تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     15-11-2020

تین دن بلوچستان میں …(2)

سخی سرور سے تھوڑا آگے جائیں تو پہاڑی سڑک شروع ہو جاتی ہے۔ سخی سرور سے آگے نکلے ہی تھے کہ سامنے سے دس بارہ ٹرکوں کا ایک قافلہ آگیا۔ ان سب پر گلابی رنگ کے پولی پراپلین کے بڑے بڑے بورے لدے ہوئے تھے۔ یہ سارے بورے پھٹی سے بھرے ہوئے تھے۔ اللہ کی شان ہے کہ بلوچستان سے پنجاب میں کپاس آ رہی تھی۔ اس کا پہلے کبھی تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا‘ لیکن اب ڈیرہ غازی خان کی کئی جننگ فیکٹریاں بلوچستان سے آنے والی کپاس پر چل پڑی ہیں۔ یہ ساری کپاس رکھنی اور بارکھان سے آ رہی ہے۔ بارکھان ضلع میں اس وقت ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً چالیس ہزار ایکڑ رقبے پر کپاس کاشت ہو رہی ہے۔ یہ کپاس اپنی کوالٹی کے اعتبار سے بہت شاندار ہے اور نہ صرف یہ کہ اس کا کن زیادہ ہے بلکہ اس کا ریشہ بھی اچھا ہے اور اس میں سانگلی اور پتی کی مقدار بھی بہت کم ہے۔ قارئین! معذرت خواہ ہوں کہ اوپر دو تین ایسی اصطلاحات لکھ دیں جو اس کاروبار میں مروج ہیں۔ کن سے مراد پھٹی سے روئی کی حاصل کردہ مقدار۔ زیادہ کن سے مراد ہے کہ جس پھٹی سے روئی نسبتاً زیادہ نکلے اور بنولہ کم نکلے تو اس پھٹی کا کن زیادہ ہے۔ اسی طرح سانگلی اور پتی سے مراد دراصل چنائی کے وقت پھٹی میں شامل ہو جانے والے کپاس کے سوکھے پتے اور کپاس کے ڈوڈے کی باقیات لی جاتی ہیں۔ بلوچستان کی کپاس کی مارکیٹ میں قیمت اس وقت پنجاب کی کپاس سے تقریباً پانچ سو روپے من زیادہ ہے۔ اسے آپ کوالٹی پریمیم کہہ سکتے ہیں۔
ڈیرہ غازی خان سے بلوچستان جائیں تو پنجاب کا آخری بڑا قصبہ فورٹ منرو ہے اور پولیس چیک پوسٹ بواٹہ ہے جبکہ بلوچستان کا پہلا بڑا قصبہ رکھنی ہے۔ یہاں ہمارے دوست میر طارق خان کھتران کا گھر اور ڈیرہ ہے؛ تاہم وقت کی قلت کے باعث اپنے اس سفر کی طارق خان کو کوئی خبر نہ کی تھی۔ رکھنی سے آگے کنگری سے ایک راستہ بارکھان جاتا ہے جو ادھر سے بلوچستان کا پہلا ضلع ہے اور یہاں کافی کاشتکاری ہورہی ہے۔ پانی اور بجلی کا مسئلہ نہ ہوتو یہ علاقہ مکمل سرسبز اور سبزیوں، پھلوں اور اناج کا گھر ثابت ہو سکتا۔ یہاں بجلی تقریباً دس گھنٹے آتی ہے اور چودہ گھنٹے غائب رہتی ہے۔ زیر زمین پانی کہیں تو دوسو فٹ نیچے ہے اور کہیں اس سے بھی زیادہ گہرائی پر واقع ہے جبکہ زمین سخت ہونے کی وجہ سے ٹیوب ویل کی کھدائی وغیرہ کافی دقت طلب کام ہے؛ تاہم، اب لوگ بورنگ کرکے ٹیوب ویل لگوا رہے ہیں اور زمین بھی آباد کررہے ہیں۔
ہمیں سفر میں کوئی خاص جلدی نہیں تھی۔ یہ بات طے تھی کہ ہم نے رات لورالائی میں گزارنی ہے اور یہاں ہماری شب بسری کا اہتمام برادر عزیز رستم لغاری نے کررکھا تھا۔ انتظام ایسا کہ کم از کم لورالائی میں بظاہر اس کا کوئی امکان نہیں تھا مگر رستم لغاری نے ایسا ممکن کردکھایا۔ راستے میں ہم ایک جگہ رکے اور ایک ہوٹل والے سے اپنا دودھ گرم کروا کر پیالوں میں ڈالا۔ میں نے اس کی کافی بنائی اور ڈاکٹر عنایت نے دودھ سے کام چلایا۔ دودھ، کافی اور پیک شدہ کپ کیک راستے میں بہت کام آئے۔ رات کا کھانا لورالائی شہر سے دو تین کلومیٹر پہلے ایک ڈرائیور ہوٹل پر کیا۔ سفر میں میرا یہ تجربہ ہے کہ سڑک کنارے ہوٹلوں میں جہاں زیادہ ٹرک کھڑے ہوں وہاں آنکھ بند کرکے چلے جائیں۔ آپ کو مایوسی نہیں ہوگی۔ ہم نے اندر جاکر اونچے تھڑے پر ڈیرہ لگا لیا۔ تھڑے پر دری بچھی ہوئی تھی۔ درمیان میں پلاسٹک کا دسترخوان تھا۔ ایک لڑکا پھرتی سے آیا اور جلدی جلدی دستیاب کھانوں کی تفصیل بتاکر خاموش ہوگیا۔ ڈاکٹر عنایت کہنے لگے: برخوردار! یہ سب کچھ ذرا آہستہ آہستہ بتا۔ پشتون لڑکے نے حیرانی سے سوال پر غور کیا؛ تاہم ڈاکٹر عنایت کے ہاتھ سے بریک لگانے کا اشارہ سمجھ کر ہمیں دوبارہ اپنا مینیو سنایا۔ ہم نے دال اور بلوچی روش کی دو پلیٹوں کا آرڈر دے دیا۔ ابھی میں گاڑی سے پانی کی اپنی بوتلیں لے کر بھی نہیں آیا تھاکہ وہ پھرتیلا لڑکا ایک بڑے تھال میں ہمارے آرڈر کے ساتھ دیگر سات آٹھ لوازمات سجاکر آن پہنچا۔ ہمیں ایسی پھرتی کی توقع نہیں تھی۔ دال کی ایک پلیٹ کے علاوہ دو مٹن روش تھے۔ دو پیالوں میں اس مٹن کا سوپ تھا۔ ایک پلیٹ مکس سبزی۔ ایک پلیٹ قیمہ ۔ ایک پلیٹ میں بھنڈی کا سالن۔ دو عدد دہی کے پیالے اور ایک سلاد کی پلیٹ۔ ہمارے آرڈر کے سوا تمام چیزیں چھوٹی چھوٹی پلیٹوں میں تھیں اور Complimentary ۔ سروس اتنی عمدہ کہ دل خوش ہوگیا۔ ابھی ایک ختم ہوئی تھی کہ وہ دوسری گرماگرم روٹی لے آیا۔ باریک اور سائز میں بڑی سی تنور کی گلابی پھولوں والی گرماگرم روٹی۔ ڈاکٹر عنایت نے کھانے کی ادائیگی کے ساتھ اس لڑکے کو اتنی ٹپ دی کہ پہلے وہ پریشان ہوا اور پھر بل دینے کے بعد دوبارہ واپس آیا اور ٹپ کی رقم ڈاکٹر عنایت کو واپس کردی۔ دوبارہ دی تو وہ انہیں کائونٹر پر لے گیا اور ٹپ کی رقم ہوٹل کے مالک کو پکڑا دی۔ ڈاکٹر عنایت کہنے لگے: یہ اس لڑکے کیلئے ہے۔ اس نے خوشی سے نہال ہوکر وہ پیسے ہوٹل کے مالک کے پاس امانت رکھوا دیئے۔ ایسا لذیذ کھانا کسی فائیو سٹار ہوٹل کے میزپر ملنا ناممکن تھا جو لورالائی کے ڈرائیور ہوٹل پر ہمیں نصیب ہوا۔
اگلی صبح ہم لورالائی سے سنجاوی روانہ ہو گئے۔ سنجاوی لورالائی سے تقریباً پینتیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ وہاں سے ہم مین روڈ کو چھوڑ کر بائیں طرف ہرنائی کی طرف مڑ گئے۔ ہرنائی سے ہمارا غائبانہ تعارف چھٹی ساتویں جماعت میں ہو گیا تھا جب پاکستان میں صنعتی کارخانوں کا پڑھتے تو ہرنائی وولن ملز کا ذکر ہوتا تھا۔ یہ بلوچستان میں لگنے والی سب سے بڑی وولن ملز تھی جو بھیڑ کی اون سے کپڑا بنانے کے لیے 1953 میں لگائی گئی۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ 1953 میں لگنے والی یہ شہرہ آفاق ملز 2006 میں بند ہو گئی تھی۔ تین ہزار سے زیادہ محنت کشوں کا روزگار اس ملز سے وابستہ تھا جو سب بیروزگار ہوگئے۔ شنید ہے کہ بلوچستان کی حکومت اس ملز کو دوبارہ چالو کرنے کیلئے کوئی منصوبہ بنا رہی ہے؛ تاہم اس بات کو بھی ایک سال سے زیادہ ہو گیا ہے۔ ابھی تک معاملہ زبانی گفتگو اور اعلانات سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ کیا خبر ہمارے بچوں کے بچے کبھی اپنے سکول میں دوبارہ سے پڑھیں کہ ہرنائی میں ایک وولن ملز ہے جو بہت عمدہ گرم کپڑا بناتی ہے۔ پاکستان میں بلوچستان کی بلوچی، ببرک، ہرنائی اور رخسانی نسل کی بھیڑیں اپنے اونی ریشے کے حوالے سے بڑی مشہور ہیں اور ان کے ریشے سے بڑا عمدہ گرم کپڑا بنایا جاتا ہے۔ پاکستان بھیڑ کی اون کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا بھر میں دسویں نمبر پر ہے؛ تاہم اب بھی اس اون کو دھاگے اور گرم کپڑے، کمبلوں یا شالوں میں استعمال کرنے کے حوالے سے ہم بہت پیچھے ہیں‘ اوپر سے پرانی وولن ملز آہستہ آہستہ بند ہوتی جا رہی ہیں۔ میں عشروں پہلے جھنگ کی وولن ملز میں گیا تو اس کا بھی برا حال تھا۔ تب میں وہاں سے اپنی دو واسکٹوں کے لیے پٹی خرید کر لایا تھا۔ اب باقی ملز کا کیا کہوں؟ پاکستان کی سب سے بڑی اور پرانی لارنس پور وولن ملز تک بند ہو چکی ہے۔ اب خبر نہیں کہ قائد آباد کی وولن ملز کا کیا حال ہے اور بنوں وولن ملز کی کیا صورتحال ہے۔ درج بالا اکثر پراجیکٹس پاکستان انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن (پی آئی ڈی سی) نے 1952 سے 1958 کے دوران لگائے تھے۔ ساری دنیا میں قدرتی ریشے سے بنے ہوئے اونی کپڑے کی مانگ ہے اور اس کی قیمت بھی زیادہ ملتی ہے‘ جیسے برطانیہ میں سکاٹ لینڈ کی عالمی شہرت یافتہ ہاتھ سے تیارشدہ ہیرس ٹوئیڈ ہے‘ لیکن ہمارے ہاں الٹ ہورہا ہے۔ ایک آدھ ملز گھسٹ گھسٹ کر چل رہی ہے۔ اکثر پرائیویٹ سیکٹر میں بیچ دی گئی ہیں اور باقی ماندہ کو جدید ٹیکنالوجی پر منتقل کرنے کے بجائے بند کردیا گیا۔ یہ سب سے آسان طریقہ تھا جس کے ذریعے ان سے جان چھڑوا لی گئی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved