تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     13-11-2020

گالی گلوچ تلوار سے بہتر ہے

کبھی ہم نے سوچا‘ انگریزوں کے آنے سے پہلے ہندوستان میں حکمرانی کا کیا نظام تھا؟ لوگ اپنے حکمران کیسے چنتے اور ہٹاتے تھے؟
حکمران چننے اور ہٹانے کا ایک ہی طریقہ تھا۔ بادشاہ مر جاتا تو اس کے بعد اس کے بھائیوں اور بچوں میں جنگیں شروع ہو جاتیں۔ ہزاروں لوگ جنگوں کا ایندھن بنتے تاکہ اپنی مرضی کا بادشاہ دلی پر بٹھا سکیں۔ اس دوران بھائی بھائی کا گلا کاٹتا‘ پھر جو جیت جاتا وہ پچھلے بادشاہ کے سب درباریوں کا سر قلم کراتا اور لہو سے داغدار تاج سر پر سجا کر اپنے نئے وفادار اور درباری منتخب کرکے حکومت شروع کرتا۔ پھر یہ سب اس کے ساتھ دہرایا جاتا۔ وہ مارا جاتا تو اس کے ساتھ اس کے درباری بھی مارے جاتے اور نیا بادشاہ پھر لہولہان تاج لے کر تخت پر بیٹھا۔
مغلوں کے ہندوستان میں جتنا باپ بیٹے اور بھائیوں کو آپس میں اقتدار کے لیے لڑے شاید ہی کوئی اور شاہی خاندان لڑا ہو؛ اگرچہ ان سے پہلے بھی دلی سلطنت کے بادشاہ اپنے خونی رشتوں کا لہو بہا کر اقتدار پر بیٹھے جیسے علائوالدین خلجی نے اپنے چچا اور سسر جلال الدین خلجی کو قتل کرکے بادشاہی سنبھال لی تھی۔ وہ چچا جس نے باپ کی طرح بھتیجے کو پالا پوسا تھا اور بیٹی دی تھی۔ جلال الدین خود بھی یہی خون کا سمندر عبور کرکے بادشاہ بنا تھا لہٰذا علائوالدین کو چچا کو قتل کراتے وقت تکلیف یا ضمیر کی خلش محسوس نہیں ہوئی ہو گی۔
مغلوں نے بھی یہی راستہ اختیار کیا۔ بابر اس معاملے میں زیادہ رحم دل تھا کہ اس نے ہمایوں کی بیماری پر خدا سے دعا مانگی کہ میری زندگی لے لو لیکن بیٹا بچا دو تاکہ ہندوستان کا تخت لاوارث نہ ہو۔ یہ اور بات کہ بابر کے مرنے بعد وہی بیٹا مغلوں کا تخت شیر شاہ سوری ہاتھوں کھو بیٹھا اور سات سال تک ایران چھپ کر بیٹھا انتظار کرتا رہا کہ شیر شاہ سوری مرے اور وہ ہندوستان کا تخت واپس لے۔
پھر ہم نے دیکھا‘ اکبر اور اس کے اکلوتے بیٹے سلیم کے مابین جنگ ہوئی۔ سلیم ہار گیا۔ باغی بیٹا دربار میں زنجیروں میں باندھ کر لایا گیا تو اکبر بادشاہ کا رول نہ نبھا سکا‘ باپ کی محبت حاوی ہو گئی یا پھر حضرت سلیم چشتیؒ کے فتح پور سکری کی طرف آگرہ سے پیدل کیا گیا سفر اور منت یاد آ گئی ہو گی۔ بہرحال جو بھی تھا‘ اکبر نے سلیم کو معاف کیا۔ یہ اور بات کہ جب شہزادہ سلیم جہانگیر کا لقب لے کر ہندوستان کا بادشاہ بنا تو تاریخ نے خود کو دہرایا۔ اس بار سلیم کے بیٹے نے اسی طرح باپ سے بغاوت اور جنگ کی جیسے کبھی سلیم نے اپنے باپ اکبر سے کی تھی۔ نتیجہ بھی وہی نکلا۔ سلیم کا بیٹا گرفتار ہوا۔ زنجیروں میں جکڑ کر دربار میں باپ کے سامنے پیش کیا گیا۔ بیٹا قدموں پر گر پڑا اور کہا: ابا حضور رحم۔ جہانگیر پر اس وقت بادشاہت سوار تھی اکبر کی طرح بیٹا نہیں۔ ہندوستان کا بادشاہ جہانگیر بولا: جان من تمہیں معاف نہیں کیا جا سکتا‘ تم ایک باغی ہو‘ تم نے بغاوت کی ہے اور بغاوت کی سزا موت ہوتی ہے۔
خوفزدہ بیٹا چلا اٹھا: ابا حضور! آپ نے بھی تو میرے دادا جان شہنشاہِ ہند اکبر کے خلاف بغاوت کی تھی، جنگ لڑی تھی‘ آپ بھی میری طرح گرفتار ہوئے تھے اور اس دربار میں ہی آپ کو بھی زنجیروں میں جکڑ کر لایا گیا تھا‘ آپ کو دادا حضور نے باغی نہیں ایک بیٹا سمجھ کر معاف کر دیا تھا‘ آپ بھی مجھے معاف کر دیں۔
جہانگیر مسکرایا۔ تخت پر کھڑا ہوا اور بولا: میری جان‘ اس تخت پر بیٹھ کر آج احساس ہوا کہ تمہارے دادا حضور اکبر نے مجھے معاف کر کے غلطی کی تھی‘ باغی کی سزا موت ہوتی ہے۔ میرے باپ اور تمہارے دادا اکبر کو میرا سر قلم کرا دینا چاہیے تھا۔ بادشاہت اور حکمرانی میں رحم دلی کا کوئی تصور نہیں ہوتا‘ اگر انہوں نے میرا گلا کاٹ دیا ہوتا تو تم کبھی مجھ سے بغاوت نہ کرتے۔ تمہارے سامنے میری مثال تھی لہٰذا تم نے جرأت کی اور ہندوستان کے بادشاہ جہانگیر کے خلاف جنگ لڑنے چل پڑے۔ یہ قصور ابا حضور اکبر کا تھا‘ وہ مجھے معاف نہ کرتے تو مجھے آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔
یہ کہہ کر جہانگیر نے اپنے بیٹے کا سر قلم کرا دیا۔
شاید شہنشاہ جہانگیر اپنے باپ بادشاہ اکبر کی طرح مجبور نہیں تھا‘ جس نے اکلوتے بیٹے کے باپ اکبر کو جکڑ رکھا تھا۔ اکبر بادشاہ کے سامنے مغل سلطنت کا مستقبل تھا کہ سلیم کے بعد کوئی وارث نہ تھا‘ لہٰذا اکبر کے لیے رحم دکھانا مجبوری تھی‘ خوبی نہیں۔ وہ محض اپنی شاہی انا کی خاطر ہندوستان کا تخت ہمیشہ کے لیے دشمنوں کے حوالے کر کے نہیں جا سکتا تھا۔ اگر بادشاہ جہانگیر کے بقول اکبر بادشاہ اپنے اکلوتے بیٹے کو بھی اس فلاسفی پر عمل کرتے ہوئے مروا دیتا کہ باغی چاہے بیٹا ہو پھر بھی موت کی سزا ہو گی تو اس دن مغلوں کا راج ختم ہو جاتا۔ نہ پھر مغل رہتے نہ جہانگیر تخت پر بیٹھ کر بیٹے کو بادشاہی مجبوریاں سمجھا رہا ہوتا۔جہانگیر کو اپنے باپ اکبر پر یہ edge تھا کہ اس کے اور بھی بیٹے تھے لہٰذا جہانگیر اس نفسیاتی اور شاہی دبائو کا شکار نہ تھا کہ اس نے ایک بیٹے کو قتل کرا دیا تو ہندوستان کا کیا ہو گا۔ وارث کون ہو گا۔
جہانگیر کا اصل مقابلہ اکبر کے اپنے بیٹے کو معاف کر دینے سے اس وقت کیا جا سکتا تھا جب جہانگیر کا بھی ایک بیٹا ہوتا اور اسے زنجیروں میں جکڑ کر لایا جاتا اور وہ رحم کی بھیک مانگتا لیکن جہانگیر کہتا: نہیں باغی کی سزا موت ہوتی ہے چاہے ہندوستان کا تخت لاوارث ہو اور مغلوں کا نام و نشان بھی ہندوستان سے مٹ جائے۔ جہانگیر اس دبائو سے آزاد تھا کیونکہ اسے پتہ تھا دوسرے بیٹے سنبھال لیں گے اور وہی ہوا شاہ جہاں نے تخت سنبھالا لیکن شاہ جہاں کو بھی اپنے بھائی کے خلاف جنگ لڑ کر اسے قتل کرنا پڑا۔
جہانگیر کا خیال تھا کہ وہ باغی بیٹے کو سزا دے کر آئندہ کے لیے مغل خاندان میں تخت کے لیے بغاوتوں کا راستہ بند کررہا ہے‘ لیکن اسے علم نہ تھا تخت اور تختے کی جنگ اتنی پرانی ہے جتنا انسان خود‘ لہٰذا شاہ جہاں کے بیٹے اورنگزیب نے وہی روٹ لیا۔ اپنے بھائیوں مراد، دارا شکوہ، شجاع سے جنگیں لڑیں، انہیں قتل کرایا۔ باپ کو قید خانے میں ڈالا۔ دارا شکوہ کے حسین و جمیل بیٹے کو دلی میں قتل کرایا۔ کہتے ہیں وہ لڑکا اتنا حسین تھا کہ جب اسے زنجیروں میں جکڑ کر دلی لایا گیا تو پورا دلی شہر امڈ آیا اور رحم کی اپیل کی۔ اورنگزیب کا دل نہ پسیجا اور کہا: میرے اس حسین و جمیل بھتیجے کی مثال اس سانپ کی ہے جس کی رنگدار کھال اوپر سے بہت خوبصورت ہوتی ہے اور اندر زہر بھرا ہوتا ہے۔ اورنگزیب نے اسے بھی قتل کیا۔ اس رات اس مغل نوجوان کے قتل کے دکھ اور سوگ میں دلی کے کسی گھر چولہا نہ جلا تھا لیکن شہنشاہ کو اس سے کیا فرق پڑتا تھا۔ لہٰذا جب انگریزوں نے ہندوستان کے آخری شاعر بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو رنگون میں قید کیا اور اس کے بچوں کو پھانسی پر لٹکا دیا تو پھر انہوں نے کیا غلط کیا تھا؟ یہی کچھ تو اورنگزیب اپنے باپ اور بھائیوں کے ساتھ کر چکا تھا۔ یہی شاہجہاں نے اپنے بھائی ساتھ کیا تھا۔ یہی شاہجہاں کے باپ جہانگیر نے اپنے بیٹے ساتھ کیا تھا۔ انگریزوں نے وہی کچھ مغلوں کے ساتھ کیا جو پچھلی کئی دہائیوں سے مغل شہزادے اور بادشاہ تخت کے لیے ایک دوسرے ساتھ کرتے آئے تھے۔
بادشاہی کیلئے انسان اپنے خونی رشتوں کا خون بہانے سے گریز نہیں کرتا۔ عمران خان، بلاول اور مریم نواز تو پھر بھی ایک دوسرے کے رشتہ دار نہیں۔ یہ اور انکے حامی ایک دوسرے کا جو حشر کر رہے ہیں اور جو گالی گلوچ ہو رہی ہے اس پر ہم پریشان کیوں ہیں؟ شکر ادا کریں گوروں کا جنہوں نے ایک نظام دیا کہ بغیر جنگیں لڑے، بھائیوں کا لہو بہائے، صرف گالی گلوچ اور خاندانوں پر حملے کرنے سے بھی بادشاہ بدلے بھی جا سکتے ہیں۔
آج کے دور کے جلسوں اور ٹی وی شوز میں جاری گالی گلوچ بہرحال اس تلوار سے بہتر ہے جو ہندوستان میں بادشاہت کے جنون میں مبتلا شہزادے اور شہزادیوں کے سر کاٹنے کے کام آتی تھی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved