اپوزیشن اپنے دور میں کام کم‘ ڈھول زیادہ پیٹتی تھی: فردوس
وزیراعلیٰ پنجاب کی معاونِ خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن اپنے دور میں کام کم، ڈھول زیادہ پیٹتی تھی‘‘ جبکہ ہمارے ڈھول کا تو پول ویسے ہی کھل گیا ہے۔ اس لیے ہم صرف چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ اگرچہ اس کا نتیجہ کچھ اچھا نہیں نکلنالیکن پہلے ہمارے کون سے کام کا نتیجہ اچھا نکل رہا ہے جو ہم اس کے لیے پریشان ہوں، ویسے ہم نے کسی اچھے سے ڈھول کا آرڈر بھی دے رکھا ہے جو ہم دور سے ہی بجایا کریں گے کیونکہ سن رکھا ہے کہ دُور کے ڈھول ہی سہانے ہوتے ہیں، نہ صرف یہ بلکہ اسے بجانا بھی سیکھنا پڑے گا اور سنا ہے کہ ڈھول تیار کرنے والے ایک ڈھول کی خریداری پر ایک ڈھولکی مفت دیتے ہیں جسے بونس ہی سمجھنا چاہیے۔ آپ اگلے روز لاہور میں افسروں کے اجلاس سے خطاب کر رہی تھیں۔
لٹیروں کا ٹولہ پی ڈی ایم بن کر آ گیا
عوام جھانسے میں نہیں آئیں گے: بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''لٹیروں کا ٹولہ پی ڈی ایم بن کر آ گیا، عوام جھانسے میں نہیں آئیں گے‘‘ کیونکہ وہ روز روز جھانسے میں نہیں آتے اور ابھی وہ ہمارے دام ہی سے باہر نہیں نکل سکے جبکہ ہم انہیں اپنے دام میں لا کر خود پچھتا رہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ہمارا جال کافی کمزور تھا جسے دوبارہ فعال کرنے کی ضرورت ہے اور چونکہ عوام اب کافی سبق حاصل کر چکے ہیں اس لیے اپوزیشن خاطر جمع رکھے، عوام ان کے جھانسے میں کبھی نہیں آئیں گے، ان کا جھانسہ بیشک کتنا بھی مضبوط اور کارگر کیوں نہ ہو۔ وہ بھلے اپنی سی کوشش کر کے دیکھ لے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک خصوصی اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
مہنگائی برداشت نہیں، گندم کا بحران ختم ہونا چاہیے: عمران
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ''مزید مہنگائی برداشت نہیں، گندم کا بحران ختم ہونا چاہیے‘‘ کیونکہ ہمارے لیے موجودہ مہنگائی ہی قابل برداشت تھی اس لیے یہ مہنگائی اگر برقرار رہے تو کوئی مضائقہ نہیں، اس سے بڑھنی نہیں چاہیے کیونکہ ہمیں اپنے عوام کی فکر ہر طرح سے ہے، اس لیے وہ اس مہنگائی پر گزارا کریں جبکہ گھبرانے کے بارے میں عوام سے کچھ نہیں کہیں گے کیونکہ اب حکومت نے خود گھبرانا شروع کر دیا ہے۔ خلافِ توقع جس کا نتیجہ اچھا نکلنے کی امید ہے کیونکہ ہمارا یہی کارنامہ کیا کم ہے کہ ہم نے مہنگائی کو وہیں بریک لگا دی ہے، اسی لیے اب دوسری بریکیں کام نہیں کر رہیں اور ہم چاہتے ہوئے بھی کہیں رُکتے نظر نہیں آ رہے۔ آپ اگلے روز کابینہ کے ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
انکوائری رپورٹ ‘ہمارے مؤقف کی حمایت : احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور نواز لیگ کے مرکزی رہنما چوہدری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''انکوائری رپورٹ ہمارے مؤقف کی حمایت کرتی ہے‘‘ اگرچہ بڑے میاں صاحب نے اس کی مذمت کی ہے لیکن کافی عرصے سے وہ جس حالت میں ہیں‘ ان سے یہی امید کی جا رہی تھی بلکہ ان کا بیانیہ جس ابتری کا شکار ہو گیا ہے‘ وہ اپنی جگہ پر ایک عبرتناک داستان کی حیثیت رکھتا ہے۔آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
