تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     13-11-2020

ٹرمپ کے بعد امریکہ کا کیا بنے گا؟

ٹرمپ ہار گیا۔ بائیڈن جیت گیا۔ اس بات پر کچھ لوگ ماتم کناں ہیں، کچھ جشن منا رہے ہیں‘ مگر بوڑھے بائیڈن نے جن حالات میں امریکہ کی قیادت کا بیڑا اٹھایا ہے، وہ کوئی بہت زیادہ خوش گوار نہیں ہیں۔ انہیں بہت ہی خوفناک اور مایوس کن حالات کا سامنا ہے۔ وبا کی تباہ کاریاں ناقابل یقین ہیں۔ وبا کے شکار لوگوں کی تعداد دس ملین سے تجاوز کر چکی ہے۔ معاشی بد حالی کا جو منظر ہے، وہ انیسویں صدی کی تیسری دہائی کے عظیم ڈپریشن سے کم نہیں۔ یہ حالات محض معاشی طور پر ہی نہیں، بلکہ سیاسی طور پر بھی عظیم ڈپریشن سے مماثلت رکھتے ہیں کہ تب بھی امریکیوں نے اس وقت کے صدر کو دوسری بار منتخب کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ بد قسمت ہربرٹ ہوور کی ہار تو ڈپریشن کا نتیجہ تھی‘ مگر ٹرمپ کی ہار میں وبا کی تباہ کاریوں کی نسبت ان کی حرکات و سکنات کا زیادہ دخل دکھائی دیتا ہے۔ وبا کی تباہ کاریاں صرف امریکہ تک ہی محدود نہیں، بلکہ یہی صورت حال اس وقت اگر پوری دنیا میں نہیں تو کم از کم 80 فیصد ممالک میں ضرور نظر آتی ہے، جہاں کئی جگہ عوام نے حکمرانوں کو دوبارہ منتخب کیا۔ نومنتخب صدر کا کوئی ایک مسئلہ ہو تو اس کا ذکر کیا جائے۔ مسائل کا ایک سمندر ہے۔ بائیڈن کا سب سے بڑا مسئلہ صدر ٹرمپ کی پیدا کردہ تنگ نظر اور بے رحمانہ قوم پرستی کے اس طوفان کا مقابلہ کرنا ہے، جو ٹرمپ کے وائٹ ہائوس سے رخصتی کے بعد بھی اپنی تباہ کاریاں جاری رکھے گا۔ نئے صدر کا اصل چیلنج مذہب و رنگ میں لتھڑی ہوئی متعصابانہ قوم پرستی اور عالمگیریت کے درمیان توازن پیدا کرنا ہے‘ اور یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ انہیں ایسا اعتدال پیدا کرنے کے لئے خاصی محنت کرنا پڑے گی۔ صدر ٹرمپ نے تاریخ میں پہلی بار بہت سارے امریکیوں کو نسلی اور قومی برتری کے اس درجے تک پہنچا دیا ہے، جہاں قوم پرستی اور فاشزم کے درمیان بہت باریک فرق رہ جاتا ہے۔ جھوٹی قوم پرستی کا یہ ایک تازہ چڑھتا ہوا نشہ ہے، جس کو اترنے میں کافی وقت اور محنت درکار ہو گی۔ امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے والی بات میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔
امریکہ نصف صدی تک سوویت یونین کے مقابلے میں دنیا کی ایک بڑی سپر پاور رہا ہے اور سوویت یونین کے منظر سے ہٹ جانے کے بعد بھی یہ تین عشروں سے دنیا کی واحد سپر پاور ہے‘ لیکن اس کی عظمتوں اور رفعتوں کا راز کبھی بھی قوم پرستی نہیں رہا ہے۔ اس کے برعکس امریکیوں نے بین الاقوامیت پسندی کو ترجیح دی‘ مگر پُر امن بقائے باہمی، اور اندرونی معاملات میں عدم مداخلت جیسے بین الاقوامیت پسندی کے بنیادی اصولوں کو نظر انداز کیا‘ اور بین الاقوامیت کی حدود کو پار کر کے دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت، ان میں اپنی پسند اور نا پسند کی بنیاد پر حکومتوں کی تشکیل و تخریب کے ذریعے دنیا میں اپنی بالا دستی اور برتری قائم رکھنے کی پالیسی اپنائی۔ صدر ٹرمپ نے اس پالیسی کو ہیجانی انداز میں آگے بڑھانے کا راستہ اختیار کیا۔ ''امریکا سب سے پہلے‘‘ کے نعرے کو لے کر انہوں نے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات کو فوجی طاقت کی برتری اور سیاسی و معاشی اثر و رسوخ کے استعمال سے جوڑ کر پیش کیا، جس کا مطلب یہ تھا ہے کہ دنیا میں دکھ درد، قدرتی آفات، بیماری و تباہی کی صورت میں امریکہ کسی کا شراکت دار نہیں ہو گا۔ اس عمل نے امریکہ کے ان شراکت داروں کو بھی مایوس کیا، جو ہر بات پر امریکہ کی طرف امید کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ نئے منتخب صدر کو بڑا مسئلہ یہ درپیش ہو گا کہ وہ عالمی سیاست میں امریکہ کا کھویا ہوا اعتبار اور اس پر انحصار کرنے کی نفسیات بحال کریں۔ 
دنیا کے کئی ممالک میں امریکہ کا اعتبار صرف فوجی طاقت کی وجہ سے ہی نہیں تھا۔ اس مقصد کے لیے امریکہ نے بڑے پیمانے پر اپنے معاشی وسائل، سیاسی طاقت اور اخلاقی دبائو کو بھی استعمال کیا ہے۔ روایتی اور تاریخی طور پر سوویت یونین کے خلاف امریکہ کا سب سے بڑا اخلاقی ہتھیار جمہوریت اور انسانی حقوق کا نعرہ رہا تھا۔ سوویت یونین کے بعد بھی اگرچہ دکھاوے کے لیے ہی سہی ایک عرصے تک اس ہتھیار کو مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاتا رہا۔ اس کا ایک اظہار دنیا بھر میں جمہوریت اور انسانی حقوق و شہری آزادیوں کی حمایت میں ہوتا رہا۔ اس میدان میں ٹرمپ نے ایک تباہ کن رجعت پسندانہ پالیسی اختیار کی، جس کے نتیجے میں نہ صرف دنیا میں امریکہ کی عالمی ساکھ کو نقصان پہنچا بلکہ اس کی وجہ سے سے دنیا بھر میں جمہوری قوتوں اور انسانی حقوق کی علم بردار تحریکوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ اور عالمی سطح پر یہ تاثر بڑی حد تک پختہ ہو گیا کہ دنیا میں جمہوریت اور انسانی حقوق کا مسئلہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اس سے دنیا میں مطلق العنانیت اور آمریت پسندانہ رجحانات میں اضافہ ہوا۔ کچھ جگہوں پر قومی آزادی اور جمہوری حقوق کی تحریکوں کو بے دردی سے کچلا گیا۔ اس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ نئی دنیا میں معاشی مفادات انسانی حقوق اور شہری آزادیوں سے زیادہ اہم ہیں‘ اور امریکہ اپنے معاشی اور سٹریٹیجک مفادات کے لیے آمریتوں کے ساتھ شراکت داری کر سکتا ہے، اور ان کو جمہوری قوتوں پر ترجیح دیتا ہے۔ اس تاثر کو زائل کرنے اور دنیا میں جمہوریت پسند اور انسانی حقوق کی تحریکوں کے ساتھ امریکہ کی شراکت داری کو بحال کرنے کے لیے کافی محنت کی ضرورت ہو گی۔
امریکہ کی نئی منتخب حکومت کا ایک اور بڑا چیلنج مختلف ممالک کا علاقائی بنیادوں پر غلبے کا تصور ہے۔ یہ تصور صدر ٹرمپ کی نئی پالیسیوں کے نتیجے میں پیدا ہوا جس کی وجہ سے مختلف علاقائی طاقتوں نے علاقائی بنیادوں پر اپنے اپنے علاقے میں غلبہ حاصل کیا ہے۔ اس غلبے کے تحت سائبر سپیس میں خود مختاری اور مقامی انٹر نیٹ کے تصور نے فروغ پایا، جس کا مقصد اظہار رائے پر پابندی اور ٹیکنالوجی کے استعمال کو حکومتی کنٹرول اور منشا کے مطابق لانا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ علاقائی پانیوں اور خشکی پر برتری اور بالا دستی کا تصور بھی مضبوط ہوا۔ ان تصورات کا جواب ایک آزاد دنیا کا قیام ہے‘ یعنی ایک ایسی دنیا جو انسانی حقوق و جمہوریت کے حوالے سے عالمگیریت پر یقین رکھتی ہو۔ امریکیوں کے لیے ایسی دنیا کے قیام کے تصورات کے ساتھ دوبارہ جڑنا اور دنیا میں ہونے والی ایسی جدوجہد کا ساتھ دینا ایک بڑا مسئلہ ہو گا۔ نومنتخب حکومت کے لیے ایک بڑا مسئلہ امریکہ کی نئی حیثیت اور نئے 'سٹیٹس کو‘ کو ذہنی طور پر قبول کرنا ہے۔ ایک بات طے ہو چکی ہے کہ اب امریکہ دنیا میں واحد سپر پاور کے طور پر تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے نئی حکومت کے پاس دو ہی راستے ہوں گے۔ ایک یہ کہ وہ ماضی کی عظمتوں اور سنہرے خوابوں میں کھو کر ان کی بحالی کی سعیٔ لا حاصل کرے۔ اور دوسرا یہ کہ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کی روشنی میں امریکہ کے نئے عالمی کردار کا تعین کرے، جو زیادہ قدرتی راستہ ہے۔ نئے امریکی صدر اس بارے میں کیا سوچ رکھتے ہیں اور امریکہ کو اور عالمی برادری کو درپیش مسائل کے حل کا ان کے ذہن میں کیا حل ہے‘ اس بارے میں فی الحال حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن ان کے جو بیانات سامنے آ رہے ہیں ان سے اگلے چند روز میں واضح ہو جائے گا کہ ان کی پالیسیوں کے خدوخال کیا ہوں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved