تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     15-11-2020

پاک روس دفاعی تعلقات

گزشتہ دو دہائیوں میں اقوام عالم کے رویوں‘ خصوصاً باہمی تعلقات میں اس قدر بنیادی اور ڈرامائی تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں کہ کچھ عرصہ پیشتر ان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ مخاصمت اور محاذ آرائی پر مبنی تعلقات‘ دوستی اور تعاون کے رشتوں میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ جن ملکوں نے اپنی سرحدیں ہمسایہ ریاستوں کیلئے سختی سے بند کر رکھی تھیں‘ آج ان کے درمیان سامانِ تجارت ہی نہیں بلکہ انسانی آمدورفت‘ ثقافتی تبادلے اور معاشی تعاون بھی بھرپور طریقے سے جاری ہے۔ عالمی سیاست میں یہ تبدیلی (Transformation) کیسے ممکن ہوئی؟ اس کی وجہ قوموں کو ایک دوسرے سے دور رکھنے کے لئے بڑی طاقتوں کا وضع کردہ وہ مصنوعی نظام تھا‘ جسے انہوں نے ''نظریے‘‘ کی بنیاد پر سختی سے غیر فطری طور پر دنیا میں مسلط کر رکھا تھا۔ 
اس نظام کا نام تھا ''سرد جنگ‘‘ (Cold War) جس کے تحت دوسری جنگِ عظیم میں جرمنی اور جاپان پر فتح پانے والی دو بڑی طاقتوں روس اور ریاستہائے متحدہ امریکہ نے دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ اس تقسیم سے مذکورہ دونوں ممالک بڑی طاقتوں سے ''سپر پاور‘‘ بن گئے جبکہ دنیا کے دو سو کے قریب دیگر ممالک غربت اور پسماندگی کی چکی میں پستے رہے یا اپنی معاشی اور دفاعی ضروریات کیلئے ان دو ''سپر طاقتوں‘‘ کے دستِ نگر رہے‘ مگر 1989 میں ''دیوار برلن‘‘ کے غیر متوقع انہدام نے یورپ میں سیاسی تبدیلیوں کے ایک ایسے سلسلے کا آغاز کر دیا جو بالآخر سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے اور ''سرد جنگ‘‘ کے خاتمے پر منتج ہوا۔ سرد جنگ کے خاتمہ نے جہاں دنیا کے تقریباً تمام ممالک کو اپنی خارجہ اور دفاعی پالیسیوں میں ضروری تبدیلیاں لانے پر مجبور کیا‘ وہاں سابق سوویت یونین اور موجودہ روس کو بھی بیرونی دنیا خصوصاً اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کرنا پڑی اور ان کے ساتھ تجارتی اور معاشی شعبوں میں قریبی تعلقات قائم کرنا پڑے۔ ان کی مثال چین‘ ترکی‘ ایران اور پاکستان کے ساتھ روس کے نہ صرف تجارتی اور اقتصادی بلکہ دفاعی تعلقات میں بتدریج اضافے کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ ایران‘ پاکستان اور ترکی ''سرد جنگ‘‘ کے زمانے میں امریکہ کے اتحادی تھے‘ آج یہی ممالک روس کے قریب ہیں اور اپنے دفاع کو روس سے ہتھیار خرید کر مضبوط بنا رہے ہیں۔
آج سے چالیس سال قبل کوئی کہہ سکتا تھا کہ روس اور پاکستان کے فوجی دستے مشترکہ مشقیں کریں گے؟ لیکن اس وقت جبکہ یہ سطور لکھی جا رہی ہیں‘ روس اور پاکستان کے خصوصی دستے تربیلا کے علاقوں کے آس پاس مشترکہ جنگی مشقوں میں مصروف ہیں۔ ان مشقوں کا مقصد پاکستان اور روس کی مسلح افواج میں تعاون بڑھانا اور ایک دوسرے کے تجربات خصوصاً دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حکمت عملی سے سیکھنا ہے۔ یہ مشقیں جن کا نام ''دوستی‘‘ (DRUZHBA) رکھا گیا ہے‘ گزشتہ چار سال سے کی جا رہی ہیں‘ مگر پاکستان اور روس کے مابین دفاعی اشتراک کی یہ واحد مثال نہیں‘ اور نہ ہی پاکستان اور روس کے مابین بڑھتے ہوئے تعلقات صرف دفاعی تعاون تک محدود ہیں۔ ''دوستی‘‘ کے نام سے سالانہ مشترکہ جنگی مشقیں پاکستان اور روس کے دو طرفہ فریم ورک کے تحت منعقد ہوتی ہیں جبکہ کثیر جہتی (Multilateral) فریم ورک یعنی شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے تحت Kavkaz کے نام سے بین الاقوامی جنگی مشقوں کا پروگرام بھی موجود ہے۔ گزشتہ برس ستمبر میں یہ مشقیں روس کے شہر ''استراخاں‘‘ میں منعقد ہوئی تھیں اور ان مشقوں میں چین‘ آذربائیجان اور بیلاروس کے فوجی دستوں نے بھی شرکت کی تھی۔ تعداد اور ہتھیاروں کے اعتبار سے یہ مشقیں ''دوستی‘‘ مشقوں سے زیادہ وسیع ہیں کیونکہ ان میں بری فوج کے علاوہ بحریہ اور فضائیہ کے دستوں نے بھی شرکت کی تھی۔ پاکستان اور روس کے مابین بڑھتے ہوئے دو طرفہ تعلقات کا ایک اور ثبوت دونوں ملکوں کی اعلیٰ سیاسی اور عسکری قیادت کے مابین حالیہ برسوں میں ہونے والی ملاقاتیں ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن اور وزیر اعظم دیمیتری میڈوی ڈوف سے ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ ان ملاقاتوں میں دونوں ممالک کے رہنمائوں نے باہمی تجارت اور اقتصادی تعاون کو فروغ دینے پر زور دیا۔ اس مقصد کے لئے پاکستان اور روس نے ایک انٹر گورنمنٹل کمیشن قائم کر رکھا ہے۔ گزشتہ سال دسمبر میں اس کمیشن کا چھٹا اجلاس ہوا تھا‘ جس میں دونوں ملکوں کے نمائندوں نے ہوا بازی‘ معیشت اور توانائی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر زور دیا تھا۔ روس اور پاکستان کے مابین براہ راست مواصلاتی رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے دو طرفہ تجارت بہت محدود ہے؛ تاہم پاکستان نے اسے فروغ دینے کے لئے دونوں ملکوں کے مابین فری ٹریڈ ایگریمنٹ (FTA) اور سی پیک (CPEC) میں روس کی شمولیت کی پیشکش کر رکھی ہے۔ یہ سب کو معلوم ہے کہ پاکستان اور روس کے مابین براہ راست تجارتی اور معاشی تعلقات کے فروغ میں سب سے بڑی رکاوٹ افغانستان میں جنگ ہے۔ اسی لئے پاکستان اور روس نے افغانستان میں جنگ بند کرنے اور مستقل بنیادوں پر قیامِ امن کے لئے مشترکہ لائحہ عمل اپنا رکھا ہے۔ افغانستان میں قیام امن پر اتفاق اور مشترکہ کوشش پاکستان اور روس کے مابین سفارتی اور سیاسی میدان میں بڑھتے ہوئے تعاون کی ایک اور مثال ہے۔ روس کی طرف سے 2014 میں پاکستان کو ہتھیاروں کی فروخت پر عائد پابندی ختم کر دی گئی تھی‘ اور اب تک پاکستان نے اگرچہ محدود پیمانے پر ہتھیار خریدے ہیں جو کہ چار MI-35S اور MI-17 ہیلی کاپٹر ہیں‘ لیکن پاکستان روس سے زمین سے زمین پر مار کرنے والے میزائل اور نئے ٹینک خریدنے کا خواہاں ہے۔
پاکستان اور روس کے مابین مختلف شعبوں میں بڑھتے ہوئے اس تعاون میں اس ماحول نے یقیناً اہم کردار ادا کیا ہے‘ جو ''سرد جنگ‘‘ کے خاتمے کے بعد بین الاقوامی سطح پر پیدا ہوا ہے۔ ''سرد جنگ‘‘ کے دوران پاکستان اور روس کے مابین قریبی اور دوستانہ تعلقات اس لئے پروان نہ چڑھ سکے کہ اس دور میں روس پاکستان کو بھارت کی نظر سے دیکھتا تھا۔ چونکہ بھارت کے ساتھ روس کے انتہائی قریبی دفاعی اور سیاسی تعلقات تھے‘ اس لئے پاکستان کے ساتھ تعلقات قائم کرتے وقت سابق سوویت یونین بھارت کے دبائو میں آ جاتی تھی۔ اس کی سب سے نمایاں مثال 1960 کی دہائی میں روس کی طرف سے پاکستان کو چند ہیلی کاپٹر اور ٹینکوں کی فروخت تھی‘ مگر بھارت کی مخالفت کی وجہ سے سابق سوویت یونین کو ہتھیاروں کی فروخت کا یہ سلسلہ منقطع کرنا پڑا؛ تاہم اب روس پر بھارت کا کوئی دبائو نہیں ہے کیونکہ بھارت نے خود روس سے ہٹ کر اس کے روایتی حریف‘ امریکہ کے ساتھ دفاعی شعبے میں تعاون کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ اگرچہ اب بھی روس بھارت کے لئے ہتھیاروں کی سپلائی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے‘ اس کے باوجود بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی حالات میں پاکستان کی طرف سے روس کے رویے میں تبدیلی نظر آ رہی ہے اور اس کی طرف سے پاکستان کے ساتھ تجارتی اور معاشی شعبوں کے علاوہ دفاعی شعبے میں بھی قریبی تعلقات کے قیام کے لئے سنجیدہ کوشش نظر آ رہی ہے۔ افغانستان میں جنگ ختم ہونے اور امن کے قیام سے پاکستان اور روس کے درمیان تجارتی‘ معاشی اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں زبردست اضافے کی توقع ہے کیونکہ پاکستان کو افغانستان کے راستے روس اور وسطی ایشیا کی ریاستوں کے ساتھ براہ راست تجارت کیلئے راستہ مل جائے گا۔ اس موقع سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کے لئے پاکستان کو بھی نہ صرف روس اور افغانستان بلکہ علاقے کے دیگر ممالک کے بارے میں ایسی پالیسی اختیار کرنا پڑے گی‘ جس سے وسطی اور جنوبی ایشیا کے ممالک کے درمیان تجارت اور معاشی تعاون کے ذریعے ترقی‘ خوشحالی‘ امن اور استحکام کا ایک نیا دور شروع ہو گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved