تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     14-11-2020

کچھ بھی اچانک نہیں ہوتا

کبھی کبھی ہم غیر معمولی حد تک حیرت زدہ رہ جاتے ہیں کیونکہ اچانک ہی کچھ ایسا ہو جاتا ہے جو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔ کیا واقعی؟ اچانک بھی کچھ ہوسکتا ہے؟ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اچانک ہی کچھ ہوگیا ہے تو کیا ہم حقیقت بیان کر رہے ہوتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ کچھ بھی اچانک نہیں ہوتا۔ ہر معاملہ چند خاص منطقی مراحل سے گزرنے ہی پر کسی انجام تک پہنچتا ہے اور پھر وہ انجام ہمارے سامنے آتا ہے۔ کوئی بھی واقعہ چند ایسے مراحل پر مشتمل ہوتا ہے جنہیں کسی بھی درجے میں غیر منطقی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ قابلؔ اجمیری نے خوب کہا ہے ؎ 
وقت کرتا ہے پرورش برسوں/ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا 
زندگی کا سفر اِسی طور جاری رہتا ہے۔ ہر معاملہ چند خاص منطقی مراحل سے گزر کر انجام تک پہنچتا ہے۔ ہمیں زندگی بھر بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہر مسئلہ ہمارے پاس اِس طور آتا ہے کہ ہم تھوڑے بہت حیران ضرور ہوتے ہیں۔ کبھی آپ نے اس نکتے پر غور کیا ہے کہ کوئی بھی مسئلہ راتوں رات پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی راتوں رات پروان چڑھتا ہے۔ چند مخصوص حالات کسی بھی حادثے‘ واقعے یا مسئلے کو جنم دیتے ہیں۔ کوئی بھی معاملہ اپنے مقام پر پروان چڑھتا رہتا ہے اور پھر اچانک بے نقاب ہوتا ہے تو ہم حیران رہ جاتے ہیں۔ کوئی بھی بحرانی کیفیت اچانک بے نقاب ہوتی ہے‘ پیدا نہیں ہوتی۔ بہت سے عوامل مل کر کسی بھی بحرانی کیفیت کو پیدا کرتے ہیں۔ ہم عمر کے مختلف مراحل میں مختلف کیفیات سے گزرتے ہیں۔ اِسی بات کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ زندگی مختلف مراحل سے گزر کرپختہ ہوتی جاتی ہے۔ جب ہم غور کرتے ہوئے معاملات کی تہہ تک پہنچتے ہیں‘ تب اندازہ ہوتا ہے کہ کوئی بھی کام نہ تو اچانک ہوتا ہے اور نہ ہی غیر منطقی طور پر۔ بیشتر معاملات میں ہماری کوتاہی، تساہل یا تخمینے کی غلطی معاملات کو خراب کرتی ہے۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی معاملے میں ہم اپنی ذمہ داری فراموش کرتے ہوئے واقعات کو رونما ہونے دیتے ہیں اور پھر سلسلۂ واقعات بڑھتے بڑھتے ہمارے لیے ایک بڑے بحران کی شکل اختیار کرنے کے بعد اچانک سامنے آتا ہے اور ہم سوچنے لگتے ہیں کہ یہ راتوں رات کیا ہوگیا حالانکہ راتوں رات کچھ بھی نہیں ہوا ہوتا۔ کسی بھی بحرانی کیفیت کو راتوں رات رونما ہونے والی تبدیلی سمجھنا ہماری اپنی کوتاہی یا غلطی ہے۔ زندگی ہمارے لیے ہر اعتبار سے ایک بڑا معمہ ہے‘ جسے سمجھنا بھی لازم ہے اور سمجھانا بھی۔ ہم کسی بھی معاملے کو نظر انداز کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ بہت سے چھوٹے واقعات اگر نظر انداز کیے جائیں تو بحرانی کیفیت میں تبدیل ہوکر ہمارے لیے الجھنیں بڑھاتے ہیں۔ ایسا چونکہ زندگی بھر ہوتا رہتا ہے اس لیے سنجیدہ ہوکر اس مشکل کا تدارک کرنے پر مائل ہونا ایک بنیادی ضرورت ہے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے میں تساہل سے کام لینے کی گنجائش نہیں۔ یہ نکتہ ہر قدم پر ذہن نشین رہے کہ کوئی بھی معاملہ بلا جواز نہیں ہوتا۔ اپنے کم و بیش تمام معاملات کے لیے ہم ہی ذمہ دار ہوتے ہیں۔
ڈیل کارنیگی کا شمار اُن مصنفین میں ہوتا ہے جنہوں نے زندگی بھر زندگی کا معیار بلند کرنے سے متعلق مساعی کے بارے میں لکھا۔ ان کی تحریروں نے کروڑوں افراد کی زندگی کا رخ تبدیل کیا۔ڈیل کارنیگی پریشانی سے نجات پانے اور بہتر زندگی کے لیے سب سے بہتر تعلقات استوار کرنے کے طریقوں کے بارے میں لکھنے والوں میں سب سے آگے ہیں۔ انہوں نے لاکھوں افراد کو بہتر گفتگو اور تقریر کا فن سکھانے کے حوالے سے کلیدی نوعیت کا خدمات انجام دیں۔ ڈیل کارنیگی نے لکھا ہے کہ اپنے کسی بھی معاملے میں آپ قصور وار ہوں یا نہ ہوں‘ ذمہ دار آپ ہی ہوتے ہیں! یہ ایک بڑا نکتہ ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انسان چونکہ معاشرتی حیوان ہے اس لیے مل جل کر رہنے ہی کا نام زندگی ہے۔ جب ہم مل جل کر رہتے ہیں تو بہت سے ایسے معاملات بھی پیدا ہوتے ہیں جو ہماری مرضی کے نہیں ہوتے۔ سبھی کچھ ہماری مرضی کا ہو بھی نہیں سکتا۔ خیالات، طرزِ عمل اور حالات ‘ تینوں کا اختلاف یا تضاد ہمارے لیے مسائل پیدا کرتا ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے رہنے ہی میں زندگی کا اصل حُسن پوشیدہ ہے۔ اگر حالات مسائل پیدا کریں تو اُن سے لڑنے اور اُنہیں حل کرنے کا ایک اپنا مزا ہے کیونکہ ایسی صورت میں ہم اپنی صلاحیت و سکت کو آزما پاتے ہیں۔
کسی بھی معاملے کو غیر معمولی وسعت اختیار کرنے دینا یا نہ کرنے دینا ہمارے اختیار کی بات ہے۔ اگر پہلے مرحلے میں بات کو سمجھیں اور معاملات کو قابو میں رکھنے کی کوشش کریں تو خرابی کا گراف کبھی بلند نہ ہو۔ کبھی کبھی ماحول میں کوئی ایسی بڑی تبدیلی بھی رونما ہوتی ہے جس پر ہمارا کچھ اختیار نہیں کرتا‘ تب بھی معاملات کو درست رکھنے کی ذمہ داری ہماری ہی ہوتی ہے۔ سیاسی حالات معیشت اور معاشرت‘ دونوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ سلامتی کی صورتحال بھی خرابیاں پیدا کرکے ہمیں پریشان کرتی ہے۔ ایسے معاملات میں ہم خود کو بے بس پاتے ہیں مگر یہ بے بسی حالات کو پیدا ہونے سے روکنے میں ہوتی ہے، اصلاحِ احوال کا آپشن تو ہمارے پاس ہمیشہ رہتا ہے۔ جب تک زندگی ہے‘ تب تک مسائل ہیں، الجھنیں ہیں۔ ہم مسائل سے بھاگ کر کہیں نہیں جاسکتے۔ مسائل اس لیے ہوتے بھی نہیں کہ ان سے جان چھڑائی جائے۔ کوئی بھی مسئلہ اس طور حل نہیں کیا جاسکتا۔ پنڈت برج نارائن چکبستؔ نے خوب کہا ہے ؎
مصیبت میں بشر کے جوہرِ مردانہ کھلتے ہیں 
مبارک بزدلوں کو گردشِ قسمت سے ڈر جانا 
جب ہم معاملات کو نظر انداز کرنے کی روش پر گامزن ہوتے ہیں تب مسائل صرف پیدا نہیں ہوتے بلکہ پنپتے بھی چلے جاتے ہیں۔ یہ کیفیت زیادہ دیر رہے تو معمولی سے معاملات بھی بحرانی کیفیت کا روپ دھارلیتے ہیں۔ ذہن سے یہ تصور کھرچ کر پھینک دیجیے کہ کوئی بھی معاملہ اچانک پیدا ہوکر ہمارے سامنے آسکتا ہے۔ بیشتر معاملات میں ہماری اپنی کوتاہی یا تساہل ہی کے نتیجے میں کوئی خرابی اندر ہی اندر پنپتی ہے اور پھر جب وہ بے نقاب ہوتی ہے تو ہم حیران رہ جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے بیشتر مسائل کا تعلق ہماری اپنی عادات و اطوار سے ہوتا ہے۔ جب ہم اپنی اصلاح پر مائل ہوتے ہیں تبھی مشکلات گھٹتی ہیں۔ معیاری انداز سے جینے کے لیے لازم ہے کہ آپ اپنی سوچ، مزاج، عادات اور معمولات کو متوازن رکھیں۔ اس کی ایک بہتر صورت یہ ہے کہ کسی بھی مسئلے کو ابتدائی مرحلے میں شناخت کرنا سیکھیں۔ جب ہم کسی بھی مسئلے کو ابتدائی مرحلے میں حل کرنے پر مائل ہوتے ہیں تب وہ ہمارے لیے کوئی بڑی الجھن پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتا۔ کسی بھی بحرانی کیفیت کو ابتدائی مرحلے میں شناخت کرنے سے ہم خود کو کسی بھی ممکنہ صورتحال کا سامنا کرنے کے لیے تیار کرنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔
کائنات کا جو اصول فرد پر اطلاق پذیر ہوتا ہے وہی معاشروں اور ریاستوں پر بھی تو منطبق ہوتا ہے۔ کوئی بھی قوم جب معاملات کو سنجیدہ نہیں لیتی تب معاملات بگاڑ کی طرف جاتے ہیں۔ فرد کی طرح معاشرے بھی خرابیوں کو نظر انداز کرتے رہتے ہیں اور جب وہ منطقی حد تک پہنچنے کے بعد بے نقاب ہوتی ہیں تو پورا معاشرہ حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ ایسے مواقع پر مبتلائے حیرت رہنے کی زیادہ گنجائش نہیں ہوتی۔ بحرانی کیفیت کا بنیادی تقاضا یہ ہوتا ہے کہ اُس سے نجات پانے کی کوشش کی جائے۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر پنپنے کی یہی ایک معقول صورت ہے کہ مسائل کو اس وقت شناخت کیا جائے جب وہ بیج کی شکل میں ہوں۔ یہ بیج اگر مٹی میں دب کر پروان چڑھ جائے تو تناور درخت کی شکل اختیار کرکے ہمارا ناک میں دم کرتا ہے اور پھر بہت سے معاملات بلا جواز طور پر بگڑتے چلے جاتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved