چند ہفتوں میں ریلوے کی سمت درست کردوں گا …سعد رفیق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ’’چند ہفتوں میں ریلوے کی سمت درست کردوں گا‘‘ اگرچہ ریلوے کی سمت تو پہلے ہی کافی درست ہے کیونکہ انگریز نے جوپٹڑی بچھائی تھی وہ بالکل سیدھی تھی تاہم اس میں جہاں جہاں کوئی خم پیدا ہوگیا ہے اسے درست کرنا میرے بائیں ہاتھ کا کام ہے جبکہ میرا بایاں ہاتھ ہی فارغ ہے۔ دایاں ہاتھ میرے کاروبار کی لکھت پڑھت میں مصروف رہتا ہے کیونکہ اکیلے حکومتی کاروبار سے سارے خرچے پورے نہیں ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ ’’سرخرو ہوں گے تو پروٹوکول بھی لیں گے ‘‘ کیونکہ پچھلا سارا پروٹوکول جنرل مشرف کی رخصتی پر خرچ ہوچکا ہے جن میں 21توپوں کی سلامی بھی شامل ہے۔ ہم نے اخلاقاً اس پر کوئی احتجاج نہیں کیا تھا کیونکہ ہمیں معلوم تھا کہ آخر ایک نہ ایک دن ان سے ہماری صلح ہوجانی ہے جبکہ میاں صاحب بہت صلح کل واقع ہوئے ہیں اور سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں؛ چنانچہ اگر جنرل صاحب نے خواہش ظاہر کی تو انہیں بھی ساتھ لے کر چلنے پر غور ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’عوام سے کیے گئے وعدے پورے کریں گے‘‘ کیونکہ جہاں ہرکام جنگی بنیادوں پر کرنے کا اعلان کیا جارہا ہے تو وعدے پورے کرنے کا کام بھی اسی جنگجو ٹیم کے سپرد کیا جاسکتا ہے۔ آپ اگلے روز علی پارک بیدیاں روڈ پر ایک جلسے سے خطاب کررہے تھے۔ دہشت گردوں کو پیسہ اور تربیت باہر سے مل رہی ہے …شیخ رشید عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ’’دہشت گردوں کو تربیت اور پیسہ باہر سے مل رہا ہے ‘‘ حالانکہ پیسوں کا مسئلہ ملک کے اندر سے ہی حل کیا جاسکتا ہے کیونکہ ہمارے ہاں مخیر حضرات کی کمی نہیں ہے جبکہ خاکسار کی الیکشن میں کامیابی بھی انہی زعماء کی مرہون منت ہے، نیز تربیت حاصل کرنے کے لیے بھی دور جانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ مختلف کالعدم تنظیمیں یہ کام یہاں پورے خشوع وخضوع سے سرانجام دے رہی ہیں۔ اس لیے مقامی اہلیت سے بھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’پچھلی حکومت نے عوام کا خون چوسا‘‘ حالانکہ چند قطرے اسے ہمارے لیے بھی چھوڑنے چاہئیں تھے کیونکہ ہم یہاں آلو بخارا بیچنے کے لیے تو نہیں بیٹھے ہوئے جبکہ خون کا ذائقہ چکھے ویسے بھی ایک زمانہ ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’اب شیر لوگوں کا گلادبوچنے کے لیے تیار ہے‘‘ حالانکہ اس کارخیر میں شامل ہونے کے لیے ہمارے لیے بھی گنجائش نکالی جاسکتی‘ تو کیا حرج تھا‘ لیکن میاں صاحب نے میری ایک نہ سنی اور پٹھے پر ہاتھ ہی نہیں رکھنے دیا حالانکہ پٹھہ ہوتا ہی ہاتھ رکھنے کے لیے ہے۔ انہوں نے کہا کہ’’آئندہ چھ ماہ بہت اہم ہیں ‘‘ اور یہ بھی میں نے خصوصی رعایت سے کام لیا ہے ورنہ جوکچھ ہونا ہے وہ تین ماہ میں بھی ہوسکتا ہے، کوئی خوش فہمی میں نہ رہے۔ آپ اگلے روز حسب معمول ایک ٹی وی چینل میں گفتگو کررہے تھے۔ حکومت نے کسی کا بنا بنایا بجٹ پڑھ کر سنادیا …گیلانی سابق وزیر سیدیوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ’’حکومت نے کسی کا بنابنایا بجٹ پڑھ کر سنادیا‘‘ حالانکہ بجٹ بنوانے کے لیے خاکسار کی خدمات حاصل کی جاسکتی تھیں کیونکہ میں نے اپنے دور میں نہایت قابل اور اہل لوگ مختلف اداروں میں تعینات کررکھے تھے جن میں پی آئی اے، سٹیل مل اور پی آئی اے وغیرہ بطور خاص قابل ذکرہیں جو دن رات دھڑا دھڑ منافع کما رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’روایتی طورپر پیپلز پارٹی ہی سرکاری ملازمین کا تحفظ کرتی ہے‘‘ کیونکہ وہ لوگ پارٹی کا تحفظ کرتے ہیں، اور، آپ جانتے ہیں تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے ،تاہم، بعض معاملات ایسے ہیں، اور ، وہی ہمارے اصل مسائل اور معاملات بھی تھے، جن میں تالی ایک ہاتھ سے بھی پوری کامیابی کے ساتھ بجائی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ’’زیارت میں قائداعظم کی ریذیڈنسی قومی ورثہ ہے ‘‘ اول تو ہم خود سب سے زیادہ قائداعظم کے ورثے کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ ہم نے ماشاء اللہ سارے کام قائداعظم کی تعلیمات کی روشنی میں ہی کیے ہیں‘ جن کی حکمت کو لوگ اپنی کم فہمی کی وجہ سے اچھی طرح سے سمجھ نہیں سکے، حالانکہ ہم نے انہیں سمجھانے کی پوری پوری کوشش کی لیکن شاید ان کا بھی یہ غلط خیال تھا کہ تالی دونوں ہاتھوں ہی سے بج سکتی ہے۔ آپ اگلے روز ملتان میں ایک روزنامے کو انٹرویو دے رہے تھے۔ محکمہ موسمیات بروقت سیلاب کے خطرے کی اطلاع دینے میں ناکام رہا …فضل الرحمن جمعیت العلمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ’’محکمہ موسمیات سیلاب کے خطرے کی بروقت اطلاع دینے میں ناکام رہا ‘‘ جبکہ میں نے میاں صاحب کو بروقت یہ اطلاع دے دی تھی کہ میرے مطالبات اور ترجیحات سے صرف نظر کرنے میں حکومت کے لیے کیا کیا خطرات پوشیدہ ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان پر اب تک کوئی اثر نہیں ہوا اور وہ مجھے مسلسل انتظار کی اذیت سے گزار رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ’’خیبرپختونخوا حکومت وزارتوں کی تقسیم کے بجائے سیلاب کے متاثرین پر توجہ دے ‘‘ اور جب تک ان متاثرین کے جملہ مسائل حل نہیں ہوجاتے، وزارتوں کی تقسیم جیسے فضول کام میں وقت ضائع نہ کرے‘ کیونکہ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ حکومت کے سارے کام ماشاء اللہ ٹھپ ہوکر رہ جائیں گے اور اس نام نہاد حکومت کی ناکامی کی شروعات کا آغاز ہوجائے گا اور اس کے بعد ع گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے جبکہ مرزا یار ملکی اور قومی مفاد کے تحت ان سنجی گلیوں میں پھرنے کی امید میں اپنا ہاضمہ بھی خراب کر بیٹھا ہے جس کے علاج کی طرف بھی میاں صاحب کو توجہ دینی چاہیے، اگرچہ اس کی امید کم ہی ہے۔ آپ اگلے روز اپنے ترجمان جان اچکزئی کے ذریعے بیان جاری کررہے تھے۔ کوئٹہ کی ریذیڈنسی پاکستان کی شناخت تھی …وٹو پیپلزپارٹی کے رہنما میاں منظوراحمد خاں وٹو نے کہا ہے کہ ’’کوئٹہ کی ریزیڈنسی پاکستان کی شناخت تھی‘‘ اگرچہ گزشتہ پانچ برسوں کی محنت شاقہ کے بعد ہم لوگ ہی پاکستان کی شناخت بن گئے تھے، تاہم یہ عمارت بھی کھڑی رہتی، کسی کا کیا لیتی تھی البتہ سابق وزیراعظم کی ملتان والی رہائش گاہ کو ریذیڈنسی کا نام دے کر ایک قومی اثاثہ قرار دیا جاسکتا ہے جس کی دیواریں وغیرہ بھی بم پروف بنادی گئی ہیں اور آئندہ کسی بھی دہشت گردی کا مقابلہ کرسکتی ہے؛ تاہم میری ماڈل ٹائون والی رہائش گاہ کو فی الحال یہ درجہ حاصل نہیں ہوسکا اور جس کے لیے چند سال مزید انتظار کرنا پڑے گا جبکہ قوموں کی زندگی میں چند سال تو چٹکیوں میں گزرجایا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا ’’پاکستان کی تاریخ میں یہ دہشت گردی کے گھنائونے واقعات میں سے ایک ہے ‘‘ جس کا غم غلط کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے سنہری دور کی یادوں کو ذہن میں تازہ رکھا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ ’’قائداعظم کی ذات سے کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے ‘‘ جس طرح خاکسار کی ذات سے کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے، اس لیے اس مماثلت کو ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری جماعت دہشت گردی کے ان حملوں کے خلاف موجودہ حکومت کے ساتھ ہمیشہ تعاون کرتی رہے گی ‘‘ تاکہ اپنی وضعداری کی بناء پر حکومت بھی ہمارے ساتھ درگزرسے کام لے۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے۔ آج کا مطلع کرتا ہوں سفر راہگزاروں سے بہت دور چڑھتا ہوا دریا ہوں کناروں سے بہت دور
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved