تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     15-11-2020

دشمن گھر کے اندر

بدترین دشمن کو شکست دینے سے زیادہ شایدہی کوئی چیز خوشی دیتی ہو۔ جارحیت پر تلے ہوئے منہ زور حریف کا مقابلہ کرنے سے زیادہ کوئی چیز اہم نہیں۔ جھوٹ کو بے نقاب کرنا کسی بھی چیز سے زیادہ طمانیت کا باعث بنتا ہے ۔ دس گنا بڑے ملک ‘ جودنیا کی آنکھ کا تارا ہے‘ سے عالمی سطح پر زیادہ پذیرائی حاصل کرنے سے زیادہ شاید ہی کوئی چیز قابل ِ فخر ہو۔ یہ چند چیزیں 27 فروری 2019ء کو حاصل ہوئیں‘ جو کسی بھی پاکستانی کا سر فخر سے بلند کردیتی ہیں۔ 
یہ جھڑپ بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والی ماضی کی کسی کشمکش کے برعکس پاکستان کی واضح فتح تھی ۔ بھارت کے ہر دعوے کو صرف پاکستان ہی نہیں دنیا بھر کے ماہرین نے بھی جھٹلا دیا ۔ نیویارک ٹائمز سے لے کر گارڈین تک ہر اخبار میں بھارت کو سبق سکھانے پر پاکستانی فوج کی صلاحیت اور مہارت کو سراہا گیا ۔ سب سے بڑھ کر ‘ بھارتی پائلٹ کو رہا کرنے کا فیصلہ ملک کی عظیم اخلاقی فتح تھی ۔ یہ فیصلہ دو ایٹمی قوتوں کے درمیان صورتحال کو بگڑنے سے بچانے اور امن قائم کرنے کے لیے کیا گیا ۔ بھارت کے پائوں تلے زمین نکل چکی تھی ۔ برس ہا برس سے اُس کی آزمودہ پالیسی یہ تھی کہ پاکستان کو ایسے ملک کے طور پر پیش کیا جائے جو دہشت گردوں کی محفوظ جنت ہے ‘تاکہ پاکستان کو عالمی تنہائی سے دوچار کیا جاسکے ۔جب پاکستان بلکہ دنیا نے اُن کا جھوٹ پکڑ لیا کہ اُن کا جنگی طیارہ فضائی حدود کی خلا ف ورزی پر مار گرایا گیا تھا نیز پاکستان نے پائلٹ کو گرفتار کیااور مہربانی کرتے ہوئے واپس کردیاتو یہ صورتحال بھارت کے لیے ناقابل ِ تصور تھی۔کم وبیش دو سال سے اُنہوں نے ہر طریقہ استعمال کرکے حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی لیکن وہ سفارتی اور تزویراتی محاذ پر شکست سے دوچار ہوئے ۔ لیکن پھر ایاز صادق نے بے سر و پا باتیں کیں۔ 
بعض افراد بشمول ماہرین‘ تجزیہ کار اور صحافی پی ڈی ایم کی اس وضاحت کے ساتھ کھڑے ہیں کہ اس بیان میں نشانہ فوج نہیں بلکہ وزیر ِ خارجہ تھے ۔ یہ وضاحت بھی اُنہیں بے نقاب کرتی ہے ۔ وہ دلیل دے رہے ہیں کہ بیان درست تھا لیکن دیا کسی اور شخص کے حوالے سے گیا تھا۔ تاہم ملک کا نقصان اس بیان نے کردیاتھا؛ چنانچہ ہدف کا ابہام بے معنی ہوکر رہ گیا۔ ایاز صادق نے جو کچھ کہا وہ یہ تھا کہ پاکستان کی حاصل کردہ ہمہ گیر فتح‘ جس نے ملک کے ایک نئے دور کا آغاز کیا تھا جبکہ بھارت گھیرے میں آگیا تھااور اس کا جھوٹ بے نقاب ہوا تھا‘ وہ سب جھو ٹ تھا ۔ اُنہوں نے ایک میٹنگ کا حوالہ دیا کہ پاکستان کی قیادت کی body language سے ظاہر ہورہا تھا کہ پائلٹ کو واپس کرنے کی وجہ گھبراہٹ اور بھارتی حملے کا خوف تھا ‘ لیکن یہ بات تو بھارتی کہہ رہے تھے ۔ قومی اسمبلی کے فلور پر سابق سپیکر قومی اسمبلی کے اس بیان نے پاکستان کی فقیدالمثال کامیابی‘ جس کا عالمی سطح پر اعتراف کیا گیا تھا‘ کو شدید زک پہنچائی ۔ اس بیان کو تین وجوہات کی بنا پر زبان کی لغزش قرار نہیں دیا جاسکتا۔ 
1۔ بیان کے خدوخال پی ڈی ایم کے منصوبے کے مطابق ہیں ۔ عام طور پر حزب ِاختلاف حکومت کو ہدف بناتی ہے ۔ مذکورہ منصوبہ ریاست پر دبائو ڈال رہا ہے ۔ نواز شریف نے اے پی سی میں کی گئی پہلی تقریر میں ریاست کے اوپر ریاست کا ذکر کیا تھا ۔ کہا گیا کہ اُن کا مقابلہ عمران خان سے نہیں بلکہ اُنہیں لانے والوں سے ہے ۔ اس کا مقصد واضح تھا ۔ گوجرانوالہ کی تقریر اداروں پر ایک اور حملہ تھی ۔ اس کے بعد کراچی میں وہ افسوسناک واقعہ پیش آیا جب کیپٹن(ر) صفدر نے مزار ِقائد کے تقدس کو پامال کیا ‘ جبکہ کوئٹہ جلسے میں الگ ریاست اور اُردو کو بطور قومی زبان مسترد کرنے کی بات کی گئی ۔ 
2۔ احتساب کا دبائو : پی ڈی ایم میں مختلف نظریات اور پس ِ منظر رکھنے والی گیارہ جماعتیں شامل ہیں۔ اُنہیں کس چیز نے اکٹھا کیا ہے ؟ گورننس پر احتجاج کرنے کے لیے ؟ ممکن ہے کہ یہ بھی ایک عنصر ہو۔ مہنگائی کے خلاف ؟ یہ بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے ‘ تاہم اگر آپ ان کے قائدین کی تقاریر کا جائزہ لیں تو آپ دیکھیں گے کہ عوامی مسائل کو صرف 30 فیصد جگہ دی جاتی ہے‘ باقی وقت ریاست پر کیچڑ اچھالنے میں صرف ہوتا ہے ۔ ریاست پر اتنی بھاری تنقید کیوں کی جاتی ہے ؟ اس کی وضاحت وہ خود دیتے ہیں کہ ریاست نے 2018ء کے انتخابات میںمداخلت کرتے ہوئے اُنہیں اقتدار سے باہر کردیا۔ سوال یہ ہے کہ اُنہیں اس کے خلاف آواز اٹھانے میں دوسال کیوں لگے ؟ اُنہوں نے الیکشن کمیشن میں برائے نام درخواستیں کیوں دیں؟اُنہوں نے تمام ثبوتوں کے ساتھ وائٹ پیپر کیوں شائع نہ کیا‘ جس کا اعلان اُنہوں نے دوسال پہلے کیا تھا ۔ اُن میں سے زیادہ تر اتنے طویل عرصے تک خاموش کیوں رہے ؟حزب ِاختلاف کی جماعتوں کو جس مشترک مسئلے کا سامنا ہے وہ بدعنوانی کے مقدمات ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر مقدمات اُنہوں نے اپنے اپنے دور ِحکومت میں ایک دوسرے کے خلاف قائم کیے تھے اور یہ برس ہا برس سے التوا میں پڑے ہوئے تھے ۔ جب نیب نے فعال ہوتے ہوئے اُنہیں گرفتار کرنا شروع کردیا تو اُنہیں پتہ چلا کہ ماضی کے برعکس اب نہ تو حکومت اور نہ ہی ریاست اُن کی بے جا مدد کرنے کے لیے تیار ہے ۔اس پر اُنہوں نے مایوسی کے عالم میں ریاست پر چڑھائی شروع کردی تا کہ دبائو ڈال کر اپنے مطالبات منوائے جا سکیں۔ 
3۔ معاشی صورتحال: حز ب ِ اختلاف کا کام عوامی مفاد پر کڑی نظر رکھنا ہوتا ہے ۔ عوام کے عدم اطمینان پر حکومت کے خلاف احتجاج کیا جاتا ہے ۔ اشیائے خورونوش کی قیمت میں اضافے اور آٹے اور چینی کی قلت نے لوگوں کو بہت پریشان کردیا ہے۔ حزب ِ اختلاف بجا طور پر عوامی غصے کو جلسے جلوں کی صورت متحرک کرنا چاہتی ہے ‘لیکن اس دوران وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ حکومت نے کووڈ 19 پر بہترانداز میں قابو پالیا‘ جبکہ معیشت سنبھلنا شروع ہوچکی ہے ۔برآمدت ‘ سرمایہ کاری اور بیرونی ممالک سے بھیجی گئی رقوم کے حجم میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔ وہ آگاہ ہیں کہ آنے والے چند ماہ کے دوران اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں بھی میں کمی آئے گی‘اس لیے اُن کے پاس وقت بہت کم رہ گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دسمبر کے آخر تک حکومت کے خاتمے کی باتیں کررہے ہیں۔ 
اس حکمتِ عملی کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ جلسے کرنے کا اعلاینہ مقصد تو عوامی مسائل بتائے جاتے ہیں ‘لیکن عملی طور پر مقتدرہ مخالف بیانیہ پروان چڑھایا جاتا ہے ‘ اور یہ بیان کردہ مقصد کے برعکس ہوتا ہے ۔ اب تک یہ حکمت عملی اسمبلی یا گلیوں میں عوامی سطح پر کامیاب نہیں ہوئی ہے ‘یہی وجہ ہے کہ اسمبلی میں ایاز صادق کی ناروا تنقید کی (ن )لیگ کے کچھ حامیوں نے بھی مذمت کی ۔ اب بلاول بھٹو نے بھی اسے ''حیران کن‘‘قرار دیا ہے ۔چلیں اگر پاکستانی عوام بھول جاتے ہیں تو بھی ایاز صادق کی تقریر کے مواد کو بھارت ''سچ‘‘قرار دے کر اپنے جھوٹ پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ففتھ جنریشن وارفیئر انتہائی پیچیدہ ہے ۔ اس کا تعلق معلومات‘ تاثر اور بیانیہ پروان چڑھانے سے ہے جو آپ کو اندرونی طور پر عدم استحکام سے دوچار کرسکتا ہے یہاں تک کہ آپ دشمن کا آسان ہدف بن سکتے ہیں۔ ذاتی مفادکو عوامی مفاد سے الگ کرنے میں پی ڈی ایم کی اہلیت یا نااہلی اس بات کا تعین کرے گی کہ کیا اُن کے احتجاج کا پاکستان کے عوام کو فائدہ ہوتا ہے یا پاکستان کے دشمنوں کو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved