تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     14-11-2020

خیمے کے لباس اور لندن فلیٹ

میرے وطن کی فضائوں، سمندروں اور پہاڑوں سمیت اس کے ہر داخلی دروازے پر اپنی جان ہتھیلی پر لئے‘ دشمن کے بہت ہی قریب کسی مورچے میں پوزیشن لئے کھڑا سپاہی ہو یا دشمن کے علاقے میں خود کو کیمو فلاج کئے ہمارا اوپی‘ اسے بعض مخصوص بیانیوں اور چند جلسے جلسوں کے ذریعے بہکانے کی سازشیں کرنے والے یقینا ناکام ہوں گے‘ بلوچستان کے دہکتے صحرائی بارڈر ہوں یا سیاچن کے برف زار‘ مٹی سے وفا کی قسم کھانے والوں نے ہر میدان میں اپنی اہلیت منوائی ہے ۔ اس کے پیچھے وہ جذبہ ہے جو‘سر حد فقط ایک لکیر، دونوں اطراف ایک ہی جیسے لوگ اور ایک ہی خدا کوپوجنے جیسے بودے بیانات سے ڈگمگا نہیں سکتا۔ کبھی سوچا ہے یہ سبق دینے والا کون ہو سکتا ہے؟ وہی جو تاریخ سے بالکل نابلد ہیں، جن کا اس ملک کے قیام میں حصہ ذرہ بھر بھی نہ ہو۔ انہیں کیا خبر جسے یہ لکیر کہہ رہے‘ وہ سرحد کیسے عبور کی گئی؟ اسے پار کرنے میں کتنی عزتیں لٹیں؟ اس لکیر کو کراس کرکے پاکستان پہنچنے والوں نے کیا کیا لٹایا۔ اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے لاہور ضلع کچہری کے مجسٹریٹ چوہدری قادر بخش کی عدالت چلتے ہیں‘ جہاں جون 1948ء میں ایک عجیب و غریب مقدمے نے دھوم مچا رکھی تھی۔ لاہور بھر سے لوگوں کی بھاری تعداد اس مقدمے کی کارروائی دیکھنے‘ اور اس عورت اور مرد کو دیکھنے کے لئے ٹوٹ پڑی تھی جنہوں نے اپنے جسموں کے گرد خیمے کے کپڑے کا ٹکڑا لپیٹ رکھا تھا۔ بتایا جا رہا تھا کہ خیمے کے کپڑے کی چوری کے مقدمے میں پولیس نے انہیں والٹن مہاجر کیمپ سے گرفتارکیا ہے۔ مجسٹریٹ نے اس جوڑے سے پوچھا کہ آپ کو عارضی رہائش کے لیے دیے گئے خیمے کا کپڑا آپ نے کیوں چوری کیا؟ اس لٹے پٹے مہاجر جوڑے نے روتے ہوئے کہا: حضور والا! اگست 1947ء میں جب ہم دلّی کے اپنے آباد گھروں سے لٹے پٹے نکلے تو ہمارے پاس تھوڑا بہت زادِ راہ اور کچھ سامان تھا مگر جیسے جیسے ہم پاکستان کی جانب بڑھتے گئے‘ ہم پر کئی کئی بار ہندوئوں اور مسلح سکھ جتھوں کی جانب سے حملے کئے گئے‘ جن کا مقابلہ کرتے ہوئے میرے تینوں بیٹے راستے میں شہید ہو گئے۔ جب ہم اٹاری کے قریب پہنچے تو آخری حملے میں ہم دونوں کے سوا کوئی بھی فرد زندہ نہ بچ سکا۔ 
خاتون نے ہچکیاں بھرتے ہوئے کہا: میرا خاوند مجھے انتہا پسند ہندوئوں اور سکھوں سے بچاتے بچاتے زخمی ہو چکا تھا‘ نجانے کیسے گڑتے پڑتے ہم پاکستانی سرزمین میں داخل ہوئے۔ وہاں سے ہمیں والٹن کے مہاجر کیمپ میں پہنچا دیا گیا۔ جب ہم والٹن کیمپ میں پہنچے تو اس وقت ہم دونوں کے پاس صرف وہی جوڑا بچا تھا جو ہم نے پہنا ہوا تھا اور وہ دلی سے نکلنے کے بعد لڑتے بھڑتے‘ خون آلود ہونے کی وجہ سے یہ کافی بوسیدہ ہو چکا تھا۔ اسی ایک جوڑے کو گزشتہ ایک برس سے ہم پہنتے چلے آ رہے تھے۔ آج جب ہم عدالت میں پیش ہوئے ہیں‘ تو یہ جون کا مہینہ ہے‘ ہم گزشتہ دس‘ گیارہ ماہ مہاجر کیمپ میں مقیم ہیں۔ ہم دونوں ایک پڑھے لکھے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں‘ ہندوستان میں اگرچہ ہمارا کاروبار بڑا نہیں تھا مگر ہمارا کام معمولی بھی نہیں تھا لیکن اس مملکت کی آزادی کی خاطر ہم میاں بیوی اور ہمارے خاندان نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اپنا پورا خاندان اور کاروبار پاکستان کی خاطر قربان کرنے کے بعد‘ اب ہم اس مہاجر کیمپ میں بے یار و مددگار پڑے ہیں۔ جب سال پرانا خون آلود لباس پہننے کے قابل نہ رہا تو ہم نے حکومت کے دیے گئے خیمے سے کپڑا کاٹ کر اپنے جسموں پر لپیٹ لیا اور آج اسی جرم میں ہم بھری عدالت میں تماشا بنے کھڑے ہیں۔
اتنا کہنے کے بعد اس بوڑھی عورت نے اپنے جسم کے گرد لپیٹا ہوا خیمے کا کپڑا‘ جسے چوری کرنے کے جرم میں پولیس نے انہیں گرفتار کیا تھا‘ سامنے کرسی پر بیٹھے مجسٹریٹ کی جانب اچھال دیا۔ عدالت میں سناٹا چھا گیا اور مجسٹریٹ سمیت وہاں موجود سب لوگوں کی آنکھیں شرم سے جھک گئیں کیونکہ اس مہاجر عورت کا جگہ جگہ سے تار تار لباس اس کا جسم ڈھانپنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ پولیس ان کی جانب بڑھنے لگی تو اس خاتون نے چیختے ہوئے کہا ''آج ہم آپ لوگوں کے سامنے تماشا بنے کھڑے ہیں اور ہمیں اس کی وجہ بتاتے ہوئے بھی شرم آ رہی ہے کہ خون آلود بوسیدہ لباس بار بار دھونے کی وجہ سے چیتھڑوں میں بدل چکا ہے اور اب یہ ہمارا ستر چھپانے سے بھی قاصر ہے۔ خیمے کے اندر ہمیں ایک دوسرے سے شرم آنے لگی تھی اور نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ کیمپ سے نکل کر قطار میں لگ کر اپنا راشن لینا بھی ہمارے لئے مشکل ہو گیا تھا کہ اس حالت میں باہر کیسے نکلیں؟ دو دن شرم کی وجہ سے خیمے کے اندر گزارنے کے بعد جب بھوک سے ہماری حالت یہ ہو گئی کہ چلنے پھرنے سے بھی قاصر ہو گئے اور پانی اور غذا نہ ملنے سے ہمیں جان کے لالے پڑ گئے تو مجبوراً ہم نے خیمے کا کپڑا کاٹ کر اس سخت ترین گرمی میں اپنے گرد لپیٹ لیا جسے پہن کر ہم باری باری راشن لینے کیلئے باہر نکلنا شروع ہو گئے۔ کل کسی نے ہماری شکایت کر دی کہ ہم نے حکومت کے دیے گئے خیمے کا کپڑا چوری کر لیا ہے‘ اس پر پولیس ہم دونوں کو گرفتار کر نے پہنچ گئی اور آج عدالت کے سامنے پیش کر دیا۔ ہم چور نہیں‘ صرف مجبور ہیں‘‘۔ عدالت میں کوئی آنکھ ایسی نہیں تھی جو یہ دردناک کہانی سننے کے بعد اشک بار نہ ہو‘ اس جوڑے کو گرفتار کرنے والے پولیس افسران بھی خود سے نظریں چھپاتے پھر رہے تھے۔
آج کی نسل مگر یہ نہیں جانتی کہ قیام پاکستان کے 13 ماہ بعد جب لاہور والٹن میں مہاجرین سے اٹا ہوا مہاجر کیمپ ختم کیا گیا تو یہاں پر 19 ہزار نئی قبریں وجود میں آ چکی تھیں۔ کچھ عرصہ بعد طاقتور لوگوں اور کرپٹ سرکاری اہلکاروں نے تجاوزات کا بہانہ کرتے ہوئے یہاں زمین برابرکر دی اور خود اس جگہ پر قابض ہو کر بیٹھ گئے۔ ہندوستان سے پاکستان کی جانب بڑھتی ہوئی ریل گاڑیوں کے انجنوں اور بوگیوں کے اندر اور باہر‘ ایک ایک انچ پر کیڑوں مکوڑوں کی طرح چمٹے ہوئے مرد و خواتین کے مناظر مجھ سمیت اس ملک کے لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں نے نجانے کتنی بار اخبارات اور ٹیلی وژن کی سکرینوں پر دیکھ رکھے ہیں، شاید سوشل میڈیا پر نئی نسل کی نظروں کے سامنے سے بھی یہ روح فرسا مناظر گزرے ہوں‘ مگر ان تصاویر میں قید مناظر کے پیچھے چھپا درد صرف وہی محسوس کر سکتا ہے جو ان حالات سے دوچار ہوا ہو۔ قوم کو شاید وہ منا ظر بھی اکثر دیکھنے کو ملتے رہے جن میں پیدل‘ ننگے پائوں اور بیل گاڑیوں پر سوار لٹے پٹے قافلے بھارت سے لاہور کے واہگہ اور قصور کے گنڈا سنگھ بارڈر کی جانب امڈتے چلے آ رہے تھے اور وہ ریل گاڑیاں بھی‘ جن میں مردوں‘ عورتوں اور بچوں کو تلواروں، کرپانوں اور چھریوں سے کاٹ کاٹ کر پھینکا گیا تھا، شاید وہ عورتیں بھی دیکھی ہوں جن کے پیٹ چاک کر دیے گئے تھے اور وہ چند ماہ کے بچے بھی جنہیں نیزوں اور تلواروں کی نوکوں پر پرویا گیا تھا۔ ملک کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کے محافظوں کو طعنے دینے والوں اور قوم کی پیٹھ میں الفاظ کا چھرا گھونپنے والوں کو کیا خبر کہ یہ ملک کیسے حاصل کیا گیا، اس کی سرحد‘ اس کا بارڈر محض لکیریں نہیں بلکہ لاکھوں شہیدوں کے مزار ہیں جن کے اثرات و برکات آج بھی اس ملک پر سایہ فگن ہیں۔ لندن کے پُرتعیش فلیٹوں میں رہنے والوں کو کیا خبر کے وہ کیا حالات ہوتے ہیں جب خیمے کا کپڑا کاٹ کر تن ڈھانپا جاتا ہے۔ اس وقت جہاں قیام پاکستان کے وقت کے ان پانچ لاکھ سے زائد مرد و خواتین کی شہادتوں کو یادکرنا ہے‘ وہیں اس ملک اور اس کے وقار کو روندنے سے بچانے والوں کو احترام دینے کے ساتھ ساتھ اس دھرتی کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے سیاسی دہشت گردوں کا احتساب بھی کرنا ہو گا جنہوں نے ہمارے وطن عزیز کے حسن کو پامال کر کے رکھ دیا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved