تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     16-11-2020

دہشت گردوں کا بھارت

ایک دہائی قبل کی بات ہے‘ شدید عالمی دبائو پر بھارتی حکومت نے سیاچن سے فوجیں واپس بلانے کا اشارہ دیا تھا مگر اس وقت کے بھارتی فوج کے سربراہ جنرل دیپک کپور نے واضح کر دیا کہ حکومت جو چاہے کرے‘ بھارتی فوج دو سال مزید سیاچن میں رہے گی اور دو سال بعد حالات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ کون کون سے سیاچن کے پوائنٹس خالی کرنا ہیں۔ جب امریکا، برطانیہ اور دوسرے یورپی ممالک کی جانب سے سیاچن خالی کرنے کیلئے بھارت پر دبائو بڑھنا شروع ہو گیا تو یک لخت پورا ممبئی بم دھماکوں سے گونج اٹھا، جس میں سینکڑوں لوگ مارے گئے اور سیاچن کا مسئلہ ممبئی حملوں کی دہشت گردی کی گرد میں چھپ گیا۔ 2000ء میں امریکی صدر بل کلنٹن طے شدہ کشمیر ایجنڈے پر دونوں ممالک سے بات کرنے کیلئے بھارت اور پاکستان کے مشترکہ دورے کے پہلے مرحلے کیلئے نئی دہلی پہنچنے والے تھے کہ جہاز میں ہی انہیں اطلاع ملی کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں واقع سکھ آبادی کے ایک گائوں چٹی سنگھ پورہ کے 34 سکھوں کو‘ جن کی عمریں اٹھارہ سے ساٹھ سال کے درمیان تھیں‘ مسلح لوگوں نے ایک قطار میں گائوں کے باہر کھڑا کر کے گولیوں سے بھون دیا ہے۔ اس کا الزام کشمیری مجاہدین پر لگا دیا گیا‘ جنہوں نے اس واقعے سے مکمل برأت کا اظہار کیا۔ حملے کے کچھ ہی دیر بعد اس وقت کے بھارتی وزیراعظم کے قومی سلامتی کے مشیر نے ایک مسلح نوجوان کو میڈیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے الزام تراشی کا ایک نیا دفتر کھول دیا اور کہا کہ اس کا تعلق پاکستان کی ایک تنظیم سے ہے اور پھر نئی دہلی سمیت بھارت کے بڑے شہروں میں پاکستان کے خلاف مظاہرے شروع کرا دیے گئے۔ اس طرح امریکی صدر بل کلنٹن کو پیغام دیا گیا کہ ان حالات میں ہم اگر کشمیر پر بات کریں گے یا پاکستان سے بات چیت کا اشارہ کریں گے تو عوام بپھر جائیں گے اور سب کو نکال باہر کریں گے۔صدر بل کلنٹن کشمیر پر مزید کوئی بات چیت کرنے کے بجائے قالین خریدنے میں مشغول ہو گئے اور یہ دورہ بھارتی پارلیمنٹ سے خطاب تک ہی محدود رہا۔ کسی بھی امریکی صدر کا بھارت کا یہ مختصر ترین دورہ سمجھا جاتا ہے۔ بھارت کی پوری سیاسی قیادت نے ہاتھ کھڑے کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پورا بھارت پاکستان کے خلاف ہے اور اگر ہم نے کشمیر پر کوئی بات کی تو ہمیں نہ صرف سیاسی شکست کا سامنا ہو گا بلکہ مزید بھی بہت کچھ بھگتنا پڑے گا۔
2005ء میں پونا کا ایک رہائشی شریش یشونت‘ ناشک سرکاروادا پولیس اسٹیشن انچارج کے کمرے میں اپنے ریوالور کا اسلحہ لائسنس لے کر پہنچا تو اسے شک تھا کہ کہیں اس کا لائسنس جعلی نہ ہو جو اسے بھارتی فوج کے ایک حاضر سروس کرنل پرساد پروہت نے بیس ہزار روپے کے عوض بنا کر دیا تھا۔ سرکاروادا تھانے کی پولیس نے جب لائسنس کی تفصیلات چیک کیں تو علم ہوا کہ اس میں شریش کو دیولالی فوجی کیمپ کا رہائشی ظاہر کیاگیا تھا تاکہ فوجی ہونے کے ناتے اس کا لائسنس بننے میں آسانی ہو۔ شریش یشونت نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے پولیس کو بتا دیا کہ وہ کوئی فوجی نہیں بلکہ عام شہری ہے اور اس کا اسلحہ لائسنس بنوانے کیلئے استعمال ہونے والے جعلی کاغذات لیفٹیننٹ کرنل پرساد پروہت نے تیار کیے ہیں، میرا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ ناشک پولیس نے شریش کی درخوست پر بھارتی فوج کے کرنل پروہت کے خلاف سرکاروارا تھانہ میں جعل سازی، دھوکا دہی، دو نمبری جیسے الزامات کے تحت مقدمہ درج کر لیا۔ بھارتی فوج نے اس کیس کو دبانے کی کوشش کرتے ہوئے یہ مشہور کر دیا کہ یہ گجرات کے ایک مندر کا پروہت ہے‘ کرنل پرساد پروہت نہیں۔ 
دراصل ہوا یہ تھا کہ دیولالی فوجی کیمپ کے کچھ فوجیوں نے کچھ پولیس اہل کاروں کو ان کے ایک ساتھی کو‘ جو سول کپڑوں میں تھا‘ روکنے پر بہت مارا تھا، اس معاملے کو فوج اور پولیس کے اعلیٰ افسران نے مل کر دبا دیا تھا لیکن جونہی ایک کرنل کے جعلی کاغذات تیار کرنے کا معاملہ پولیس کی نظروں میں آیا، میڈیا کو فوری طور پر اس کی اطلاع کر دی گئی اور شریش یشونت نے تو بھانڈہ ہی پھوڑ دیا جس نے ناشک پولیس کے ساتھ ساتھ دیگر لوگوں کو بھی اس کی اطلاع کر دی تھی۔ جب یہ بات ممبئی پولیس تک پہنچی تو بھارتی کرنل اور بالی ووڈ کے مشہور فلم سٹار سنجے دت کے ہتھیار رکھنے کے کیس سے اس کا موازنہ کیا جانے لگا کہ اگر اس کیس کو دبایا گیا تو پھر ماننا پڑے گا کہ مشہور فلم فیملی سے تعلق رکھنے والے فرد اور بھارتی فوج کے کرنل کیلئے قانون میں بہت فرق ہے۔ فارن میڈیا کو خبر ہونے سے یہ معاملہ سفارتی حلقوں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا جس کے بعد عالمی سطح پر بھی سوالات اٹھنے لگے۔ ممبئی پولیس کے ایڈیشنل کمشنر انسدادِ دہشت گردی سیل پرمبیر سنگھ پر ہندوستانی فوج کی ملٹری انٹیلی جنس کے چیف کی طرف سے سخت دبائو تھا کہ یہ کیس دبا دیا جائے کیونکہ بھارتی فوج کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ کسی اعلیٰ افسر کی دہشت گردی کے واضح اور ناقابلِ تردید ثبوت سامنے آ رہے تھے لیکن 'بات دور دور تک پھیل چکی تھی‘۔ کسی نے بالکل سچ کہا ہے کہ سچائی کو کچھ دنوں کیلئے یا کچھ عرصے کیلئے تو دبایا جا سکتا ہے‘ مصلحت کے تحت جھٹلایا جا سکتا ہے لیکن سچ کبھی نہ کبھی ظاہر ہو کر ہی رہتا ہے چاہے یہ ہزار نہیں‘ لاکھوں پردوں میں چھپایا گیا ہو۔ اسی طرح کا معاملہ خونِ ناحق کا ہے‘ وہ کسی کا بھی ہو‘ اپنے قاتل کو ایک دن دنیاکے سامنے کھڑا کر دیتا ہے۔ کرنل پروہت کا معاملہ جب بڑھا تو کئی کڑیاں آپس میں ملنے لگیں، پھر یہ معاملہ بھی سامنے آیا کہ بھارتی فوج کے چند اعلیٰ افسران نے اپنی ذاتی ملیشیا بنا رکھی تھیں۔ یہ سوال بھی اٹھایا جانے لگا کہ بھارتی فوج کے زیر قبضہ جموں و کشمیر کے چٹی سنگھ پورہ میں کئے جانے والے قتل عام میں کرنل پروہت کا گروپ تو شامل نہیں؟
فروری 2007ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان چلنے والی سمجھوتہ ایکسپریس کی کچھ بوگیوں کو کیمیکل، بارود اور تیل چھڑک کر بھسم کر دیا گیا تھا، اس سانحے میں 68 پاکستانی جل کر شہید ہو گئے تھے۔ بھارتی میڈیا اور بھارتی ادارے دنیا کو بے وقوف بنانے کیلئے ایک ہی راگ الاپتے رہے کہ یہ کام فلاں فلاں کشمیری تنظیموں کا ہے جو بھارت میں مسلمانوں کو مار کر دنیا بھی بھارت کو بدنام کرنا چاہتی ہیں لیکن جب ناشک پولیس کے انسدادِ دہشت گردی سیل نے اسلحہ لائسنس آگے بڑھایا اور کرنل پروہت کے خلاف دیولالی فوجی کیمپ کے جعلی کاغذات تیار کرنے میں ملوث دوسرے لوگوں کا پتا چلایا تو یہ بھیانک انکشاف ہوا کہ لیفٹیننٹ کرنل پرساد پروہت 2006ء میں جب دیولالی کیمپ میں تعینات تھا تو اس نے بھگوان داس نامی ایک شخص کو60کلوگرام آر ڈی ایکس (دھماکا خیز مواد) فراہم کیا تھا، اسی بھگوان داس کے گروپ میں شامل رام نارائن کلسنگرم، سمیر ڈینگ اور پرگیا سنگھ نے کرنل پروہت کی مدد سے2007ء میں سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین کی بوگیوں میں اور مالیگائوں کی مکہ مسجد میں بم دھماکے کرتے ہوئے 28 مسلمانوں کو شہید کیا تھا۔ یہ انکشاف بھارتی عوام پر بجلی بن کر گرا کہ بھارتی فوج کا ایمونیشن دہشت گردوں کی دسترس میں ہے اور وہ اس سے بھارت کے اندر دھماکے کر رہے ہیں۔ بھارت کے پبلک پراسیکیوٹر اجے مسار نے عدالت کے سامنے تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ تفتیش کے مطابق حاضر سروس لیفٹیننٹ کرنل پرساد شری کانت پروہت ہی میلگائوں کی مسجد اور سمجھوتہ ایکسپریس میں دھماکوں کا ماسٹر مائنڈ ہے اور اس گروپ میں اس کے ساتھ بھارتی فوج کے کچھ ریٹائرڈ اور حاضر سروس افسر بھی شامل ہیں اور اس سلسلے میں میجر رمیش اپاڈیا کو بھی گرفتار کیا جا چکا ہے‘ جس کی واقعے میں ملوث ہونے کی تصدیق میلگائوں بم دھماکے کے فوری بعد کرنل پروہت کی طرف بھیجے گئے پانچ ایس ایم ایس نے کر دی ہے۔ بعد ازاں یہ بھی ثابت ہو گیا کہ چٹی سنگھ پورہ میں 34 سکھوں کا قتل عام کرنے میں بھارت کی سپیشل سروسز گروپ کے پیرا بریگیڈ کے لوگ ملوث تھے۔ بھارت کے ایک عدالتی فیصلے کے مطابق گجرات ٹرین سانحے میں بھارت کے ہندوئوں کی ہی ایک مذہبی تنظیم ملوث تھی‘ ممبئی بم دھماکوں میں شیو سینا اور را کے فوجی ونگ کا ہاتھ نکلا اور سمجھوتہ ایکسپریس، ملیگائوں اور نئی دہلی بم دھماکوں میں بھارتی فوج کے حاضر سروس لیفٹیننٹ کرنل پروہت اور میجر رمیش نے اقرارِ جرم کیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved