اکثر تنہائی میں آسمان کو تکتے ہوئے میں یہ سوچتی ہو کہ کورونا کی وبا زیادہ پھیل رہی ہے یا جنسی جرائم کی وبا اس معاشرے میں زیادہ سرایت کرتی جا رہی ہے؟جہاں ایک طرف کورونا وائرس کی صورت میں ان دیکھی مہلک آفت انسانوں پر مسلط ہوکر سینکڑوں معصوم جانوں کو نگل چکی ہے‘ وہاں لوگ جرائم کا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں؟ڈرتے کیوں نہیں کہ اللہ ہم سے ناراض ہے‘ ہم پر ایک آفت مسلط ہے تو توبہ کیوں نہیں کرتے‘ کیوں احساس اور ڈر ختم ہوتا جارہا ہے ؟کورونا کے دوران غربت‘ بھوک اور افلاس میں اضافہ ہوا کیونکہ معاشی سرگرمیاں بند ہوگئیں۔ ٹڈی دل آگیا اور ہمارے ملک کے کھیتوں کھلیانوں کوچٹ کرنے لگا ‘تب بھی جرائم کرنے والوں کا دل نہیں کانپا‘ کوئی بڑے جرم کرتا رہا تو کوئی چھوٹے جرائم میں ملوث رہا۔انہی جرائم میں ایک جرم وبا کی طرح پھیل رہا ہے وہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی ہے۔میں کہتی ہو کہ نکاح کو عام کرو‘ اتنا مشکل مت بناؤ کہ لوگ زنا کی طرف نکل جائیں‘ جبکہ زنا اور جنسی زیادتی میں بھی بہت فرق ہے‘زیادتی میں تو ایک شخص اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے دوسرے پر حملہ آور ہوتا ہے۔ زیادتی کرنے والے اکثر مجرم شادی شدہ ہوتے ہیں ‘ ان کا کوئی نفسیاتی مسئلہ نہیں ہوتا‘ یہ بہت شاطر اور مجرمانہ ذہنیت کے حامل ہوتے ہیں‘ یہ پوری پلاننگ کرکے بچوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ انگریزی میں ان کو پیڈوفائل کہا جاتا ہے‘ جو بچوں کے ساتھ جنسی رغبت رکھتا ہے۔ اگر لوگ اس بیماری میں مبتلا ہوجائیں تو وہ علاج کراتے ہیں اور اس کو برُا سمجھتے ہیں‘تاہم جو ہمارے ملک میں ہورہا ہے اس کو میں ذہنی بیماری نہیں جرم مانتی ہوں‘ کیونکہ بیماریاں قابلِ علاج ہوتی ہیں لیکن جرائم کرنے والے بیمار نہیں ہوتے ‘بہت شاطر ہوتے ہیں۔وہ بیمار نہیں وہ پدرشاہی اور صنفی امتیاز کا شکار ہیں۔اس لئے پاکستان میں بچوں پر جنسی حملے کرنے والے لوگوں کو بیمار نہ کہا جائے ‘کیونکہ جو لوگ ذہنی طور پر بیمار ہوتے ہیں یا نفسیاتی طور پر ڈسٹرب ہوتے ہیں وہ خوف تکلیف کا شکار رہتے ہیں اور ادویات ان کی کیفیت کی کنٹرول میں رکھتی ہیں‘ جبکہ جنسی زیادتی کرنے والے مجرم ہیں۔ وہ بھی انتہائی سفاک قسم کے مجرم جو چھوٹے بچے اور بچیوں پر حملہ آور ہوتا ہے۔ہمارے بچے خطرے کی زد میں ہیں‘بچوں کو اکثر مارکیٹ‘ گلی یا ویران جگہوں پر ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور چھوٹے لڑکوں کوکھیل کے میدانوں‘ تعلیمی اداروں اور کام کی جگہ پر بھی ایسی صورتحال کا سامنا ہے۔