کتنی اچھی خبر ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے مالی سال 21-2020ء کی پہلی سہ ماہی میں ہدف سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کیا ہے۔ جولائی سے اکتوبر 2020ء تک کا ٹیکس ہدف 970ارب روپے تھاجبکہ حکومت نے 1002 ارب روپے کا ٹیکس اکٹھا کیا ہے۔ یہ کیسے ہوا اور اس کے پیچھے کیا محرکات ہیں‘ آئیے ایک نظر ان پر ڈالتے ہیں!
ہدف سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کرنے کی ایک وجہ لاک ڈاؤن میں نرمی بھی وجہ ہو سکتی ہے۔ جولائی سے ستمبر تک کورونا کیسز میں کمی واقع ہو رہی تھی جس کے باعث تمام کاروبار مرحلہ وار کھول دیے گئے اور اکنامک ایکٹویٹی یعنی معاشی سرگرمیاں پہلے سے بہتر ہو گئیں۔ اگر گاڑیوں کے سیکٹر کی بات کی جائے تو ستمبر کے مہینے میں 13882 یونٹس کی سیل کے ساتھ پچھلے سال کی نسبت اس میں 18 فیصد اضافہ ہوا ہے۔دو بڑی کمپنیوں کی سیل میں بالترتیب 106 فیصد اور 87فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اگر ماہانہ بنیادوں پر دیکھا جائے تو ستمبر کے مہینے میں اگست کی نسبت گاڑیوں کی سیل میں بہتر اضافہ ہوا ہے۔ ایک کمپنی کی سیل میں 32فیصد اور دوسری کی سیل میں 20فیصد اضافہ ہوا۔اس کے علاوہ نئی آنے والی کمپنیوں میں ایک کمپنی کی 316گاڑیاں بکنے کے ساتھ سیل میں تقریباً ستر فیصد اضافہ ہوا۔ ایک کمپنی نے پندرہ سو یونٹس سیل کیے ہیں اور جنوری سے پروڈکشن کو ڈبل شفٹ تک لے جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ایک دوسری کمپنی نے ستمبر میں ایک لاکھ نو ہزار دو موٹرسائیکلیں فروخت کی ہیں جوکہ پچھلے سال کے مقابلے میں 45فیصد اضافہ ہے۔ پاکستان میں گاڑیاں بیچنے والی ایک کمپنی نے پہلی سہ ماہی کی رپورٹ جاری کی ہے جس میں 1.84 ارب روپے کا منافع دکھایا گیا ہے، جو پچھلے سال کے اسی عرصے میں 1.31 ارب روپے تھا یعنی یہ پچھلے سال کی نسبت 40.50 فیصد زیادہ ہے۔اس کے علاوہ سہ ماہی کے لیے ایک کمپنی کی نیٹ سیلز 65 فیصد اضافے کے ساتھ 34.19 ارب روپے رہی جو پچھلے سال کے اسی عرصے میں 20.72 ارب روپے تھی۔
اگر ٹریکٹرز کی بات کی جائے تو ستمبر کے مہینے میں سالانہ بنیادوں پر 12 فیصد اور اگست کی نسبت 45 فیصد اضافہ ہوا ہے۔پاکستان کے سب سے بڑے ٹریکٹر مینوفیکچرر کا پہلی سہ ماہی کا منافع 1.13ارب روپے رہا جو پچھلے سال اسی سہ ماہی کے مقابلے میں 219فیصد زیادہ ہے۔کمپنی کی سیل 8.5ارب روپے ہے جو پچھلے سال اسی سہ ماہی کی نسبت 67فیصد زیادہ ہے۔ دیگر آمدن میں 202فیصد اضافہ ہوا۔
اگر ٹیکسٹائل سیکٹر پر نظر دوڑائی جائے تو پچھلے سال کی نسبت مالی سال 21-2020 کے پہلے کوارٹر میں برآمدات 2.92فیصد بڑھیں۔ پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کی رپورٹ کے مطابق پچھلے سال پہلے کوارٹر میں 3.37ارب ڈالر کی برآمدات ہوئیں جبکہ اس سال 3.47ارب ڈالر کی ایکسپورٹ ہوئی ہے۔ ستمبر کے مہینے میں ریڈی میڈ کپڑوں کی برآمدات میں 5.24فیصد، نیٹ ویئر میں 10.46فیصد بیڈ ویئر میں 8.4فیصد، تولیے میں8.4فیصد اضافہ جبکہ کاٹن کے کپڑوں کی برآمدات میں 8.4فیصد کمی ہوئی ہے۔ ٹیکسٹائل سیکٹر میں لیڈنگ کمپنی کی پہلی سہ ماہی کے خالص منافع میں پچھلے سال کی نسبت 64.33فیصد اضافہ ہواہے۔یہ اعدادوشمار حوصلہ افز ہیں اور شایداسی وجہ سے ٹیکس ہدف حصول کے نتائج متاثر کن ہیں۔
