تحریر : ڈاکٹر طلعت شبیر تاریخ اشاعت     12-11-2020

خود احتسابی لازم

اگر آپ کو حکومت کا ہر ایک قدم ٹھیک دکھائی دے رہا ہے اُس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں؛ ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ آپ برسرِ اقتدار جماعت سے تعلق رکھتے ہیں یا دوسری وجہ یہ ہو گی کہ کچھ ایسا ضرور ہے جو آپ کی سمجھ بوجھ کے راستے میں رکاوٹ ہے۔اگر آپ کو ہر حکومتی اقدام میں کچھ منفی ہی دکھائی دیتا ہے تو یہ بھی آپ کے فہم و ذکاوت پر سوالیہ نشان ہے، شاید تنقید کی وجہ آپ کا یہ غصہ ہے کہ مقتدر حلقوں کی نظر آپ پر کیوں نہیں پڑی اور آپ کی بیش بہا عقل ودانش سے ملک کو مجموعی طور پر محروم کیوں رکھا جا رہا ہے۔ اگر آپ حکومت کے مثبت کاموں کو سراہ رہے اور غلط فیصلوں پر تنقید کر رہے ہیں تو بلا شبہ آپ اپنے ملک کو خوشحالی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتے ہیں اور اس وقت بہت کم لوگ ملک کو پھلتا پھولتا دیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ 
وطنِ عزیز میں کچھ سالوں سے اندھا دُھند تنقید کا رجحان زوروں پر ہے۔ ہر کسی کو ہرایک شے میں منفی پہلو ہی نظر آتا ہے اور یوں لگتا ہے کہ یہاں کچھ بھی اچھا نہیں ہو رہا اور سب کچھ خطرے میں ہے۔صبح سے لے کر شام تک تنقید کی وجہ تلاش کی جاتی ہے اور پھر شام سے رات گئے تک اُس پر سیر حاصل مباحث ہو تے ہیں اور پھر اگلی صبح سے بات وہیں سے شروع ہوتی ہے اور کچھ تازہ موضوعات بھی اِس بحث میں شامل کر لئے جاتے ہیں۔ رات گئے تک جاری رہنے والے مباحثوں میں زیادہ تر مسائل کو ہی زیر بحث لایا جاتا ہے اور ان مسائل کے حل کی نشان دہی خال خال ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں صبح کے اُجالے کے ساتھ جاری ہونے والا تنقیدی عمل شوہر کی سُستی اور کاہلی سے بھی شروع ہو سکتا ہے البتہ شام تک اِس کا دائرہ کار حکومت کی نا اہلی اور بد انتظامی اور اعلیٰ عہدیداران کی اہلیت اور ناقص کا رکردگی تک وسیع ہو چکا ہوتا ہے۔
ملک کے طول و عرض میں سماجی رابطوں کے ذرائع‘ جنہیں عرف عام میں سوشل میڈیا کہا جاتا ہے‘ کا بھر پور استعمال جاری ہے۔ اس وقت سوشل میڈیا کا دور دورہ ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ سوشل میڈیا اپنے جارحانہ دور سے گزر رہا ہے تو زیادہ بہتر ہو گا۔ سوشل میڈیا نے ہر شخص کو قوتِ گویائی عطا کر دی ہے اور سوشل میڈیا چونکہ اپنے اطوار میں بہت ہی 'سوشل‘ ہے اِس لئے ہر شخص نہ صرف اپنی رائے رکھنے میں کلی طور پر آزاد ہے بلکہ ہر دوسرا شخص اپنی رائے کو دوسروں تک پہنچانے بلکہ دوسروں پر مسلط کرنے میں بھی مہارت حاصل کر چکا ہے۔ وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ اُس کی رائے اور اس کا یہ عمل ملک کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ سوشل میڈیا پر صبح سے لے کر شام تک ایک دوڑ جاری رہتی ہے اور ہر کوئی اس دوڑ میں سبقت لے جانے کی کوشش میں ہے۔
سوشل میڈیا کے اثرات اور اُس کی بے پناہ طاقت تو بہرحال ہر کوئی تسلیم کرے گا کہ پلک جھپکتے ہی کسی بھی واقعے کو دُنیا میں اُس زاویے کے ساتھ عام کیا جا سکتا ہے جیسا آپ چاہتے ہیں اور اس تاثر کو بھی ہوا دی جا سکتی ہے جیسے کوئی اس خاص واقعے کی تشہیر چاہتا ہے۔ اگر کسی مثبت بات کو منفی رنگ دینا ہو یا کسی منفی بات کو مثبت ثابت کرنا ہو تو یہ بھی سوشل میڈیا پر بہ آسانی ممکن ہے۔ ہر دو صورتوں میں آپ چند خوب صورت معروضات اور بلاتحقیق لیکن بظاہر موثر دلائل پیش کر دیں تو وہ خیالات بہت سی اُنگلیوں کی پوروں سے ہوتے ہوئے دنیا بھر میں پھیلتے چلے جائیں گے اور اس حوالے سے ایک رائے قائم ہونا شروع ہو جائے گی۔ بعض اوقا ت کچھ لوگ معصومیت میں بھی کچھ ایسے رُجحانات کو ہوا دے رہے ہوتے ہیں کہ اُن کو خود بھی اِس بات کا اندازہ نہیں ہوتا کہ یہ عمل کسی شخص، کمیونٹی یا سماج کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
قائدآباد میں بینک منیجر کے قتل کی مثال لے لیں‘ ایک شخص جو بینک کی حفاظت پر مامور ہے اُس کا کسی بات پر اپنے بینک منیجر سے بحث مباحثہ جھگڑے تک جا پہنچتا ہے اور وہ جھگڑا ایسا طول پکڑتا ہے کہ سکیورٹی گارڈ جذباتی الزامات لگا کر بینک منیجر کو قتل کر دیتا ہے۔ اب یہ خبر سوشل میڈیا پر عام ہو تی ہے اور چند منٹوں میں مذکورہ گارڈ جو ایک قتل کے جرم کا مرتکب ہوا ہے‘ اگلے چند گھنٹوں میں ہیرو بن جاتا ہے اور لوگ اُس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے پولیس سٹیشن پہنچ جاتے ہیں، قتل کا مجرم پولیس سٹیشن کی چھت پر کھڑے ہو کر فاتحانہ انداز میں ہاتھ ہلا کر لوگوں سے داد وصول کرتا ہے؛ تاہم اگلے چند گھنٹوں میں جب حقیقت حال واضح ہو تی ہے تو پتا چلتا ہے کہ اس نے ایک بے گناہ شخص کو قتل کیا ہے اور یہ قتل اُس نے ذاتی رنجش کی بنیاد پر کیا۔یوں مقتول بینک منیجر سوشل میڈیا پرایک شہید قرار پاتا ہے اور لوگ جوق در جوق اس کے جنازے میں شریک ہوتے ہیں۔ آ پ سوشل میڈیا کی طاقت دیکھئے کہ لمحوں میں ایک شخص کو کامیابی سے ہیرو کے طور پر پیش کیا اور حقیقت کھلنے پر اُسی شخص کو ایک قاتل قرار دے دیا۔ اِس واقعے کی وجہ سے پورے ملک میں ایک ہیجانی کیفیت ہے کہ حکومت یا کوئی ریگولیٹری اتھارٹی نہ اِس واقعے کی غیر ضروری تشہیر روک پاتی ہے اور نہ ہی ذمہ داروں کا تعین ہو پاتا ہے۔ پھر یہ واقعہ اور اِس طرح پیش آنے والے دوسرے واقعات‘پیش آئندہ واقعات کی بازگشت میں گم ہو جاتے ہیں۔
میں نے سوشل میڈیا کا تذکرہ اِس لئے کیا کہ سوشل میڈیا بے جا تنقید، عیب جوئی اور منافرت کو پھیلانے کا سبب بنتا جا رہا ہے۔ کسی پر کوئی سنگین الزام عائد کرنا ہو، کسی کی کردار کشی کرنا ہواور کسی پر بے ربط ، بے جا اور حقیقت سے کوسوں دُور الزامات لگانا ہوں‘ آپ کو سوشل میڈیا کی صورت میں ایک ایسا پلیٹ فارم میسر ہے جو کسی قاعدے‘ کسی ضابطے کے تابع نہیں۔جہاں ہر شخص دوسروں کو تنقید کا نشانہ بنا نے کی کوشش میں رہتا ہے۔ ہم دوسروں کے عیب دیکھنے اور نظر نہ آنے کی صورت میں تلاش کرنے کی تگ ودو میں رہتے ہیں۔ عیب مل جائیں تو اُن کی نشان دہی اور تشہیر میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ ہمیں اپنی ذات کے سوا ہر شے میں نقائص نظر آتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ملک میں ہر کام میں نہ صرف بہتری کی گنجائش ہے بلکہ بہت سے نئے کام کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اِس ملک میں جو کچھ بھی غلط ہو رہا ہے اُس کا کوئی نہ کوئی ذمہ دار ہے اور اُس ذمہ دار کو خود کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر سیاسی طور پر تبدیلی لانی ہے تو کوئی اور پہل کرے، اگر سماجی رویے بدلنے ہیں تو ہمارے علاوہ کوئی آگے بڑھے۔ اگر معاشرے میں روا داری، بردباری اور برداشت کو فروغ دینا ہے تو کوئی اور اس کارِ نیک کی بنیاد رکھے۔ اگر منافرت کو ختم کرنا ہے تو کوئی اور پہل کرے کیونکہ ہم اِس بات کا قطعاً خیال نہیں کرتے کہ وہ عمل جن کی ہم دوسروں سے توقع کرتے ہیں‘ وہ ہم نے 'خود‘ سے شروع کرنا ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص کو دوسروں پر انگلی اٹھانے سے قبل اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا‘ سب سے پہلے اپنا احتساب کرنا ہو گا کہ ہم انفرادی طور کتنے کارآمد فرد، کتنے اچھے انسان اور کتنے ذمہ دار شہری ہیں۔ 
سوشل میڈیا بے جا تنقید، عیب جوئی اور منافرت کو پھیلانے کا سبب بنتا جا رہا ہے۔ کسی پر کوئی سنگین الزام عائد کرنا ہو، کسی کی کردار کشی کرنا ہواور کسی پر بے ربط ، بے جا اور حقیقت سے کوسوں دُور الزامات لگانا ہوں‘ آپ کو سوشل میڈیا کی صورت میں ایک ایسا پلیٹ فارم میسر ہے جو کسی قاعدے‘ کسی ضابطے کے تابع نہیں۔ جہاں ہر شخص دوسروں کو تنقید کا نشانہ بنا نے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved