تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     11-11-2020

گلگت بلتستان

ناران سے ہوتے ہوئے گلگت بلتستان میں داخل ہوں یا دیامیر سے گزرتے ہوئے یہاں آئیں‘ گلگت شہرکی طرف جاتے ہوئے جگلوٹ سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں دنیاکے تین عظیم پہاڑی سلسلے آکر مل جاتے ہیں۔ہندوکش‘ قراقرم اور ہمالیہ کا یہ ملاپ ایشیا بھر میں ایسا نادر منظر ہے کہ محض اسے دیکھنے کے لیے یہاں تک سفر جائز لگتاہے۔ اس مقام سے گلگت بلتستان میں کسی بھی طرف سفر کرنا ہے تو مسافر تین سلسلہ ہائے کوہ میں سے کسی دو کے درمیان سے ہوتا ہوا گزرے گا۔ اگر شاہراہ قراقرم پر ہی سفر جاری ہے تو پھر یہ ہندوکش اور ہمالیہ کے بیچ سے گزرتی آخرکار سلسلہ قراقرم میں داخل ہوجاتی ہے اور چین کو پاکستان سے جوڑ دیتی ہے۔ جگلوٹ سے ہی دریائے سندھ کو اپنے دائیں ہاتھ رکھ کر چلتے جائیں تو شاہراہ قراقرم سے نکلتی ہوئی ایک سڑک سکردو یعنی بلتستان کی طرف چلنے لگتی ہے۔ گویا تین پہاڑی سلسلوں کا نقطۂ اتصال دراصل دیامر‘ گلگت اور بلتستان کو الگ بھی کرتا ہے۔ یہیں سے شینا زبان کا ایک نیا لہجہ پیدا ہوتا ہے جو ہنزہ تک جاکر بروشسکی جیسی بالکل مختلف زبان میں ڈھل جاتا ہے۔ بلتستان میں داخل ہوتے ہی بلتی زبان سے واسطہ پڑتا ہے ۔ کہیں پہاڑوں سے گرتے نالوں کے ساتھ ساتھ بسے گاؤں میں واخی زبان بولی جاتی ہے تو کہیں کوئی اوربولی اظہار کا پیرایہ بن جاتی ہے۔ بہتر ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلے گلگت بلتستان میں وادی بہ وادی زبانیں ہی الگ نہیں نسلیں اور مسلک بھی جدا جدا ہیں۔ مختلف زبانوں کا مسئلہ اردو نے حل کردیا ہے کہ ایک وادی کا شخص دوسری وادی کے باسی کو اردو میں حال دل کہہ سناتا ہے۔ نسلی تفاخر کا احساس پہلے تینوں وادیوں میں تھا اب سمٹتا ہوا بس گاؤں دیہات میں رہ گیا ہے ۔ مسلکی اختلاف پہلے بھڑکتا رہا‘ پھر سلگتا رہا اب لگتا ہے بجھ ہی جائے گا۔ یہ سب اختلافات ایسے ہیں کہ ملک بھر میں کہیں نہ کہیں سر اٹھاتے رہتے ہیں ۔گلگت بلتستان میں جیسے تین پہاڑمل جاتے ہیں بالکل اسی طرح یہ سارے اختلاف یا تضاد پاکستان کا نام آتے ہی اپنا وجود کھو بیٹھتے ہیں۔ نسل‘ مسلک‘ زبان کوئی بھی ہو‘ پاکستان سے محبت غیر مشروط اور کوئی ہم سا ملے توہلکی سی کڑواہٹ کے ساتھ یہ شکوہ بھی کہ ''اب تک ہمیں پورا پاکستانی کیوں نہیں سمجھا گیا‘‘؟ اس شکوے کے جواب میں کسی بھی پاکستانی کے پاس سرجھکالینے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ کوئی اپنے حکمرانوں کی تاریخی نالائقیوں کی وضاحت کہاں تک پیش کرے! 
