3 نومبر 2020ء کو ہونے والے امریکی صدارتی انتخاب کو جہاں 21ویں صدی کا پیچیدہ ترین انتخاب قرار دیا گیا‘ وہیں اس الیکشن میں ڈونلڈ ٹرمپ کی شکست نے نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ ٹرمپ21 ویں صدی کے پہلے صدر ہیں جو دوسری بار منتخب نہ ہو سکے اور انہیں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ یہ وہی ٹرمپ ہیں جن کی اپنے اقتدار کے دوران‘ بھارت و اسرائیل سے دوستی عروج پر رہی۔ جنہوں نے بھارتی دورے کے موقع پر احمد آباد میں کھڑے ہو کر برملا کہا ''میں ہندوئوں کو پسند کرتا ہوں‘‘۔ یہ وہی ڈونلڈ ٹرمپ ہیں جن کی پشت پناہی میں مودی نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے اسے ہتھیانے کی سازش رچائی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکا میں مسلمانوں کو بھی عتاب کا نشانہ بنایا جاتا رہا اور ٹرمپ نے بالخصوص مسلم ممالک کو اپنے نشانے پر رکھا۔ ٹرمپ کے جانے کے بعد یہ سمجھنا کہ اب دنیا میں امن قائم ہو جائے گا‘ تمام مسئلے حل ہو جائیں گے‘ فلسطین کو صہیونی قبضے سے نجات مل جائے گی‘ روہنگیا سمیت بھارت میں مسلمانوں پر ظلم و ستم کا سدباب ممکن ہو سکے گا‘ مسلمانوں کے دشمن نریندر مودی کے گرد گھیرا تنگ کر دیا جائے گا‘ مسلمانوں کے تئیں امریکی پالیسیوں میں تبدیلی دیکھنے کو ملے گی اور امریکا اپنے طاقت کے جنون کو کم کر دے گا‘ محض دیوانے کا خواب ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ امریکا نے پچھلی دو دہائیوں سے نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مسلم ممالک میں آگ اور خون کا کھیل کھیلتے ہوئے انہیں تہس نہس کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان جنگوں میں کئی ہزار ارب ڈالر پھونکنے کے باوجود امریکا بہادر کو کچھ حاصل نہ ہو سکا جبکہ دوسری جانب اس دوران خاموشی سے چین سپر پاور بننے کے قریب پہنچ گیا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ گزشتہ نصف صدی کے دوران دنیا میں جتنا قتل و غارت اور خون ریزی کا بازار امریکا نے گرم کئے رکھا، اتنا کسی اور نے نہیں کیا اور ٹرمپ کے جانے کے بعد امریکا کو اندرونی سطح پر خانہ جنگی، کمزور بالخصوص مسلم ملکوں میں مداخلت ،سنچری ڈیل کے نام پر مسلمانوں سے دھوکا دہی ، عرب‘ اسرائیل معاہدوں کی آڑ میں فلسطین پر صہیونی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کرنے اور ایران پر پابندیوں جیسے چیلنجز درپیش ہیں، ایسے میں نو منتخب صدر سے بہتری کی امید باندھنا کہ وہ امریکا کے اس جنگی جنون سے دنیا کو نجات دلائیں گے‘محض خام خیالی ہے۔ افغانستان سے امریکی انخلا کے فوری بعد وہاں طالبان کے حکومت میں واپسی کے امکانات روشن ہیں جس سے افغانستان میں طالبان سے خائف قوتیں مسلسل ایسے حالات بنانے میں سرگرمِ عمل ہیں کہ امریکی فوج افغان سرزمین سے نہ جانے پائے۔ اب دیکھنا ہے کہ نومنتخب امریکی صدر کی کیا حکمت عملی ہوتی ہے کیونکہ ڈیمو کریٹ پارٹی اپنے آپ کو چاہے جتنا مرضی لبرل اور سیکولر کہہ لے‘ مسلمانوں کے حوالے سے اس کی پالیسی بھی ویسی ہی ہے جیسی ریپبلکن پارٹی کی۔
اگرچہ یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ ٹرمپ کی شکست فاش سے اسرائیلی و بھارتی وزرائے اعظموں کو شدید دھچکا لگا ہے۔ ٹرمپ کے دبائو کے تحت ہی چند مسلم ملکوں نے غیر قانونی یہودی مملکت کو تسلیم کیا تھا‘ اس اقدام سے فلسطینی تحریک آزادی کو شدید اور ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا۔ صدارتی الیکشن سے ایک ہفتہ قبل بھارت سے سیٹلائٹ (بی ای سی اے) کا معاہدہ دنیا میں جنگی جنون کو بڑھاوا دینے اور ہتھیاروں کی نہ ختم ہونے والی دوڑ شروع کرنے کے مذموم سلسلے کی ہی ایک کڑی ہے؛تاہم جوبائیڈن کی جیت سے مودی سرکار کو ایک طرح سے ا ٓدھی ہار کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ درست ہے کہ مودی نے ٹرمپ کی کمپین میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ،سربراہِ مملکت کے لیے موجود تمام ضابطے توڑ کر ٹرمپ کی بطورِ امیدوار حمایت کی اور اس بدولت خطے میں اپنے لیے سٹرٹیجک اور دفاعی مقاصد بھی حاصل کیے لیکن بھارت شاید جانتا نہیں کہ جنوبی ایشیا میں امریکی سامراج کی پالیسیاں دوستیوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ ضرورت کے تحت ترتیب دی جاتی ہیں۔
امریکا کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک بالخصوص آسٹریلیا اور فرانس اسلامو فوبیا میں اتنے آگے بڑھ چکے ہیں کہ انہیں نہتے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم نظر ہی نہیں آ رہے۔ گوانتا نامو اور ابوغریب جیلوں میں مقدس کتب کے ساتھ توہین آمیز سلوک سے مسلمانوں کے جذبات کو جو ٹھیس پہنچائی گئی‘ وہ اسلامو فوبیا ہی کا شاخسانہ تھا۔ روہنگیا سے فلسطین اور شام سے مقبوضہ کشمیر تک‘ مسلمانوں پر ظلم و جبرکے جو پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اس پر اقوام عالم نے مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ گستاخانہ خاکوں کے خلاف پُرامن احتجاج کرنے والے مسلمانوں کو دہشت گردی سے نتھی کر کے ان کے خلاف گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ شام سے لے کر یمن، افغانستان سے لے کر عراق، میانمار سے لے کر فلسطین اور لیبیا سے لے کر کشمیر تک‘ ہرجگہ نہتے مظلوم مسلمانوں کو بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔ اسلامی دنیا کی نمائندہ تنظیمیں اور فورمز بھی سوائے میٹنگیں کرنے کے‘ کوئی بھی نمایاں کارنامہ سر انجام نہیں دے سکے۔
اس وقت بھارتی جنونیت علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کیلئے سنگین خطرات پیدا کررہی ہے۔ بھارت‘ جو کشمیر پر اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی کو آگے بڑھاتے ہوئے جموں اور لداخ کو ہڑپ کرچکا ہے‘ اب اس کا ٹارگٹ پاکستان سے ملحقہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقے ہیں لیکن پاک افواج بھی وطن کے تحفظ کے اپنے فرض سے غافل نہیں اور ہمہ وقت چوکس اور تیارہیں۔ عالمی قیادتوں نے جس طرح بھارت کے معاملے میں مصلحتوں کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے‘ اس سے بھارتی جنونیت اور انتہا پسندی کو مزید فروغ ملا ہے اور یہ روز بروز بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔اب ضروری ہو گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے ذریعے بھارت پر عالمی اقتصادی پابندیاں عائد کروائی جائیں‘ یہ وقت کا ناگزیر تقاضا ہے تاکہ ہندوتوا کی نمائندہ‘ بھارت کی موجودہ مودی سرکار کے توسیع پسندانہ عزائم کو لگام دے کر‘ اس کے ہاتھوں علاقائی اورعالمی امن و سلامتی کو بربادی سے محفوظ بنایا جاسکے۔
