تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     12-11-2020

اگلے تین‘ چار ماہ انتہائی مشکل

لگتا ہے اگلے تین چار ماہ پھر کورونا سے جنگ کرتے گزریں گے۔ اگر عوام نے ہوشمندی کا مظاہرہ نہ کیا تو آہستہ آہستہ تعلیمی ادارے‘ نجی اور سرکاری ادارے بھی بند ہونا شروع ہو جائیں گے کیونکہ کیسز کی تعداد انتہائی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ گزشتہ دس بارہ دنوں میں جو درجن بھر جلسے ہوئے ہیں‘ ان کے نتائج آنا ابھی باقی ہیں۔حکومت نے بیس نومبرسے شادی گھروں پر کچھ پابندیاں لگائی ہیں‘ جنہیں شادی گھر مالکان نے یہ کہہ کر رد کر دیا ہے کہ کیا کورونا صرف شادی ہالوں میں ہی جاتا ہے اور حکومت کا سارا نزلہ شادی گھروں پر ہی کیوں گرتا ہے۔ ریسٹورنٹس ‘ سینما‘ مزارات پر بھی پابندیاں عائد کیے جانے کا امکان ہے جبکہ بازاروں میں اگر رش کم نہ ہوا اور عوام نے ایس او پیز پر عمل نہ کیا تو سمارٹ لاک ڈائون کے بجائے مکمل لاک ڈائون کرنا حکومت کے لئے مجبوری بن جائے گا۔ ابھی کل ہی ایک ٹی وی پروگرام میں بازاروں میں ایک اینکر کو لوگوں کے انٹرویو کرتے دیکھا جو کورونا کو اب بھی سازش اور دھوکا قرار دینے کی بھرپور کوشش کر رہے تھے۔کوئی کہتا ہے کہ ماسک بیچنے کے لئے یہ سب کیا جا رہا ہے، کوئی اسے یہودیوں کی سازش قرار دے رہا تھا، کوئی امداد حاصل کرنے کا حربہ۔
یہ سب ایک ایسے وقت میں کہا جا رہا ہے جب امریکا میں کورونا سے ڈھائی لاکھ ‘ برازیل میں ڈیڑھ لاکھ‘ بھارت میں سوا لاکھ‘برطانیہ میں پچاس ہزار‘روس میں تیس ہزار‘سپین میں چالیس ہزار اور جرمنی میں گیارہ ہزار افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ جنوری سے لے کر اب تک پوری دنیا میں پانچ کروڑ افراد کو یہ وائرس منتقل ہو چکا ہے جس میں سے ساڑھے تین کروڑ صحت یاب ہوئے ‘ ڈیڑھ کروڑ سے زائد لوگ اس میں مبتلا ہیں جبکہ اس سے ہلاک ہونے والوں کی کل تعداد بارہ لاکھ اسی ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ امریکا میں نائن الیون کے واقعے میں تین ہزار افراد مارے گئے تھے جس کے بعد امریکا نے پوری دنیا کو تورا بورا بنا کر رکھ دیا تھا اور عراق سے لیکر شام تک اور شام سے لے کر افغانستان تک‘ لاکھوں افراد کو قتل اور زمین پر موجود ہر چیز کو تہس نہس کر دیا تھا۔آج اسی امریکا میں یہ وائرس ایک سال میں ڈھائی لاکھ لوگوں کی جانیں لے چکا ہے لیکن امریکا بے بسی سے ہاتھ ملنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکا۔ کورونا ویکسین کی تیاری کے لئے ایک سو سے زیادہ کمپنیاں کوشش میں ہیں۔ایک برطانوی کمپنی نے گزشتہ دنوں ایک ویکسین کے آرڈر لینے بھی شروع کر دیے۔ کمپنی کے مطابق اس ویکسین سے بیماری سے بچائو کی شرح نوے فیصد ہے۔ اس کے علاوہ بھی کچھ کمپنیاں ویکسین جاری کر چکی ہیں اور کروڑوں کی تعداد میں پیشگی آرڈرز دیے جا چکے ہیں۔ وفاقی وزیر سائنس فواد چودھری نے ویکسین کی تیاری پر مغرب اور امریکا کی اجارہ داری پر تشویش ظاہر کی ہے۔ ان کی تشویش بجا ہے کیونکہ یہ صرف ویکسین کی تیاری نہیں بلکہ ملکی معیشت کو دنوں میں زمین سے اٹھا کر آسمان پر پہنچانے والا قدم ہے۔ پاکستان جیسا ملک اگر اس میں کامیاب ہو جاتا تو اس کے شاید سارے قرضے ایک ویکسین کی فروخت سے اتر سکتے تھے۔ برطانوی ویکسین کی قیمت چالیس ڈالر کے قریب ہے اور برطانیہ ابتدا میں چونتیس کروڑ ویکسین فراہم کرے گا۔پوری دنیا سے برطانیہ کو پچاس کروڑ ویکسینز کے آرڈر موصول ہو چکے ہیں۔ اب آپ کیلکولیٹر پکڑیں اور خود حساب لگا لیں کہ برطانیہ کو اس سے کتنا فائدہ ہونے والا ہے۔
آخر برطانیہ اس مقصد میں کامیاب کیسے ہوا‘ یہ اہم سوال ہے اور اس کا جواب ہے تحقیق۔ برطانیہ میں جو یونیورسٹیز ہیں وہاں رٹو طوطے نہیں تیار کیے جاتے بلکہ ہر یونیورسٹی تحقیقی میدان میں اپنا منفرد مقام رکھتی ہے۔ وہاں عملی طور پر درکار اشیا اور مسائل کے حل کی کوششیں کی جاتی ہیں، مثلاً اگرنیپال کے کسی شہر میں کوئی بیماری موجود ہے یا وہاں کوئی مقامی طبی مسئلہ چلا آ رہا ہے اور یہ بیماری یا مسئلہ برطانیہ میں موجود نہیں‘ تب بھی برطانیہ اور امریکا جیسے ممالک کی یونیورسٹیوں کو اس کا نہ صرف علم ہو گا بلکہ وہ اس کے توڑ کی کوششوں میں لگے ہوں گے اور کبھی نہ کبھی اس کا حل بھی نکال لیں گے۔ وہاں طالب علموں کو حقیقت کے ساتھ چلنا سکھایا جاتا ہے۔ ایک یونیورسٹی اکیلے یہ کام نہیں کرتی بلکہ دیگر ملکی ادارے حتیٰ کہ غیر ملکی اداروں کے ساتھ تحقیق کے لئے اشتراک کیا جاتا ہے‘ مقالے لکھے جاتے ہیں اور اعلیٰ تحقیق پر انعامات اور حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ ریسرچ پیپرز کو پوری دنیا میں متعارف کروایا جاتا ہے جس سے مثبت مقابلے کا ایک ماحول پروان چڑھتا ہے اور ہر کوئی دوسرے سے بہتر نتائج دینے کے لئے کام کرتا ہے۔ موجودہ ویکسین کی تیاری میں برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کا بہت بڑا ہاتھ ہے اور دس کروڑ ویکسین اسی یونیورسٹی کی معاونت سے تیار ہو رہی ہیں۔توقع ہے کہ اگلے سال جون تک یہ ویکسین خریداروں کی رسائی میں ہو گی۔ اس وقت تک ممکن ہے دنیا کے دیگر ممالک بھی اس ضمن میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کر چکے ہوں؛ تاہم اس عرصے میں پاکستان جیسے ممالک کو اس سے بچنے کی زیادہ کوشش کرنا ہو گی کیونکہ جدید ممالک میں عام بندے کو سمجھانا ہمارے عوام کو سمجھانے سے کہیں آسان ہے۔ آج ایک سال بعد بھی آپ عوام سے پوچھیں گے تو درجنوں لوگ سامنے آ کر کہیں گے کہ ہسپتالوں میں زہر کا ٹیکا لگا کر مارا جاتا ہے کورونا کوئی بیماری نہیں‘ یہ سب حکومتیں پیسے بٹورنے کے لئے کورونا کا شور مچا رہی ہیں‘ وغیرہ وغیرہ۔ پھر پاکستان میں جلسے جلوس‘ شادیاں اور اہم مذہبی و غیر مذہبی تقریبات بھی کثرت سے ہوتی ہیں۔ حکومت ان پر پابندی لگانا نہیں چاہتی لیکن عوام کی بے احتیاطی مجبور کرتی ہے۔ اب تو پانچ روپے میں بھی ماسک بھی دستیاب ہے اور این نائٹی فائیو ماسک بھی سو روپے میں مل رہا ہے‘ پھر بھی لوگ احتیاط کرنے کو تیار نہیں۔ کورونا کی ایک مصیبت اور بھی ہے کہ یہ دوبارہ بھی ہو سکتا ہے۔ اگر یہ لاکڑا کاکڑا کی طرح ہوتا کہ یہ جس کو ایک بار ہو جاتا‘ ساری زندگی میں دوبارہ نہیں ہو سکتا تو بڑی اچھی بات تھی لیکن کئی افراد‘ مثلاً پیپلزپارٹی کے ایک رہنما کورونا کی پہلی لہر میں متاثر ہوئے اور تیس روز ہسپتال میں رہے، گزشتہ دنوں دوبارہ ان کا کورونا پازیٹو آ گیا اور کچھ دن زیرعلاج رہنے کے بعد وہ انتقال کر گئے۔ عوام مگر نجانے کس مٹی سے بنے ہیں کہ اس طرح کی خبروں اور آنکھوں دیکھے واقعات پر بھی یقین کرنے کو تیار نہیں۔ بس انہیں ایک ہی کام آتا ہے اور وہ ہے حکومت‘ عالمی اداروں اور دوسرے ممالک کو کوسنا۔ اب تو دیگر ممالک سے امداد بھی ملنے کی امید نہیں کیونکہ سبھی اس عالمی وبا کا شکار ہیں اور سبھی کی معیشت کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔ 
دوسری جانب سموگ کے وار بھی تھمنے میں نہیں آ رہے۔ جو کورونا سے بچ جاتا ہے‘ وہ گلے اور پھیپھڑے کی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کا بہترین حل نیم گرم پانی کے غرارے‘ بھاپ اور آرام ہے۔ لوگوں کو چائے کے بجائے شہد ملا گرم پانی پینے کی عادت ڈالنا ہو گی۔ اس وقت کورونا کا ٹیسٹ پانچ‘ چھ ہزار روپے کا ہے جو ہر کسی کے بس میں نہیں اور ویسے بھی ٹیسٹ کرا کر کون سا بندہ محفوظ ہو جاتا ہے۔ اس لئے آ جا کر احتیاط ہی آخری حل ہے جس کے ذریعے ہم خود کو اور معاشرے کو اس موذی بیماری سے بچا سکتے ہیں۔ اگلے دو چار ماہ ہسپتالوں پر بوجھ بڑھنے والا ہے کیونکہ سردیوں میں معمر افراد اور بچوں میں چھاتی اور سانس کی بیماریاں بڑھ جاتی ہیں۔ ذرا تصور کریں کہ ہماری بے احتیاطی سے ہسپتالوں اور ڈاکٹرز کیلئے کتنے مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں۔ کورونا پر نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کی تجاویز پر من و عن اور فوری عمل ہونا چاہیے کیونکہ ان ادارے کے پاس پورے ملک کی پل پل کی رپورٹ ہوتی ہے۔ کورونا کی دوسری لہر زیادہ بڑا امتحان ہے‘ اس کے بعد شاید ویکسین آنا شروع ہو جائے گی۔ یہ تین چار ماہ احتیاط سے گزر گئے تو خدا کے فضل سے اس عذاب سے جان چھوٹ جائے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved