امام فخر الدین رازی فرماتے ہیں: علامہ حلیمی نے اپنی کتاب' 'المنہاج‘‘ میں ذکر کیا ہے: انبیائے کرام علیھم السلام کا عام انسانوں سے جسمانی اور روحانی قوتوں میں ممتازہونا ضروری ہے۔ قوتِ جسمانیہ دوہیں:قوت مدرکہ اور قوتِ محرکہ، پھرقوتِ مدرکہ کی دو قسمیں ہیں:ایک وہ جس کا تعلق ظاہری حواس کے ساتھ ہے اور دوسری وہ جوباطنی حواس سے تعلق رکھتی ہے، ظاہری حواس کی پانچ اقسام ہیں:قوتِ باصرہ، سامعہ، لامسہ، ذائقہ اور شامّہ۔ انبیائے کرام ان تمام قوتوں کے اعتبار سے باقی تمام انسانوں سے ممتاز ہوتے ہیں‘‘ (تفسیر کبیر، ج:8، ص:199)، امام رازی کی اس عبارت کو شیخ بدر عالم میرٹھی نے بھی نقل کیا ہے۔ (ترجمان السنۃ، ج:3، ص: 242)۔
انبیائے کرام علیھم السلام کی قوتِ باصرہ کا امتیاز یہ ہے کہ عالَم اعلیٰ و اسفل اور مشارق ومغارب اُن کی نگاہوں کے سامنے ہوتے ہیں۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں: ''نبوت کی ایک خصوصیت یہ ہے، نبی کی بصارت اتنی روشن اور قوی ہوتی ہے کہ وہ زمین کے ایک حصے سے دوسرے حصے کی چیزوں کو دیکھتا ہے‘‘ (فتح الباری، ج: 12، ص:366)۔اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کے متعلق فرمایا:''اور اِسی طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمینوں کی نشانیاں دکھاتے تھے کہ وہ عین الیقین والوں میں سے ہوجائیں‘‘ (الانعام: 75)۔اس کے تحت مفسرین نے لکھا ہے : اللہ تعالیٰ نے حضرت ابرہیم علیہ السلام کی بصارت کو اتنا قوی فرمادیا تھا کہ اُنہوں نے عوالمِعُلْوِیَّہ وسفلیہ میں تمام نشانیاں دیکھ لیں۔
نبی کریمﷺنے فرمایا:''اللہ تعالیٰ نے میرے لیے تمام روئے زمین کو سمیٹ دیا، پس میں نے اُس کے تمام مشارق ومغارب کو دیکھ لیا‘‘ (مسلم:2889)، نیز آپﷺ نے فرمایا: ''میں نے ان تمام چیزوں کو جان لیا جو آسمانوں اور زمینوں میں ہیں‘‘ (ترمذی: 3233)۔ نبی کریمﷺ اپنی پیٹھ کے پیچھے سے اسی طرح دیکھتے تھے جس طرح اپنے سامنے دیکھتے تھے، چنانچہ آپﷺنے فرمایا:اللہ کی قسم !میں اپنے پسِ پشت بھی اسی طرح دیکھتا ہوں جس طرح میں اپنے سامنے دیکھتا ہوں۔ (مسلم: 426) نبی کریمﷺاپنے پیچھے کھڑے نمازیوں کے ظاہری احوال اور قلبی کیفیات کو بھی جانتے تھے، آپﷺ نے فرمایا:''اللہ کی قسم!مجھ پر نہ تو تمہارا خشوع پوشیدہ ہے اور نہ تمہارا رکوع، بیشک میں تمہیں اپنی پشت کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں‘‘ (بخاری: 418)، یعنی تمہارا ظاہر اور باطن میرے سامنے عیاں اور بیاں ہے۔
شیخ بدر عالم میرٹھی لکھتے ہیں:''اپنے سامنے کی چیز دیکھ لینا تو ہر انسان کا خاصہ ہے، لیکن رسول وہ ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ سامنے اور پیچھے دیکھنے کی یکساں طاقت عنایت فرمادیتا ہے، اگر آنکھ میں اپنے سامنے دیکھنے کی طاقت عام طور پر نہ ہوتی تو کیا کوئی انسان صرف عقلِ سلیم سے یہ حکم لگاسکتا تھا کہ اس عضو میں دیکھنے کی طاقت ہونی چاہیے تھی۔ پس جس نے آنکھ میں صرف سامنے کی سَمت دیکھنے کی طاقت عام طور پر رکھ دی ہے، کیا اس کو قدرت نہیں کہ وہ کسی کے حق میں مخالف سَمت میں دیکھنے کی طاقت بھی پیدا فرما دے۔قرآن کریم میں قیامت کے دن انسانی اعضا کابولنا ثابت ہے اور جب انسان اپنے خلاف ان کی شہادت کو سن کر تعجب سے کہے گا:تم نے ہمارے خلاف گواہی کیوں دی، تو وہ جواب میں کہیں گے :ہمیں اُسی اللہ نے قوتِ گویائی عطا کی ہے، جس نے ہر چیز کو عطا فرمائی ہے۔صحابہ کرامؓ کا بیان ہے : ہم اپنے سامنے رکھے ہوئے کھانے کی تسبیح خود سنتے تھے اوررسول اللہﷺنے اپنے کھانے میں سے بکری کی دستی اُٹھا کر یہود سے فرمایا تھا : مجھے کھانے میں زہر ملانے کی خبر اس نے دی ہے، جب ان اعضا میں نُطق کی طاقت پیدا ہوجانا ممکن ہوا، تو آنکھ میں صرف بینائی کی طاقت کا مزید ترقی کرجانا ناممکن کیوں سمجھا جائے‘‘ (ترجمان السنہ، ج: 3، ص: 246)۔
قوتِ سامعہ کے اعتبار سے انبیائے کرام علیھم السلام کے امتیازکے حوالے سے حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:''نبی کی سماعت اتنی تیز ہوتی ہے کہ وہ زمین کے ایک حصے سے دوسرے حصے کی چیزوں کو سنتاہے، جسے دوسرے لوگ نہیں سنتے‘‘ (فتح الباری، ج:12، ص: 366)۔ حضرت سلیمان کو اللہ تعالیٰ نے یہ قوت عطا فرمائی تھی کہ وہ پرندوں کی بولیاں سمجھتے تھے اورکئی میل سے اُنہوں نے چیونٹی کی آواز سنی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:''حتیٰ کہ جب وہ چونٹیوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا:اے چیونٹیو! اپنے بِلوں میں داخل ہوجائو، مبادا سلیمان اور ان کا لشکر بے شعوری میں تمہیں روند ڈالے، حضرت سلیمان اُس کی یہ بات سن کر مسکرائے‘‘ (النمل:18)۔ نبی کریمﷺنے فرمایا:''میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اور میں وہ سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے، آسمان چرچرارہا ہے اور اسے حق ہے کہ چرچرائے، آسمانوں میں ایک قدم کی جگہ بھی نہیں ہے مگر اس میں کوئی نہ کوئی فرشتہ اللہ کے حضور سجدہ ریز ہے‘‘ (ترمذی: 2312)۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپﷺ آسمانوں کے چرچرانے کی آواز سنتے ہیں اور آپ آسمانوں میں فرشتوں کوسجدے کی حالت میں دیکھتے ہیں۔نبی کریمﷺکو اللہ تعالیٰ نے اُونٹ، بھیڑیے، ہرن، گوہ اور دیگرحیوانات کے کلام کو سننے اور سمجھنے کی قدرت عطا فرمائی اور آپ نے اُن سے کلام فرمایا، (المعجم الاوسط: 5547)۔ شیخ بدر عالم میرٹھی لکھتے ہیں:''بیمار اور غم رسیدہ انسانوں کی آہ وبکا تو ہر بشر سنتا ہے، لیکن رسول وہ ہوتے ہیں جو مردہ انسانوں کے نالہ وفریاد بھی سُن لیتے ہیں، چونکہ ان کے یقین کے عالم میں عقیدہ اور چشم دید حالت کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوتا، اس لیے جو باتیں وہ جانتے ہیں اس کو دیکھنے کی طاقت بھی رکھتے ہیں، عام انسانوں میں یہ بات نہیں ہوتی، اس لیے بعض شنیدہ واقعات کے دیکھنے کی ان میں طاقت نہیں ہوتی‘‘ (ترجمان السنہ، ج: 3، ص:246)۔
نبی کی قوتِ لامسہ کے ممتاز ہونے کی دلیل یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم ؑکو آگ میں ڈالا گیا تو وہ آگ ان کے لیے ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوگئی۔ (الانبیاء :69)نبی کریمﷺکے صحابی حضرت ابومسلم الخولانیؓ کو اسود عنسی نے دہکتی ہوئی آگ میں ڈالا، لیکن اُن کے جسم کو کوئی نقصان نہیں پہنچا، حضرت ابوبکرصدیقؓ اُنہیں دیکھتے اور اُن پر رشک کرتے ہوئے فرماتے کہ اللہ تعالیٰ نے اُمت محمد یہ میں بھی ایسے لوگوں کو پیدا کیا ہے جنہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسا کمال عطا کیا گیا ہے۔ (اَلْخَصَائِصُ الْکُبْریٰ، ج:2، ص:134)۔ جنگِ بدر میں حضرت عکاشہؓ اورجنگ اُحد میں حضرت عبداللہؓ بن جحش کی تلوار ٹوٹ گئی، وہ نبی کریمﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے، آپﷺ نے اُنہیں کھجور کی ٹہنی دی جو اُن کے ہاتھ میں تلوار بن گئی۔ پس نبی کریمﷺکے لَمس کی برکت سے لکڑی کی حقیقت تبدیل ہوگئی اور وہ لوہا بن گئی۔ (دلائل النبوۃ، ج1: ص: 610) آپﷺ نے حضرت جابرؓ کی لاغر اُوٹنی پر اپناہاتھ پھیراتو اُس میں اتنی طاقت اور تیز رفتاری آگئی کہ اُس نے تمام اُونٹیوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ (بخاری:2967) حضرت اُم معبدؓ، حضرت معاویہؓ بن ثور اور حضرت انسؓ کی بکریوں کے خشک تھنوں پر ہاتھ پھیراتو اُن میں دودھ اُتر آیا۔ (الشفاء، ج1: ص:333)۔ حضرت عمیرؓ بن سعد کے سر پر آپﷺ نے اپنا ہاتھ پھیرا اور اُن کے لیے برکت کی دعافرمائی، چنانچہ اُن کی عمر اَسی برس ہونے کے باوجود اُن کے سر میں ایک بال بھی سفید نہیں تھا۔ حضرت سائبؓ بن یزید کے سر پر آپ نے ہاتھ پھیرا، تو پوری زندگی اُن کے بال سیاہ رہے۔ (الشفاء، ج:1، ص:334)۔حضرت حنظلہؓ بن حذیم کے سر پر آپﷺ نے اپنا ہاتھ مبارک رکھااوراُن کے لیے برکت کی دعا کی، اس کا اثر یہ ہوا کہ جس شخص کے جسم میں ورم ہوجاتا یا جس بکری کے تھنوں میں ورم آجاتا تو اُس حصے کو نبی کریمﷺکی ہتھیلی رکھنے کی جگہ رکھا جاتا تو وہ ورم ختم ہوجاتا۔ (مسنداحمد:20665)۔
نبی کریمﷺکی قوتِ شامہ کے حوالے سے حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:''نبی کی قوتِ شامہ بہت قوی ہوتی ہے، جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیص کے متعلق حضرت یعقوب علیہ السلام کاواقعہ قرآنِ کریم میں ہے‘‘ (فتح الباری، ج:12، ص:366)۔ حضرت یوسف نے کہا: میری قمیص لے جائو اورمیرے والد (حضرت یعقوب) کے چہرے پر ڈال دو، قافلہ وہ قمیص لے کر روانہ ہوا تو حضرت یعقوب نے فرمایا:''بیشک میں یوسف کی خوشبو پاتا ہوں‘‘ (یوسف: 94)۔ حضرت یعقوبؑ نے حضرت یوسفؑ کی قمیص کی خوشبو کئی دن کی مسافت سے سونگھ لی، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ نبی کی قوتِ شامہ عام انسانوں کی قوتِ شامہ سے اعلیٰ اور ممتاز ہوتی ہے۔
نبی کی قوتِ ذائقہ کا عالَم یہ ہے کہ جب نبی کریمﷺنے گوشت کا ایک ٹکرا چکھا تو فرمایا: اس میں زہر ملا ہوا ہے، (بخاری: 3169)۔ ایک خاتون نے آپﷺ کوکھانے پر بلایا، آپ نے لقمہ زبان پررکھتے ہی فرمایا: یہ کسی ایسی بکری کا گوشت ہے جسے اُس کے مالک کی اجازت کے بغیر ذبح کیا گیا ہے، آپﷺ نے لقمہ تناول نہ فرمایا، بات صحیح تھی، کیونکہ اُسے مالک کی اجازت کے بغیر اُس کی بیوی سے حاصل کیا گیا تھا۔ (مسنداحمد:14785)۔ شیخ بدر عالم میرٹھی لکھتے ہیں:''تلخ وشیریں میں تمیز تو عام بشر کی زبانیں بھی کرلیتی ہیں، مگر نبی ورسول وہ ہوتے ہیں جن کی زبان حرام وحلال میں تمیز کرتی ہے‘‘۔ (ترجمان السنۃ، ج:3ص:243)۔
نبی کریمﷺکے لعاب دہن کی برکتوں اور خصوصیات کے واقعات بے شمار ہیں، غزوہ خندق کے موقع پر آپﷺ نے ہنڈیا اور آٹے میں اپنا لعاب دہن ڈالا، اس کی برکت سے چند آدمیوں کا کھانا ایک ہزار لوگوں نے کھایا، کھانے میں کوئی کمی ہوئی اور نہ روٹیوں میں، ہنڈیا بدستور بھری رہی اور آٹا جوں کا توں اپنے حال پر رہا، ( بخاری:4102)۔حدیبیہ کے خالی کنویں میں آپ نے اپنا لعابِ دہن ڈالا تو وہ پانی سے لبریز ہو گیا (بخاری:4151)۔ حضرت علیؓ کی آنکھوں میں لعاب لگایا تو آنکھوں کی تمام تکلیف دور ہو گئی، (بخاری: 2941)۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے سانپ کے ڈسے جانے کی جگہ آپﷺ نے لعابِ دہن لگایا تو زہر کا اثر زائل ہوگیا۔
باطنی حواس ودیگر قویٰ کے اعتبار سے انبیائے کرام علیھم السلام کے امتیاز کی بابت امام رازی فرماتے ہیں:''ایک باطنی حسّ حافظہ ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:''عنقریب ہم آپ کو پڑھائیں گے، پس آپ نہیں بھولیں گے‘‘ (الاعلیٰ : 6)اورایک قوتِ ذکا ہے، حضرت علی ؓفرماتے ہیں: ''مجھے نبی کریمﷺ نے علم کے ایک ہزار باب سکھائے ہیں اور میں نے ہر باب سے ہزار باب مستنبط کیے ہیں‘‘، پس جب ایک صحابی اورامام الاولیاء کی ذکاوت کا یہ عالَم ہے تو امام الانبیاء ﷺکی ذکاوت کا کیا حال ہو گا۔ امام رازی فرماتے ہیں:قوتِ محرکہ کے اعتبار سے انبیائے کرام کے امتیازکی مثال نبیﷺکی معراج ہے اور حضرات عیسیٰ، ادریس اور الیاس علیھم السلامکا آسمانوں پر زندہ اُٹھایا جانا ہے اور حضرت سلیمانؑ کے ایک صحابی کے بارے میں فرمایا:'' جس کے پاس کتاب کا علم تھا، اُس نے کہا:میں آپ کے پاس اُس (تختِ بلقیس)کو آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے لے آئوں گا‘‘ (النمل:40) (تفسیرکبیر، ج:8، ص:200)۔