آج کل تو لفظ ''نالائق‘‘ جیسے ہی کان میں پڑے‘ ذہن میں تحریک انصاف کی حکومت کی تصویر بن جاتی ہے لیکن گلگت بلتستان کے الجھے ہوئے مسئلے کے پیچھے بھی ایک نالائقیوں کی ایک داستان ہے۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ پاکستان بننے کے بعد گلگت بلتستان کے لوگوں نے کشمیر سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔اس علاقے میں تعینات ایک انگریز فوجی افسر میجر براؤن نے گلگت سکاؤٹس جیسی نیم فوجی تنظیم کے بل پر ڈوگرہ حکومت ختم کرکے پشاور میں صوبائی حکومت کو پیغام بھیجا کہ گلگت کو پاکستان کے ساتھ ملا لیا جائے۔ پیغام ملنے کے چند دن بعد ہی ڈپٹی کمشنرسطح کے ایک افسر کو یہاں بھیجا گیا۔ اس دوران ایک عبوری حکومت بھی بن چکی تھی یعنی اس علاقے پر کسی بھی خارجی قوت کی مدد کے بغیر مہاراجہ کشمیر کا عمل دخل ختم کیا جاچکا تھا۔ گلگت میں ہونے والی بغاوت کشمیر میں قبائلی مجاہدین کی مہم یا پاک بھارت جنگ سے بالکل غیر متعلق تھی۔ گلگت کی پاکستان میں شمولیت بالکل اسی اصول کے مطابق تھی جس کے تحت مختلف صوبے اس وفاق میں شامل ہوئے تھے۔ لیکن ہماری ازلی نالائقی کہ ہم نے اسے نہ صرف کشمیر کا حصہ سمجھا بلکہ اقوام متحدہ میں اس کی یہی حیثیت مان بھی لی۔ جب یہ مہلک غلطی ہو گئی تو پھر لکیر پیٹتے ہوئے ایک معاہدہ آزاد کشمیر کی عبوری حکومت سے کیاگیا جس پر پاکستان کی طرف سے مشتاق احمد گورمانی انچارج وزیر برائے امور کشمیر کے دستخط ہوئے ۔ اس معاہدے کے تحت آزاد کشمیر کی حکومت نے گلگت بلتستان کے علاقے مکمل طور پر پاکستان کے حوالے کردیے۔ اس معاہدے کو معاہدۂ کراچی کہتے ہیں‘ جو کافی دیر خفیہ رہنے کے بعد 1990ء میں سامنے آیا۔ اس معاہدے کے بعد پاکستان نے گلگت بلتستان کو آزاد قبائلی علاقہ جات کی طرح کنٹرول کرنا شروع کردیا۔ 
معاہدۂ کراچی کے بعدچین کی مدد سے جب شاہراہ قراقرم بنی اور یہاں کے لوگوں کی رسائی پاکستان کے دیگر علاقوں تک ہونے لگی تو پھر وہ زخم ہرے ہوگئے جو ہمارے بزرگوں کی نالائقی سے ان کے دلوں پر لگے تھے۔ ان زخموں پر مرہم ذوالفقار علی بھٹو نے رکھا۔ڈوگرہ راج کی یادگار راجہ شاہی کاظلم ختم کیا۔ یہاں ٹیلیفون لگانے کے لیے انتظامات کیے۔ ان کے دور میں پہلے اس علاقے میں شمالی علاقہ جات کی ایڈوائزری کونسل بنی‘ پھر اس کے انتخابات ہوئے اور 2009 ء میں اسے پاکستان پیپلزپارٹی نے ہی نیم صوبائی درجہ دے دیا ۔بظاہر اس علاقے میں اصلاحات کا عمل جاری ہے اور کسی نہ کسی شکل میں الیکشن بھی ہوتے رہے ہیں لیکن یہاں کا اصل اختیار ہمیشہ وزارتِ امورِ کشمیر و گلگت بلتستان کے ایک جوائنٹ سیکرٹری کے پاس ہی رہا ہے۔ اس وزارت میں بیٹھے ہوئے لوگ شاہانہ انداز میں اس علاقے میں اپنے فیصلے نافذ کرتے ہیں‘ جس کا خمیازہ لوگوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ گلگت بلتستان کے لوگ تو کچھ ایسی کہانیاں سناتے ہیں جنہیں سن کر اس وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان سے گھن آتی ہے۔ مجھے ایک سرکاری کالج کے استاد نے بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے گلگت کے سرکاری اساتذہ کی مستقلی کا مسئلہ تھا جس کے لیے گلگت بلتستان کی حکومت کو اس وزارت کے ایک افسر کی اجازت درکار تھی۔ اساتذہ نے فیصلہ کیا کہ وہ خود اسلام آباد رابطہ کرکے اس مسئلے کو حل کرلیں گے۔ جب اساتذہ کے نمائندوں کو وزارت میں رسائی ملی تو وہیں موجود ایک شخص نے ان سے کام کرانے کے لیے مخصوص رقم طلب کی اور کہا ''پیسے لے آؤ شام تک کام ہوجائے گاــ‘‘۔ یہ سن کر اساتذہ کے نمائندے اپنا سا منہ لے کر گلگت لوٹ آئے۔ بعد میں یہ معاملہ وزیراعظم کی مداخلت سے حل ہوا۔ 
2015 ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے سرتاج عزیز کی سربراہی میں کمیٹی بنائی تھی جس نے طویل غورو خوض کے بعد اپنی رپورٹ میں گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کی تجویز دی تھی۔ یعنی دستور میں ترمیم کرکے یہ گنجائش پیدا کی جائے کہ مسئلہ کشمیر کے حل تک اس علاقے کو وہ تمام اختیارات حاصل ہوں گے جو پاکستان کے دیگر صوبوں کوملتے ہیں۔ یہ تجویز بڑی حد تک مقامی لوگوں کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہے لیکن اس میں خامی یہ ہے کہ اس کے مطابق سینیٹ میں گلگت بلتستان کی نمائندگی دیگر صوبوں سے کم ہوگی یعنی عبوری طور پر بھی یہاں کے لوگوں کو مکمل پاکستانی کی حیثیت نہیں ملے گی۔ اگر ایسا کیا جاتا ہے تو یہ پرانی غلطیوں کو دہرانے کے سوا کچھ نہیں۔ مان لیا کہ ہم بہتر سال پہلے کی غلطی کی وجہ سے عبوری صوبے سے آگے نہیں بڑھ سکتے لیکن سوال یہ ہے کہ جب لفظ 'عبوری‘ دستور میں شامل کرلیا جائے گا تو پھر اس کے تحت سینیٹ میں دوسرے صوبوں کے برابر حیثیت عبوری طور پر کیوں نہیں دی جاسکتی؟ آج کی تاریخ میں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ مسئلہ کشمیر کب اور کیسے حل ہوگا‘لیکن یہ طے ہے کہ گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ ہے‘ اس لیے یہاں کے لوگوں کو وہ مکمل حقوق ملنے چاہئیں جو لاہور‘ کراچی‘ پشاور اور کوئٹہ کے لوگوں کو حاصل ہیں۔ کوئی بھی ادھورا کام نہ صرف اس علاقے میں بے چینی بڑھا دے گا بلکہ سی پیک پر بھی منفی اثرات ڈالے گا۔ جو بھی کرنا ہے یہ سوچ کرکرنا ہے کہ جیسے تین پہاڑی سلسلے جگلوٹ میں اکٹھے ہوتے ہیں تو الگ بھی وہیں سے ہوتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا کہ پاکستان اپنے حصے کی غلطیاں کرچکا ہے۔ ہمیں نئی غلطیوں سے بچنا ہی چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved