ہماری اجتماعی زندگی میں شور بہت ہے۔ ہمیشہ رہا ہے۔ کچھ دوست کہتے ہیں‘ ہماری علاقائی اور قومی ثقافتوں کے رنگ ہی ایسے ہیں کہ رونق میلہ لگا رہتا ہے۔ گھر کے اندر ہوں اور آپ کا کنبہ دو فردی نہ ہو‘ تو ہر طرف آوازیں‘ قہقہے‘ کھیل کود‘ ہلچل ہو گی اور ایک طرح سے مجلس یا محفل کا سماں رہے گا۔ ہم سب نے ایسے ہی گھروں میں پرورش پائی ہے۔ دیہات میں تو سب کے دروازے کھلے ہوتے ہیں۔ بچوں کو گھروں میں بند رکھنے کی روایت صرف ہمارے شہروں میں ہے‘ جہاں لوگ دیواروں کے پیچھے خاموش زندگی گزارنے کے عادی ہیں۔ متوسط طبقے کے بچوں کی تربیت گھر کے اندر کے محدود ماحول میں ہوتی ہے۔ گلی محلوں میں جانا‘ مٹر گشت کرنا آوارگی کے زمرے میں آتا ہے۔ تعلیمی نظام کے جدید تقاضوں‘ گھر کے کام‘ مسابقت میں آگے نکلنے کی تڑپ نے بچوں کو گھر میں قید رکھنے کا رجحان پختہ کر دیا ہے۔ شہروں میں کھیل کے میدانوں میں عام گھروں کے بچے دیکھنے میں آتے ہیں۔ یہی حالت بڑوں کی ہے۔ ہو سکتا ہے‘ شہروں کے لوگ ارد گرد کے ماحول سے اپنے آپ کو محفوظ خیال نہ کرتے ہوں۔ گھر سے دفتر‘ دفتر سے سہ پہر یا شام کو گھر واپسی اور پھر گھریلو ضروریات کے لئے مارکیٹوں کا رخ کرنا‘ زندگی میں ایک دائرے میں گھومتی محسوس ہوتی ہے۔ ایک عرصے سے لوگوں کی زندگیوں کا مشاہدہ کر رہا ہوں۔ معلوم یہی ہوتا ہے کہ اکثریت ایک محدود ماحول میں عافیت محسوس کرتی ہے‘ اور یہ اکثریت تعلق بھی بہت محدود لوگوں سے رکھتی ہے۔ گنتی کے چند قریبی رشتے دار‘ دفتری ہم کار اور تعلیمی دور کے کچھ دوست۔ باہر بھی نکلیں تو ایسا کم ہی دیکھا ہے کہ اپنے دل کے کمروں میں بند لوگ کسی اجنبی کو علیک سلیک کر ڈالیں‘ بات کرنے میں پہل کریں۔ نہ جانے ہم ایک دوسرے سے کس خوف میں مبتلا ہیں؟
میری قسمت بھی مجھے شہروں میں گھسیٹ لائی ہے۔ آزادی کی فکر ہمیشہ رہی ہے‘ مگر رسیاں ڈھیلی کر کے بھاگ جانا میسر آ جاتا ہے۔ اب تو اکثر دیہات کی پناہ گاہوں میں کچھ دن سکون کا سانس لینے کی مہلت مل جاتی ہے۔ خدا بھلا کرے مغربی دنیا کے سائنس دانوں کا‘ کہ انہوں نے ہماری زندگیاں آسان کر دی ہیں۔ اب جہاں بھی رہیں‘ دیہات‘ شہری مضافات یا کسی چھوٹے بڑے شہر میں‘ سب کچھ فون اور کمپیوٹر کے ذریعے بھیجا اور وصول کیا جا سکتا ہے۔ ایک دو مواصلاتی کمپنیوں کی انٹرنیٹ رفتار اور کوریج کو چیک کیا تو معلوم ہوا کہ دیہات میں بیٹھ کر بھی آن لائن پڑھایا جا سکتا ہے۔ اب اکثر کلاسیں کہیں دور رہ کر (دیہات وغیرہ میں) لینا بھی اتنا ہی آسان ہے‘ جتنا شہر کے باسیوں کے لئے۔ ٹیلی وژن کی سکرین پر انٹرویو یا کسی مذاکرے میں شرکت کے لئے بھی کسی مخصوص جگہ کی پابندی نہیں رہی۔ مواصلاتی انقلاب در انقلاب نے ہم سب انسانوں کی آزادیوں میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے۔ تقریباً ایک سال پہلے میرے ایک قریبی امریکی دوست اسلام آباد آئے تو اپنی کچھ نئی پناہ گاہوں کا ذکر چھیڑ بیٹھے۔ وہ اب گھر میں نہیں رہتے‘ ایک فلیٹ میں بیگم کے ہمراہ منتقل ہو چکے ہیں‘ مگر ان کی طبیعت بھی ہماری طرح سیلانی ہے۔ امریکہ کے اندر بھی اور باہر بھی موقع پاتے ہی ٹکٹ کٹوا لیتے ہیں۔ عمر کے لحاظ سے اسّی کے کھاتے میں ہیں۔ زندگی وقت ہی تو ہے‘ اگر یہ جاتا رہا تو زندگی کہاں سے آئے گی؟ ان کی پناہ گاہ ہمیشہ کتابیں رہی ہیں۔ اب وہ کانوں کو کچھ لگا کر کتابیں سنتے ہیں اور جم میں ہوں‘ بس میں‘ ٹرین میں یا کہیں پارک میں گھوم رہے ہوں‘ اپنی پسند کی کتاب سنتے رہتے ہیں۔ مجھے بھی اس طرف مائل کر دیا ہے۔
شکر ہے خدا کا کہ آنکھیں دیکھ سکتی ہیں اور پڑھنے کی صلاحیت بھی ملی ہوئی ہے۔ کتاب سے تو بہتر کوئی پناہ گاہ نہیں۔ دل سیاست سے اچاٹ رہتا ہے۔ سیاسی بازی گروں کا چہرہ تک دیکھنے کو جی نہیں چاہتا۔ یہ جانتے ہوئے‘ اور پختہ یقین کی حد تک جانتے ہوئے کہ انہوں نے اس ملک کے غریبوں کو لوٹا ہے‘ دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے اور ان کے خزانوں کے منہ کبھی بھرے ہیں‘ نہ ہی حرص کے ماروں کے کبھی بھریں گے‘ کیسے انہیں برداشت کریں؟ موقع ملے گا تو بات بھی کریں گے‘ اور ابھی یہ قلم اور کاغذ تو موجود ہیں ہی۔ جب تک سکت ہے‘ اپنا فرض نبھائیں گے‘ لیکن ہر وقت میدانِ سیاست میں رہنا‘ دماغ کو بوجھل اور روح کو بے قرار رکھتا ہے کہ آخر عوام ان فن کاروں کے اصلی روپ کب دیکھ سکیں گے۔ کب تک ان کے جھنڈے اٹھا کر انہیں مسندِ اقتدار پہ لاتے رہیں گے؟ اس دائمی کرب اور اذیت سے نجات کا واحد راستہ یہ ہے کہ ان سب کو ایک سمندری جہاز میں بٹھا کر کوئی نئی دنیا تلاش کرنے کے لئے چھوڑ دیا جائے‘ کیونکہ اب معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اولادیں بھی ہماری آنے والی نسلوں پہ حکمرانی کے لئے پر تول چکی ہیں۔ عافیت اس میں ہے کہ ہم اپنی اپنی پناہ گاہوں میں سکون تلاش کرتے رہیں۔
چند روز قبل بہت سی نئی اور پُرانی کتابیں خریدیں۔ استاد احسان دانش کی دو کتابیں ''جہانِ دانش‘‘ اور ''جہانِ دیگر‘‘ ہاتھ لگیں۔ ''جہانِ دانش‘‘ کے کچھ اوراق یونہی دیکھے تو بس دل لگ گیا‘ ایسے جیسے تھکے ماندے ٹوٹے ہوئے جسم کو سکون کی نیند آ جائے۔ کاش یہ کتاب اور اس جیسی سینکڑوں دوسری کتابیں ہم سکول اور جامعات کے دور میں پڑھتے۔ کتاب پر تبصرہ تو کسی اور موقع پر ہو گا‘ مگر ان کی زندگی کا ابتدائی حصہ جس مفلسی‘ غربت اور ناداری میں گزرا‘ ایسے میں تو لوگ ہمت ہار جاتے ہیں۔ کون سا محنت و مشقت کا کام ہے جو انہوں نے نہیں کیا۔ کیا کیا مصیبتیں دیکھیں‘ کیا کیا زخم کھائے‘ صداقت اور سچائی کا دامن مگر کبھی نہ چھوڑا۔ پھر دیکھا‘ کیسی بلندیوں تک پہنچے۔ دکھوں کے ماہ و سال میں سکون انہیں دانش مندوں کی قربت اور کتب بینی میں ملا۔ حالات جو بھی ہوں‘ مقابلہ کرنا بہادری بھی ہے‘ فرض بھی‘ مگر میری عمر اور نسل کے بچے کھچے پاکستانیوں میں وہ سکت و ہمت نہیں رہی۔ ایک بار نہیں‘ کئی بار ڈسے جا چکے ہیں۔ چند سیاسی قبیلے‘ جو رنگ و روپ بدلتے رہتے ہیں‘ ہر کوئی موقع کی تلاش میں ہے کہ کس کی کشتی کی رفتار تیز ہے‘ اور جگہ نہیں ہوتی تو بنا لی جاتی ہے۔ کس کس کا نام لیں کہ ماضی میں کن کشتیوں کے سوار رہے اور اب کہاں پناہ گاہ تلاش کر لی ہے۔ پناہ گاہیں یونہی بدلتی رہیں تو ملک وہیں رہے گا جہاں یہ اب ہے۔ موقع پرست سواریوں پر انحصار کر کے ملک کو بدلنا نہ جانے کیسے ممکن ہو گا؟ چلو کچھ اور مہلت ہے‘ دیکھ لیتے ہیں۔ اس وقت بہتر یہی ہے کہ سیاسی ہنگامے سے کہیں دور جا کر بسا جائے‘ کتابیں پڑھی جائیں‘ موسیقی میں دل لگایا جائے‘ درختوں کے جھنڈوں میں چھپے رنگ برنگے پرندوں پر نظریں جمائی جائیں۔ فطرت کی گود میں پناہ لینے میں جو مسرت ہے وہ شہر کی گہما گہمیوں میں کہاں؟ سیاسی شور‘ نفرتوں‘ بے سود لڑائیوں‘ جھوٹ اور لوٹ مار کی روش سے دل برسوں سے رنجیدہ ہے۔ ہم ناتواں‘ کمزور بھلا کب تک مقابلہ کر سکتے تھے۔ دل میں اطمینان ہے کہ جو باتیں کہنا تھیں‘ جو لکھنا تھیں ان سے غفلت نہ کی۔ سفر باقی ہے تو مزاحمتی جنگ بھی جاری رہے گی۔ نتیجہ کچھ بھی ہو‘ اپنے حصے کا کام کر جائیں تو پناہ گاہ میں آرام رہے گا‘ عالموں کی صحبت بھی میسر آئے گی اور دانش مندوں کا سرمایہ بھی ساتھ رہے گا۔