جو بچے گھروں میں کام کررہے ہیں وہ بھی اس خطرے کی زد میں رہتے ہیں ۔ان پر مالکان کی طرف سے جنسی اور جسمانی حملے ہوتے ہیں اور ایسے واقعات میں بچوں کو مار بھی دیا جاتا ہے ۔اس سال جتنے کیسز سامنے آئے ‘ان میں بچوں کو سفاکی سے مار دیا گیا اور عمر کسی کی دو سال تو کسی کی چار سال تھی۔ کیا ان جرائم کرنے والوں کا دل نہیں کانپتا کہ بچے تو معصوم ہوتے ہیں‘ پھولوں کی طرح نازک‘ مگر لوگ ان پر جنسی حملے کرتے ہیں اور پھر ماردیتے ہیں۔یہ سلسلہ رک ہی نہیں رہا۔ جب زینب کو قصور میں حیوانیت کا نشانہ بنایا گیا تو پورا ملک اشک بار تھا ‘اس کے مجرم کو پھانسی بھی ہوگئی لیکن جرائم پیشہ افراد نے عبرت نہیں پکڑی۔اس سال کورونا کے دوران پھر بچوں پر حملوں میں شدت آگئی اور جنسی زیادتی کے بعد ان کے قتل کے واقعات بڑھ گئے۔
حال ہی میں سندھ کے علاقے کشمور میں وہ قیامت برپا ہوئی جس کی مثال نہیں ملتی۔ کراچی سے ایک عورت کو نوکری کا جھانسہ دے کر کشمور لایا گیا اور وہاں اس کاگینگ ریپ ہوتا رہا۔اس کے بعد اس عورت کی بیٹی کو یرغمال بنا لیا گیا اور اس خاتون کو کہا گیا کہ بیٹی تب آزاد ہوگی جب وہ کراچی سے دوسری عورت لے کرآئے گی۔اس دوران اس کی کمسن بیٹی کو بھی اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ خاتون تھانہ کشمور میں شکایت لے کر گئی اور پولیس نے بچی کو بازیاب کرالیا۔ اس واقعے پرمیں دوبار روئی‘ ایک تو بچی اور اس کی ماں کی جو ویڈیو سامنے آئی اس نے مجھے رلا یا۔ان کااغوا ہوا ‘دھمکیاں دی گئیں‘ مارا گیا اور اجتماعی طور پر ریپ کیا گیا۔چھوٹی بچی کے سر کے بال کاٹ دئے گئے‘ اس کے ساتھ جنسی تشدد کیا گیا‘ اس کے دانت توڑ دیے‘ اس کا گلا دبایا گیا۔ بچی اس وقت لاڑکانہ میں زیرعلاج ہے۔اس کی ویڈیو دیکھ کرمیرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ وہ کیسے سب بتارہی تھی کہ اس پرکیا قیامت گزر گئی۔دوسری بار میں تب روئی جب میں نے دیکھا کہ سندھ پولیس کے ایک جانباز افسر محمد بخش نے اپنی جوان بیٹی کی ملزمان سے بات کرائی اور کہا کہ لڑکی کا بندوبست ہوگیا ہے۔ یہ سب اس لیے کیا گیا کہ بچی کوآزاد کروایا جائے۔ اس کی وجہ سے ایک ملزم رفیق ملک گرفتار ہوگیا۔میری یہاں پر گزارش ہے کہ سندھ پولیس کے اس افسر‘ ان کی اہلیہ اور ان کی بیٹی کو اعزاز اور انعام سے نوازاجانا چاہیے‘ جنہوں نے ایک ستم زدہ خاتون کی مدد کرنے کے لیے یہ مشکل راستہ اپنایا ‘ اس طرح ایک معصوم بچی کی جان بچ گئی۔یہ دیکھ کر میری آنکھیں نم ہوگئیں کہ جہاں درندے موجود ہیں وہاں محمد بخش جیسے فرض شناس اور انسانیت دوست بھی موجود ہیں ‘ انسانیت ابھی زندہ ہے ۔
اس المناک وقوعے کا نشانہ بننے والی خاتون کو ایک ہفتہ قبل نوکری کا جھانسہ دے کرکشمور بلایا گیا۔ وہاں اس سے زیادتی ہوئی اس کی بیٹی کو یرغمال بناکر اس سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اگر کوئی اور عورت لا کردے جائے تواس کی بچی کوآزاد کیا جائے گا۔ابھی ایک ملزم گرفتار ہوا ‘اس کو ساتھ لے کر پولیس اہلکار اس کے مزید ساتھیوں کو پکڑنے کے لیے نکلے تو زیر حراست ملزم اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہو گیا۔ ننھی بچی کی والدہ دہائی دے رہی ہے اور انصاف کی اپیل کررہی ہے۔ ظلم کا نشانہ بننے والی کم سن بچی تو ایسے لگی رہی ہے جیسے ہوش کھو بیٹھی ہو۔ساڑھے چار سال کی اس بچی کا منہ تکلیف سے پک گیا ہے ‘ اس کو کھانا نہیں دیا گیا‘ جسم پر زخم ہیں جن سے خون رس رہا ہے ‘اس کا گلا دبایا گیا‘ سر پر مارا گیا ‘ اس کے جسم پر نیل ہیں ‘اس کو ڈنڈوں سے مارا گیا اور جسم جگہ جگہ سے چھلا ہوا ہے۔اس کم سن بچی کو ہاتھ پاؤں باندھ کر رکھا گیا‘ اب اس کی یہ کیفیت ہے کہ وہ بالکل نہیں بول رہی‘درد اور تکلیف میں بھی گم صم ہے۔بچی کو جب بازیاب کیا گیا اس وقت اسے ایک گندی سی رلی میں لپیٹ کر مویشوں کے باڑے میں پھینک دیا گیا تھا۔اس بچی کی ماں نے مجرموں کے لیے سزائے موت کا مطالبہ کیا ہے۔ کہا ہے کہ ان کے ساتھ ظلم کرنے والوں کو بھوکا پیاسا رکھا جائے‘ ان کو تڑپایا جائے ‘ اسی حالت میں یہ مجرم مرجائیں۔
اس انسانیت سوز سانحے میں ملوث تمام افراد کو عبرت ناک سزا ملنی چاہیے تاکہ باقی سفاک ذہن کے لوگوں کو بھی عبرت حاصل ہو۔یہاں پر سب انسپکٹرمحمد بخش اور ان کے خاندان کا کردار قابل ستائش ہے۔ کس طرح انہوں نے سمجھداری سے معاملے کو حل کیا اور بچی بازیاب ہوگئی۔ اس میں پولیس افسر محمد بخش کی پیشہ ورانہ مہارت بھی سامنے آتی ہے مگر سب سے بڑھ کر ان کا جذبہ انسانیت اور معمول سے آگے بڑھ کر کام کرنے کا حوصلہ قابلِ ستائش ہے۔ محمد بخش کی اہلیہ نے کہا ہے کہ متاثرہ خاتون ہمارے گھر تک آگئی‘ وہ بہت تکلیف میں تھی‘ بہت رو رہی تھی‘ ہم سے مدد کی اپیل کررہی تھی‘ ہم نے انسانیت کے ناتے اس کی مدد کی۔یوں محمد بخش کے خاندان کی سمجھداری اور بروقت اقدام سے ایک سفاک ملزم گرفت میں آیا اور ایک بچی کی جان بچائی جا سکی۔کاش ایسا جذبہ ہر دل میں پیدا ہوجائے‘ اگر ایسا ہو تو کوئی بچہ ظلم کا شکار نہ ہو‘ کسی خاتون پر کوئی درندہ جنسی حملہ نہ کرے۔میری ارباب ِاختیار سے گزارش ہے کہ ایسے جرائم کے مرتکب سفاک مجرموں کو نشانِ عبرت بنادیں اور متاثرین کو ہر ممکن طریقے سے انصاف فراہم کریں‘ کیونکہ بچوں کو جسمانی ‘نفسیاتی اور جنسی تشدد سے بچانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