ایسی حکومت سے موت اچھی جس کے بدلے ذلت ملے: مریم
مستقل نا اہل، سزا یافتہ اور اشتہاری سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''ایسی حکومت سے موت اچھی جس کے بدلے ذلت ملے‘‘ لہٰذا اب اس سے زیادہ شرمندگی اور کیا ہو سکتی ہے کہ والد صاحب ایک اور مقدمے میں بھی اشتہاری ہو گئے ہیں اور اس میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ،اوپر سے بیانیے کی ایسی دُرگت بنی ہے کہ جو چھوڑ گئے ہیں‘ وہ تو اپنی جگہ رہے، باقی بھی زیادہ تر نے اُکتاہٹ کا اظہار شروع کر دیا ہے اور ہمارے سارے خواب چکنا چور ہو کر رہ گئے ہیں اور اب لوگوں نے باقاعدہ مذاق بھی اڑانا شروع کر دیا ہے۔ آپ اگلے روز استور میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کر رہی تھیں۔
سب رنگ کہانیاں
یہ سمندر پار شاہکار افسانوں کا مجموعہ ہے جسے بجا طور پر شکیل عادل زادہ کا نگارخانہ قرار دیا گیا ہے، اسے حسن رضا گوندل نے ترتیب دیا ہے اور بک کارنر جہلم نے چھاپا ہے جو کہ مشہور زمانہ جریدے سب رنگ ڈائجسٹ میں شائع ہونے والی کہانیوں کا انتخاب ہے۔ انتساب آشفتگانِ سب رنگ کے نام ہے۔ آغاز میں ممتاز شاعر گلزار کی نظم کا یہ ٹکڑا درج ہے:
شکیل عادل زادہ
ہمارے ملّاح ہیں
ہمارے ناخدا ہیں
ہمارا سفینۂ ادب ان کے حوالے
یہ ادب سمندر ہے اور ڈوب کے جانا ہے
پسِ سرورق عطا الحق قاسمی، حامد میر اور اندرونِ سرورق شاہد صدیقی، رضا علی عابدی اور عامر ہاشم خاکوانی کی تحسینی آرا سے مزین ہے۔ آغاز میں سب رنگ تماشا کے عنوان سے شکیل عادل زادہ کا پیش لفظ ہے۔ اس کتاب کے بارے میں اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ یہ مغربی تخلیق کاروں کے شاہکار افسانوں کے تراجم پر مشتمل ہے جبکہ مترجم افراد بھی ہمارے جانے پہچانے ہیں۔ 30 افسانوں اور 368 صفحات پر مشتمل یہ کتاب اپنی جگہ پر قارئین کے لیے ایک تحفہ ہے۔
اور‘ اب آخر میں حبیب احمد کی شاعری:
شور ہے گیت جو لَے سے نہ ہم آہنگ رہے
تودۂ خاک ہے تن، روح نہ گر سنگ رہے
یہ الگ بات کہ وہ اگلے نہیں ڈھنگ رہے
کیسے ممکن ہے محبت نہ رہے جھنگ رہے
تپشِ خواب کہیں نیند کو ہی چاٹ نہ لے
دیر تک دھوپ میں کب شوخ کوئی رنگ رہے
ہونٹ آزاد سہی، بات ابھی قید میں ہے
اور کب تک ابھی معلوم نہیں جنگ رہے
جانے کب تک ہمیں لُوٹے گا فریبِ ناموس
کب تلک جہل رہے، بھُوک رہے، ننگ رہے
ہاتھ میں ہاتھ لیے پھرتے تھے سب لوگ یہاں
جب تک عُرس رہے، میلے رہے، سنگ رہے
رزق اتنا جو کشادہ نہیں ہوتا تھا تو کیا
ذہن و دل ایسے کبھی پہلے کہاں تنگ رہے
ننگ و ناموس کا کب سوچتی ہے دل کی لگی
کیا ہے مجذوب کو، پردہ رہے یا ننگ رہے
ایسی ارزانیٔ حیرت ہے کہ پوچھیں نہ حبیبؔ
معجزہ دیکھ کے بھی لوگ نہیں دنگ رہے
آج کا مقطع
ظفرؔ مرے خواب وقتِ آخر بھی تازہ دم تھے
یہ لگ رہا تھا کہ میں جوانی میں جا رہا تھا