انتہا پسند مودی سرکار بھارت میں مسلم نسل کشی کے ایجنڈے پر گامزن ہے۔ہندو انتہا پسندوں کی نمائندہ ''آر ایس ایس‘‘ کی ترجمان بھارت کی مودی سرکار نے مسلم دشمنی کی تمام حدیں عبور کرلی ہیں۔ پاکستان کی سلامتی تاراج کرنے کی نیت سے کشمیر کو مکمل طور پر ہڑپ کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ آزاد کشمیر اور پاکستان کے اندرونی علاقوں میں بھارت دہشت گردانہ کارروائیاں کروا کر خطے کے امن کو تباہ کر رہا ہے۔بھارت میں سی اے اے اور این سی آر نامی مسلم مخالف قوانین اور اقدامات کئے گئے ‘ جن کی آڑ میں اقلیتوں کی مذہبی آزادی سلب کر لی گئی۔رواں سال سکھوں کو بھی ان کے روحانی پیشوا بابا گورونانک کی 550ویں سالگرہ کی کرتارپورہ گوردوارہ میں منعقدہ تقریبات میں شرکت کی اجازت بھی نہیں دی گئی جس سے مودی سرکار کی ضد ، ہٹ دھرمی اور تخصیصی سلوک کی غمازی ہوتی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کرتار پور راہداری کے کھلنے سے بھارت میں بسنے والے کروڑوں سکھوں کے اس خواب کو تعبیر ملی‘ جو وہ نصف صدی سے زیادہ عرصے سے دیکھ رہے تھے۔ بھارت پہلے دن سے ہی اس منصوبے کو متنازع بنانے کی کوششوں میں ہے ۔ توجہ طلب بات یہ ہے کہ بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پرمظالم ڈھائے جارہے ہیں اور ان کی شناخت ختم کرنے کیلئے ناپاک اقدامات کئے جارہے ہیں، اس سے یہ خدشہ جنم لیتا ہے کہ بھارت مسلمانوں کیلئے ایک اور اندلس بننے جارہا ہے۔
سپین میں مسلمانوں کے خاتمے کے حوالے ہندوستان کے فسطائیوں کی گہری دلچسپی رہی ہے اور انہوں نے اس کا مطالعہ اس غرض سے کیا تھا کہ بھارت میں اس کو دہرایا جا سکے۔ سپین میں مسلمانوں پر حملے اچانک شروع نہیں ہوئے تھے بلکہ شدت کے ساتھ ان کے خلاف کارروائیاں وقتاً فوقتاً جاری رہیں‘ عربوں کے بارے میں مشہور کیا گیا کہ وہ ملک دشمن ہیں اور انہوں نے سپین کو تباہ کر دیا ہے‘ آج بالکل اسی طرح بھارت میں ہو رہا ہے اور اس میں پولیس اور دیگر ریاستی ادارے خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ریاستی اداروں اور فاشسٹ غنڈوں کو مسلمانوں کے قتل عام کی کھلی چھٹی ہے۔ آج نریندر مودی کی سرپرستی میں ہندوستان میں مسلمانوں کو غدار اور نجانے کیا کچھ کہا جا رہا ہے، تعلیمی نصاب سے مسلم تاریخ کھرچ کھرچ کر خارج کی گئی ہے، آئے روز منظم مسلم کش فسادات رونما ہو رہے ہیں۔ مسلمانوں میں خوف کی کیفیت پیدا کرکے دفاع، افواج اور پولیس سے مسلمانوں کا صفایا کر دیا گیا ہے۔ سرکاری نوکریوں کے دروازے بھارتی مسلمانوں پر بند ہیں،اردو سکولوں کی بندش، اور تعلیمی اداروں سے اردو زبان کے کورسز پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ بھارت کے ہندو نازی اس وقت ہندوستان میں سپین کے منظر نامے کو دہرانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں کیونکہ ہندوئوں کے (نام نہاد ) اونچی ذات والوں کے لیے سب سے بڑی اقلیت کے طور پر مسلمان‘جو بھارت کی مردم شماری رپورٹ کے مطابق ملک کی مجموعی آبادی کا 14 فیصد ہیں‘ ایک بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری مودی کی خطے میں بڑھتی دہشت گردی کا نوٹس لیتے ہوئے بھارت کو مقبوضہ کشمیر کے دیرینہ مسئلے کے حل کے لئے مجبور کرے اور کشمیریوں سے کئے گئے وعدے کو پورا کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد یقینی بنانے پر زور دیا جائے تاکہ مسئلہ کشمیر کے حل کے ساتھ ساتھ '' سی پیک ‘‘اور'' ون روڈ ون بیلٹ‘‘ جیسے منصوبوں کی صورت میں اس خطے کے عوام کی ترقی وخوشحالی کے نادرمواقع سے بھرپور استفادہ کیا جاسکے۔