آئیے ایک اور پہلو پر نظر ڈالتے ہیں۔پچھلے سال جب پاکستان میں شرح سود تقریباً 13فیصد تک پہنچی تو نفع بخش کاروبار بھی نقصان ظاہر کرنے لگے۔ 5فیصد سود ادا کرنے والی کمپنیوں کو جب 13فیصد یعنی ڈبل سے بھی زیادہ سود دینا پڑا تو بہت سے کاروباروں کو جاری رکھنا ممکن نہ رہا۔جب کاروبار پر دن رات محنت کرنے اور سینکڑوں مشکلات کے سامنے کے بعد دس سے پندرہ فیصد منافع ملتا ہواور شرح سود آٹھ فیصد سے بڑھ جائے تو وہ گھر کیا لے کر جائے گا۔ دوسری جانب بینکوں میں پیسے رکھنے سے منافع 13فیصد سے بھی زیادہ مل رہا تھا جس میں نہ کوئی محنت تھی‘ نہ ہی پیسہ ڈوبنے کا ڈر اور نہ ہی بے یقینی کی صورتحال لہٰذ ا چھوٹا کاروبار کرنے والے افراد نے کاروبار فروخت کیے اور سارا پیسہ بینکوں میں جمع کرا دیا۔اس فیصلے کے پیچھے کچھ حکومتی مجبوریاں تھیں مگر حکومت کو جیسے ہی موقع ملا‘اس نے شرح سود کم کرنا شروع کر دی اور جولائی کے مہینے میں یہ شرح چھ فیصد تک گر چکی تھی۔ پہلی سہ ماہی میں ٹیکس آمدن میں اضافے کی ایک نمایاں وجہ شرح سود میں کمی بھی ہے۔ شرح سود کم ہونے کے باعث بینکوں سے قرض لیے گئے، سرمایہ کاری کی گئی، کاروباری حجم اور کاروبار کی رفتار بڑھی۔اس کے علاوہ جن لوگوں نے کاروبار سے پیسہ نکال کر 13فیصد منافع حاصل کرنے کے لیے بینکوں میں رقم فکس کروا دی تھی‘ ان کی حوصلہ شکنی ہوئی۔ بینکوں میں رقم رکھنے میں کوئی کشش نہ رہی‘ بحالت مجبوری وہ رقوم بینکوں سے نکال کر کاروبار میں لگائی گئیں جس سے بزنس ایکٹیوٹی بڑھی۔جن افراد اور کمپنیوں نے بینکوں سے بھاری سود پر قرض لے رکھے تھے‘ انہیں اس موقع پر بہت زیادہ ریلیف ملا۔ خالص منافع میں اضافہ ہوا اور حاصل ہونے والی آمدن کو کاروبار بڑھانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ نتیجتاًحکومت کو زیادہ ٹیکس ملا اور ایک سہ ماہی کا ٹیکس ٹارگٹ بآسانی حاصل کر لیا گیا۔
ایف بی آر کو سب سے بڑا جو مسئلہ درپیش ہے‘ وہ غلط اعدادوشمار کی فراہمی ہے۔ خریدوفروخت کا نظام ڈیجیٹل نہ ہونے کی وجہ سے ٹیکس ڈپارٹمنٹ شدید مشکلات کا شکار ہے۔ کوئی کچھ بھی اعدادوشمار رپورٹ کر دے، ٹیکس اتھارٹیز کو اس پر یقین کرنا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ کوئی مضبوط ثبوت ہاتھ نہ لگے۔ ان مشکلات کے پیش نظر ایف بی آر نے تھوڑے سے شک کی بنیاد پر بھی چھاپے مارنے کی منصوبہ بندی کی ہے‘ جس کے مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ حال ہی میں ایف بی آر نے سیلز ٹیکس ایکٹ 1990ء کے سیکشن 38 اور 40 کے تحت جوتوں کے ایک مینو فیکچرنگ یونٹ پر چھاپہ مارا تو علم ہوا کہ وہ فیکٹری چوبیس گھنٹے چلتی ہے اور وہ جتنی بھی پروڈکٹس بناتی ہے‘ وہ ٹیکس کے زمرے میں آتی ہیں۔ خام مال کی خریداری سے لے کر بجلی کے استعمال تک ہر چیز ٹیکس نیٹ میں شامل ہے لیکن وہ 2015ء سے صفر سیلز ٹیکس ریٹرنز جمع کروا رہے ہیں یعنی کہ پچھلے لانچ سالوں سے وہ سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ ہیں اور اپنی سیل پر عام آدمی سے سیلز ٹیکس وصول کر رہے ہیں لیکن حکومت کو جمع نہیں کروا رہے۔ معمول کے منافع کے علاوہ 16فیصد سیلز ٹیکس بھی ان کے لیے منافع بن گیا یعنی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں۔ ایف بی آر نے فیکٹری کو بند کیا‘ بینک اکاونٹس کو بلاک کیا اور تفصیلی آڈٹ شروع کر دیا۔ اس کے علاوہ ٹیلی کام سیکٹر کی بڑی کمپنی کو مبینہ طور پر ٹیکس ادا نہ کرنے کی پاداش میں ایف بی آر کی جانب سے سیل کیا گیا۔اطلاعات کے مطابق ٹیکس ڈپارٹمنٹس کی جانب سے اس طرح کے کئی چھاپے مارے جا رہے ہیں اور گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے جو خوش آئند امرہے ۔ٹیکس کی وصولیوں کو گزرتے وقت کے ساتھ بہتر کرتے رہنا ایک مسلسل عمل ہے۔ یہ ایک دو ماہ یا سہ ماہی کا معاملہ نہیں۔ دوسری طرف یہ بھی واضح رہے کہ ایک مرتبہ کی کارکردگی پورے سال کی نمائندہ نہیں ہو سکتی لیکن امید ضرور بندھ جاتی ہے کہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کا آزمودہ فارمولا سامنے ہے اور اسی پر عمل کر کے مستقبل میں بھی بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔اگر حکومت بزنس کمیونٹی کو ریلیف دیتی رہی اورٹیکس کے حصول کے لیے ایف بی آرسخت کارروائی عمل میں لاتا رہا تو ٹیکس اہداف کا حصول مزید آسان ہو سکتا ہے۔