پاکستانی اخبار نویس کے سوال پر کہ کیا آپ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ثالثی یا مصالحت (Moderation)کا کردار ادا کریں گے؟ صدر ٹرمپ کا جواب تھا: مجھے خوشی ہوگی اگر میں یہ کردار ادا کرسکوں‘ مزید فرمایا کہ وزیر اعظم مودی نے بھی دوہفتے قبل اوساکا کی ملاقات میں مجھ سے اسی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ مودی نے ٹرمپ کے اس دعوے کی تردید کردی۔ وزیر اعظم عمران خان اسے اپنی عظیم فتح قرار دے رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا: یوں لگتا ہے کہ میں ایک اور ورلڈ کپ جیت کر آیا ہوں۔
وزیر اعظم عمران خان کو جانے کیا سوجھی کہ چند روز قبل (جب ٹرمپ کی شکست کے آثار ہویداتھے) جر من جریدے سے انٹرویو میں خود کو ٹرمپ کے مماثل قرار دے دیا کہ ٹرمپ کی طرح وہ بھی'' غیر روایتی سیاستدان ہیں‘‘...سراج الحق اور احسن اقبال نے یہ بات پکڑ لی۔ ان کا کہنا تھا‘ ٹرمپ Iچلا گیا‘ اب ٹرمپIIکی باری ہے۔