مریم نواز کی تقریروں سے ظاہر ہوتا ہے
کہ یہ شکست تسلیم کر چکے ہیں: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر سید شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''مریم نواز کی تقریروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ شکست تسلیم کر چکے ہیں‘‘ حالانکہ شکست کو کبھی تسلیم نہیں کرنا چاہیے بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ وہ کس دلیری کے ساتھ اپنی شکست سے انکار کر رہے ہیں جبکہ ہمارا طریق کار بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہے جبکہ ہم تو شکست کو بھی فتح سے تعبیر کر لیتے ہیں کہ جو اپنی اپنی ہمت اور توفیق کی بات ہے، اس لیے اگر وہ واقعی سمجھتے ہیں کہ وہ شکست کھا چکے ہیں تو انہیں اچھے بچوں کی طرح اپنی سرگرمیاں ختم کر دینی چاہئیں اور ہمیں مزید پریشان کرنے سے باز رہنا چاہیے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ٹویٹ پر گفتگو کر رہے تھے۔
بلاول اور مریم کے پاس عوام کو دینے کیلئے
جھوٹ کے سوا کچھ نہیں: شہباز گل
وزیراعظم کے معاونِ خصوصی شہباز گل نے کہا ہے کہ ''بلاول اور مریم کے پاس عوام کو دینے کیلئے جھوٹ کے سوا کچھ نہیں‘‘ حالانکہ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ عوام جھوٹ کے حوالے سے پہلے ہی کافی حد تک خود کفیل ہو چکے ہیں اور حکومت کے مہیا کئے گئے جھوٹ پر ہی ان کا ٹھیک ٹھاک گزارہ ہو رہا ہے جس کے بعد باقی سب کچھ ان کے نزدیک غیر ضروری ہو جاتا ہے، اس لیے ان دونوں کو چاہیے کہ عوام کو وہ چیز دیں جو اُن کے پاس نہیں ہے اور جس کی انہیں ضرورت بھی ہے مثلاً وہ انہیں کرپشن، دھوکا دہی اور لوٹ مار کے طریقے بتا سکتے ہیں جس میں اگرچہ ہمارے کچھ لوگ بھی کافی ہنرمند ہیں لیکن اس فن میں ابھی طاق نہیں ہوئے ہیں۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں بلاول کے بیان پر اپنا رد عمل ظاہر کر رہے تھے۔
کراچی انکوائری پر وزیراعظم مستعفی ہوں: حافظ حمد اللہ
جمعیت علمائے اسلام کے رہنما حافظ حمد اللہ نے کہا ہے کہ ''کراچی انکوائری پر وزیراعظم کو مستعفی ہو جانا چاہیے‘‘ کیونکہ ہم اپنے شور و غوغا سے تو انہیں مستعفی ہونے پر مجبور نہیں کر سکتے اس لیے اخلاقی طور پر انہیں خود ہی اس بات کا خیال اور لحاظ رکھنا چاہیے کہ یہ جو ہم اتنے عرصے سے دھرنے‘ جلسے کر رہے ہیں‘ کچھ اس کا پاس کر لیں اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے تو کم از کم کراچی رپورٹ پر ہی کچھ فرض شناسی کا مظاہرہ کرنا چاہیے کیونکہ اگر ملک کا وزیراعظم فرض شناسی نہیں دکھائے گا تو یہ خوبصورت روایت ہی ختم ہو کر رہ جائے گی جبکہ ہم اپنی درخشندہ روایات ہی کے بل بُوتے پر گزر بسر کر رہے ہیں۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں گفتگو کر رہے تھے۔
انتقام کا وقت جلد گزر جائے گا: نواز شریف
مستقل نااہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''انتقام کا وقت جلد گزر جائے گا‘‘ کیونکہ مقدمات میں سزایابی کے بعد مزید انتقام کی ضرورت نہیں رہے گی، اس لیے فیصلے کی گھڑی کا انتظار کرنا ہی بہتر ہو گا جبکہ میں کافی پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتقام کی اس فضا سے نکل آیا ہوں اور آپ کو بھی مناسب وقت پہ یہ کارنامہ سر انجام دے لینا چاہیے تھا اور اس کوتاہی پر آپ پچھتا بھی رہے ہوں گے، لیکن جب چڑیاں کھیت چگ جائیں تو پھر پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا، جبکہ میری اگلی منزل امریکا ہو گی یا کوئی اور ملک۔ آپ اگلے روز سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے ساتھ گفتگو کر رہے تھے۔
حکمران کوئی اور‘ عمران صرف کرسی پر بیٹھے ہیں: مریم نواز
مستقل نااہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی سزا یافتہ صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''حکمران کوئی اور ہے‘ عمران خان صرف کرسی پر بیٹھے ہیں‘‘ جبکہ ہمیں بھی حکمرانی کا کوئی شوق نہیں صرف کرسی پر بٹھا دیا جائے، ہمارے لیے یہی کافی ہے کیونکہ پہلے بھی ہم تین بار صرف کرسی پر ہی بیٹھے تھے، حکمران وہی تھے‘ جو آج ہیں اس لیے انہیں اپنی روایات کا پاس کرتے ہوئے مجھے کرسی پر بٹھانے میں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے کہ میں جو ایک عرصے سے کوششوں میں ہوں بلکہ سب کو ساتھ لے کر بند گلی میں داخل ہو چکی ہوں، مجھے اس بند گلی سے بحفاظت نکالا جا سکتا ہے۔ آپ اگلے روز گلگت میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کر رہی تھیں۔
ماہنامہ الحمرا لاہور
اسے ہمارے دوست شاہد علی خاں شائع کرتے ہیں۔ موجودہ شمارہ اکتوبر 2020ء کا ہے جو عام شماروں سے صفحات میں زیادہ ہے۔ ٹائٹل حسبِ معمول اسلم کمال نے بنایا ہے۔ تخلیق کاروں میں پروفیسر فتح محمد ملک، ڈاکٹر خورشید رضوی، محمد اکرم چغتائی، ڈاکٹر سیتہ پال آنند، ڈاکٹر اے عبداللہ، فخر زمان، ڈاکٹر ناصر عباس نیّر، پروفیسر حسن عسکری کاظمی، مسلم شمیم، پروفیسر غازی علم الدین، نسیم سحر، ڈاکٹر اشفاق احمد ورک، ڈاکٹر تنویر حسین اور دیگران شامل ہیں۔ جبکہ سلسلۂ شعر میں نظم سیتہ پال آنند، قیصر نجفی، بشریٰ رحمن، ڈاکٹر جواز جعفری اور دیگران شامل ہیں۔ ان کے علاوہ جمیل یوسف، عذرا اصغر، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، شیبہ طراز عدم، نذیر قیصر، کرشن کمار طور، طالب انصاری، شوکت کاظمی و دیگران۔ افسانوں میں بریگیڈیئر (ر) حامد سعید اختر، بلقیس ریاض، سلمیٰ اعوان۔ گوشۂ مزاح میں ڈاکٹر بدر منیر اور راشد لاہوری۔ اس کے علاوہ تبصرے ہیں۔
اور‘ اب آخر میں نعیم ضرار کی شاعری
مشکل کے تسلسل کو ہیں احباب ضروری
اسباب کی دنیا میں ہیں اسباب ضروری
جس بستی میں دریا کے ہوں کمزور کنارے
ہو جاتا ہے اُس کے لیے سیلاب ضروری
میں اُس سے تخاطب کے مزے لیتا ہوں دراصل
ہر ایک دعا کا نہیں ایجاب ضروری
لہجے سے ہی مفہوم سمجھ لیتا ہوں اکثر
میرے لیے ضمنی سے ہیں اعراب ضروری
خود کو میں تری یاد کے بستر پر سلا کر
تکتا ہوں وہیں سے میں وہی خواب ضروری
اس چہرۂ بے مثل کی میں کیا دیتا مثالیں
اب سمجھا ہوں کیوں تھا کوئی مہتاب ضروری
٭......٭......٭
جب کوئی گھر بنانا پڑتا ہے
تنکا تنکا لگانا پڑتا ہے
اچھے دن خود بخود نہیں آتے
اُن کو جا کر کمانا پڑتا ہے
وہ بظاہر ہے سامنے لیکن
درمیاں اک زمانہ پڑتا ہے
خود کو واپس تمہاری یادوں سے
کھینچ کر مجھ کو لانا پڑتا ہے
عشق رہتا ہے پھر تنِ تنہا
دل سے سب کچھ ہٹانا پڑتا ہے
آج کا مطلع
کچھ اور ہی طرح کی روانی میں جا رہا تھا
چراغ تھا کوئی اور پانی میں جا رہا تھا