پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے وزیر اعظم پاکستان اور صدرِ مملکت سمیت دیگر وزرا کو بیرونِ ملک دوروں کے دوران ملنے والے تحائف کی نیلامی کا فیصلہ کیا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی قومی کفایت شعاری کا اعلان کیا تھا اوراقتدار میں آنے کے بعد وزیر اعظم دفتر کے زیر استعمال رہنے والی تقریباً 100 سے زائد لگژری گاڑیوں کی نیلامی کی تھی۔ اب توشہ خانہ کے تحائف کی نیلامی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ پاکستان کے کسی بھی سربراہِ مملکت‘ صدر‘ وزیراعظم یا اعلیٰ عہدیدار کو غیر ملکی سربراہان، حکومتوں یا کسی بھی نیشنل و ملٹی نیشنل کمپنی کی جانب سے تحفے میں ملنے والی اشیا کی نیلامی کے لئے اخبارات میں باقاعدہ اشتہارات دیے جاتے اور اس نیلامی میں حصہ لینے کیلئے عوام اور خواص سب کو اجا زت دی جائے لیکن اس کے برعکس بیورو کریسی کے اَن دیکھے اور آپس میں ملی بھگت کے چکروں اور اپنے ہی ہاتھوں سے گھڑے گئے ضابطوں نے ایک عجب اصول وضع کر رکھا ہے کہ توشہ خانہ میں جمع کرائی گئی اشیا کی نیلامی میں صرف اعلیٰ سرکاری اور فوجی افسران ہی حصہ لے سکتے ہیں۔
ابھی تو ان اشیا کی نیلامی ہو رہی ہے جو وزیراعظم عمران خان اور پی ٹی آئی حکومت کو غیر ملکی سربراہان نے بطورِ تحفہ پیش کی تھیں‘ لیکن بدقسمتی کہہ لیجئے کہ اس سے پہلے تو خیر سے اس ملک عزیز میں ایسے صدور اور وزرائے اعظم بھی رہے ہیں جو غیر ملکی سربراہان سے ملنے والے تحائف ذاتی مال سمجھ کر گھر لے گئے۔ قریب ایک دہائی قبل ملک کے غریب اور سیلاب سے تباہ حال عوام کے دکھوں کے مداوے کیلئے فنڈ ریزنگ مہم شروع ہوئی تو ایک دوست ملک کے سربراہ پاکستان میں سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کی خبریں اور مناظر دیکھ کر بہت دل گرفتہ ہوئے، اپنی اہلیہ کے ہمراہ جب وہ پاکستان کے جنوبی علا قوں میں پہنچے تو اس دوست ملک کی خاتونِ اول سیلاب سے بدحال غریب عورتوں اور بچوں کی حالت زار دیکھ کر اس قدر افسردہ اور آبدیدہ ہو گئیں کہ انہوں نے اپنے گلے میں پہنا ہوا بیش قیمت ہار اتار کر اپنے ساتھ کھڑے وزیراعظم کو دے دیا کہ اسے بیچ کر ان خواتین کی مدد کی جائے لیکن وہ ہار ہمارے اس وقت کے وزیراعظم صاحب کی اہلیہ کو ایسا پسند آیا کہ انہوں نے وہ قیمتی ہار اپنے گلے کی زینت بنا لیا۔ اور ایک عرصے تک ان کا دل اسے اتارنے یا واپس کرنے پر مائل ہی نہیں ہو سکا۔ وہ تو بھلا ہو میڈیا کا کہ اس نے اس دکھ بھری کہانی کی خبر ہونے پر وہ شور مچایا کہ پھر لینے کے دینے پڑ گئے اور انہیں وہ ہار واپس کرنا پڑا۔ اب وہی سابق وزیراعظم اپوزیشن کے جلسوں اور پریس کانفرنسوں میں وزیراعظم عمران خان پر نااہلی کے الزامات لگاتے ہوئے سنے اور دیکھے جا رہے ہیں۔ لگتا ہے کہ ان کی نظروں میں بیوقوف وہی ہے‘ جو بہتی گنگا میں نہانے سے پرہیز کرتا ہے۔ اس وقت بھی ملک کی ہمارے کچھ سابقہ حکمرانوں کو ملنے والے بہت سے قیمتی اور نایاب تحائف کو ملکی توشہ خانہ کے حوالے کرنے کے بجائے اپنے ذاتی استعمال میں لانے پرچند ریفرنسز دائر ہیں جن کی سماعت جاری ہے۔ ملکی میڈیا پر بھی اس سلسلے میں کچھ عرصے سے کافی دھوم مچی ہوئی ہے کہ توشہ خانے میں کی گئی کچھ ہیرا پھیریوں میں مبینہ طور پر ایک سابق صدر اور وزیراعظم بھی شامل ہیں۔ توشہ خانے کیس میں نامزد سابق وزیراعظم‘ جنہیں معزز سپریم کورٹ نااہل قرار دے چکی ہے‘ اس وقت احتساب عدالت سے اس مقدمے میں اشتہاری بھی قرار دیے جا چکے ہیں جس کے اشتہارات ایک دوسرے مقدمے کے حوالے سے ان کی لندن اور جاتی امرا کی رہائش گاہوں پر چسپاں کیے جا چکے ہیں۔
جب ایک قانون اور اصول آئین پاکستان کی رو سے واضح کیا جا چکا ہے کہ آپ بے شک اس ملک کے صدر ہیں یا وزیراعظم کے عہدہ پر براجمان ہیں‘ آپ کے کسی ملک یا اس کے سربراہ سے ذاتی تعلقات یا دوستی بھی ہے‘ اس کے باوجود کسی بھی غیر ملکی سربراہ یا حکومت سے آپ کو اندرونِ ملک یا بیرونِ ملک کوئی بھی معمولی یا قیمتی تحفہ پیش کیا جاتا ہے تو یہ آپ کی ذات کیلئے نہیں بلکہ مملکت پاکستان کیلئے تصور کیا جائے گا اور اس سلسلے میں ملنے والی تمام اشیاء آپ ملکی خزانے یا توشہ خانے کے حوالے کرنے کے پابند ہیں۔ جمع کرائی گئیں یہ تمام اشیا کیبنٹ ڈویژن کی ملکیت ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود اگر کوئی تحفے میں ملنے والی اشیا کو دیکھ کر یا ان کی قیمت اور وقعت سے مرعوب ہوتا ہے اور ان اشیا کو توشہ خانے کے حوالے کرنے کے بجائے اپنے یا اپنے اہلِ خانہ کے استعمال میں لاتا ہے تو وہ امانت میں خیانت کا مرتکب ہو گا اور یہ فعل غیر قانونی‘ غیر آئینی اور قابلِ تعزیز جرم تصور ہو گا۔ نہ صرف سربراہانِ مملکت بلکہ وزرا کو ملنے والے تحائف کو بھی توشہ خانہ میں جمع کروایا جاتا ہے جس کے بعد سٹیٹ بینک سے باقاعدہ اس کی بازار میں قیمت کے مطابق مالیت کا تعین کیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے قانون یہ بھی کہتا ہے کہ اگر ان تحائف کی مالیت 30 ہزار روپے سے کم ہو تو وزیراعظم، صدر یا وزیر جسے بھی یہ تحفہ ملا ہوتا ہے‘ اسے توشہ خانہ قوانین کے مطابق مفت دینے کی پیشکش کی جاتی ہے؛ تاہم اگر اس کی مالیت 30 ہزار سے زیادہ ہو تو وہ اس تحفے کی مالیت کی سبسڈائزڈ قیمت ادا کر کے تحفہ رکھا جا سکتا ہے وگرنہ یہ ریاست کی ملکیت تصور ہوتا ہے۔
حکومت پاکستان کیبنٹ سیکرٹریٹ نے 26 اکتوبر 2020ء کو UO نمبر8/2020TK کے تحت ایک خط جاری کیا ہے جس میں وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کو ایک دوست ملک کے سربراہ سے ملنے والی گھڑی اور دیگر 170قیمتی اشیا کی نیلامی کیلئے23 نومبر کی تاریخ مقرر کی ہے۔ نیلامی میں رکھی گئی اشیا میں مہنگی گھڑیاں، سونے اور ہیرے سے بنے زیوارت، مخلتف ڈیکوریشن ایشیا، ہیرے جڑے قلم، کراکری اور قالین وغیرہ شامل ہیں۔ مراسلے کے مطابق 23نومبر تک نیلامی کیلئے پیشکش ایک بند لفافے میں وصول کی جائے گی اور ان تمام پیشکشوں کو 25 نومبر کو کھولنے کے بعد منظوری دی جائے گی لیکن اس میں ایک شرط رکھی گئی ہے کہ یہ تمام پیشکشیں حکومت پاکستان اس صورت میں قبول نہیں کرے گی اگر بولی مقرر کردہ رقم سے کم ہو۔ با خبر ذرائع بتاتے ہیں کہ اس سلسلے میں اکثر ایسا ہوتا آیا ہے کہ مناسب قیمت نہ ملنے پر کچھ عرصہ بعد اس کی سرکاری قیمت یہ کہتے ہوئے کم کر دی جاتی ہے کہ یہ تحفہ مقرر کی گئی قیمت نہ ملنے کی وجہ سے ضائع ہو رہا ہے کیوں نہ اس کی قیمت مزید کم کر دی جائے؟ اس طرح کچھ عرصے بعد اسے من پسند قیمت پر ہتھیا لیا جاتا ہے۔ دوسری جانب اس مراسلے میں یہ شرط بھی رکھی گئی ہے کہ'' اس نیلامی میں سرکاری اور فوجی افسران ہی حصہ لے سکیں گے‘‘۔ اطلاع ہے کہ کیبنٹ ڈویژن نے تمام وفاقی محکموں کے سیکرٹریز، ایڈیشنل سیکرٹریز اور تمام وزارتوں کے انچارج صاحبان کے نام یہ خط جاری کرتے ہوئے توشہ خانہ کی ان تمام اشیاء کی فہرست ان کے تخمینۂ قیمت کے ساتھ بھیج دی ہے۔
یہاں میرا سوال یہ ہے کہ ان قیمتی تحائف کی نیلامی میں صرف حکومت کے سول اور فوجی افسران کو ہی حصہ لینے کا حق کیوں دیا گیا ہے؟ اس ملک کے عوام کو اس حق سے کیوں محروم رکھا جاتا ہے؟ کیا ان سرکاری افسران کے پاس اتنے وسائل ہو سکتے ہیں کہ وہ ایک کروڑ 75 لاکھ روپے ریزرو پرائس کی گھڑی کی نیلامی میں حصہ لے سکیں جس کی قیمت بولی میں ممکن ہے کہ دو کروڑ روپے سے بھی اوپر چلی جائے؟