بات کیلئے تیار ہیں، شرط ہے
حکومت کو گھر بھیجا جائے: مریم نواز
مستقل نا اہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے کہا ہے کہ ''فوج سے بات کیلئے تیار ہیں، شرط ہے حکومت کو گھر بھیجا جائے‘‘ بشرطیکہ وہ بھی بات کرنے کے لیے تیار ہوں کیونکہ ہم پیپلز پارٹی سے پیچھے کیوں رہ جائیں جبکہ یہ بھی سنا ہے کہ ان کی فون پر بات بھی ہوئی ہے‘ جبکہ مجھے تو کبھی فون نہیں کیا گیا۔ ویسے بھی حکومت اپنی آدھی مدت پوری کر چکی ہے اس لیے بقایا آدھی پر ہم اپنا حق سمجھتے ہیں؛ اگرچہ ہم وہ آدھی بھی پوری نہیں کریں گے کیونکہ یہ سب کو معلوم ہے کہ ہمیں حکومت میں آتے ہی کچھ ایسا ہوتا ہے کہ ہم اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور جہاں تک والد صاحب کے بیانیے کا تعلق ہے تو سب کو معلوم ہے کہ ان کا ہر بیان سیاسی ہوتا ہے جس میں حقیقت کا دور دور تک کوئی نشان نہیں ہوتا جبکہ ویسے بھی اس عمر میں پہنچ کر ہر انسان دہائیاں ہی مارتا رہتا ہے اور جو منہ میں آئے کہہ دیتا ہے، اس لیے ان کی باتوں کا بُرا نہیں ماننا چاہیے جبکہ پیپلز پارٹی کی نیت پر تو ہمیں پہلے ہی شک تھا‘ اب انہوں نے ہمارے بیانیے سے لا تعلقی کا اظہار کر کے ہمیں تنہا کرنے کی
سازش کی ہے، اوپر سے حافظ حسین احمد صاحب نے بھی بیانیے کی کھل کر مخالفت شروع کر رکھی ہے جس پر ہمیں دوسری پارٹی سے بھی اپنی ساری خوش فہمیاں دُور کرنا پڑیں اور ایسے لگتا ہے کہ میں بالکل ہی اکیلی رہ گئی ہوں چنانچہ مجھے کہنا پڑا کہ قومی ادارے ہمارے اپنے ہیں اور امید ہے کہ یہ بیان سب نے پڑھ لیا ہو گا۔ اگر نہیں تو میں اخباری تراشہ بھجوانے کے لیے بھی تیار ہوں۔ اس لیے درخواست ہے کہ ہمارے سابقہ بیانات کو سنجیدگی سے نہ لیا جائے کہ آدمی کی زبان پھسل بھی سکتی ہے کہ آخر زبان ہی تو ہے اور بات چیت کے لیے میں نے جو حکومت کو ہٹانے کی شرط رکھی تھی‘ اُس جملے کو بھی سیاسی سمجھا جائے، اُدھر میں نے والد صاحب کو بھی پیغام بھجوا دیا ہے کہ براہِ کرم اپنا معائنہ بھی کرا لیں جس پر وہ ہر طرح کی رپورٹ بھی حاصل کر سکتے ہیں جو یہاں ہمارے بھی کام آ سکتی ہے جبکہ میں نے پارٹی سے بھاگے ہوئے اور بھاگنے والوں کے سامنے بھی یہی مؤقف اختیار کیا ہے کہ اول تو والد صاحب کے بیانات کو توڑ مروڑ کر سُنا گیا ہے جبکہ بصورت دیگر یہ بیانیے مجھے بھی اجنبی اجنبی سے لگنے لگے ہیں اور یوں بھی لڑائی جھگڑے کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتے؛ تاہم ان کی تائید کرنا میری مجبوری تھی کہ والد کا بیان کس کے لیے باعثِ مجبوری نہیں ہوتا۔ چنانچہ والد صاحب کے اور میرے بیانات آئندہ بھی سیاسی اور عارضی ہی ہوں گے اس لیے انہیں آئندہ بھی کوئی اہمیت نہ دی جائے تا کہ خیر سگالی کی جو فضا میں پیدا کرنا چاہتی ہوں اس میں پھر کوئی رخنہ نہ پڑ جائے۔ آپ اگلے روز بی بی سی کو انٹرویو دے رہی تھیں۔
مریم کو اپنی شکست نظر آ رہی ہے‘ اس
لیے دھاندلی کا شور مچا رہی ہیں: شبلی فراز
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر سید شبلی فراز نے کہا ہے کہ ''مریم کو اپنی شکست نظر آ رہی ہے، اس لیے دھاندلی کا شور مچا رہی ہیں‘‘ حالانکہ الیکشن میں کبھی کوئی دھاندلی نہیں ہوتی اور جس کی قسمت میں جتنے ووٹ ہوتے ہیں‘ اسے مل جاتے ہیں چاہے وہ کسی بھی طریقے سے ملیں‘ البتہ ووٹوں کی گنتی میں غلطی ہو سکتی ہے کیونکہ آدمی بندہ بشر خطا کا پتلا ہوتا ہے، اس لیے ان چھوٹی چھوٹی کوتاہیوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں الیکشن ایسے ہی ہوتے ہیں اور میں یہ ثابت کر سکتا ہوں‘ آپ امریکا کا الیکشن ہی دیکھ لیں۔ آپ اگلے روز مریم نواز کے بیان پر اپنے رد عمل کا اظہار کر رہے تھے۔
زیرِ آسماں
ہمارے دوست پروفیسر شاہد صدیقی کے کالموں کا یہ مجموعہ سنگِ میل نے چھاپا ہے۔ دیباچہ ہمارے ایک اور دوست فتح محمد ملک نے لکھا ہے جس کا آغاز وہ اس طرح سے کرتے ہیں ''پروفیسر ڈاکٹر شاہد صدیقی ہمارے ممتاز و منفرد ماہرِ تعلیم ہیں۔ وہ ایک مدت سے درس و تدریس کے ساتھ ساتھ تخلیقی اور تحقیقی شعبوں میں بھی سرگرمِ عمل چلے آ رہے ہیں۔ انگریزی اور اردو ہر دو زبانوں میں دادِ تصنیف و تالیف دینے میں منہمک ہیں۔ ادبیات اور لسانیات ان کا پسندیدہ موضوع ہے اور اس باب میں انہوں نے یادگار خدمات سر انجام دی ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ گزشتہ کچھ عرصے سے اردو صحافتی کالم نگاری کو بھی ادبیت اور علمیت کی شان بخشنے میں مصروف ہیں۔ ان کے کالموں کا زیر نظر مجموعہ نادر و نایاب موضوعات پر اپنے اور ہمارے شاندار ماضی کو از سر نو زندہ و پائندہ کر دینے کی تمنّا کا صورت گر ہے۔
پسِ سرورق تحسینی رائے دینے والوں میں افتخار عارف، محمد اظہار الحق، شکیل عادل زادہ اور رئوف کلاسرا شامل ہیں۔ انداز تحریر دلکش بھی ہے اور دلچسپ بھی۔ ادارہ سنگ میل اس قابلِ فخر پیشکش پر بجا طور پر مبارکباد کا مستحق ہے۔ ھل من مزید۔
اور‘ اب آخر میں ندیم ملک کی شاعری:
جب کوئی تھا ہی نہیں میرا حوالہ مرے دوست
تُو نے دیوار سے کیوں عکس نکالا مرے دوست
پہلے سو رنگ بھرے اُس نے مرے چہرے میں
پھر مرا چہرہ ہوائوں میں اچھالا مرے دوست
جانتا تھا وہ مرے ساتھ نہیں چل سکتا
پھر بھی جانے کے لیے وقت نکالا مرے دوست
اس قدر تیز ہوا تھی کہ بدن کانپ اٹھا
جب چراغوں کو دیا میں نے حوالہ مرے دوست
آئنے سے بھی کئی بار الجھ پڑتا ہوں
جب ترا عکس دکھاتا ہے نرالا مرے دوست
کُن سے پہلے بھی موجود تھا میں دنیا میں
تُو نے دیکھا ہی نہیں وقت کاآلہ مرے دوست
٭......٭......٭
باتوں باتوں میں یہاں رات بھی ہو سکتی ہے
رقص کرتے ہوئے برسات بھی ہو سکتی ہے
یہ الگ بات کہ ہم ایک نہیں ہو سکتے
یہ الگ بات الگ بات ہی ہو سکتی ہے
اے مرے وعدہ فراموش تجھے دھیان رہے
بعد مرنے کے ملاقات بھی ہو سکتی ہے
ہم کو منظور کہ ہم دشت نشیں ہیں مرے دوست
اس چمن میں گزر اوقات بھی ہو سکتی ہے
اس لیے گھر کو بدلنا ہی ضروری سمجھا
یار لوگوں کی یہاں گھات بھی ہو سکتی ہے
آج کا مطلع
کسی لرزتے ہوئے ستارے پہ جا رہا تھا
میں کوئی خس تھا مگر شرارے پہ جا رہا تھا