تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     16-11-2020

کام وہی جو من بھائے

ہر دور کی نئی نسل کا انتہائی بنیادی مسئلہ کیریئر کے انتخاب کا رہا ہے۔ جب بچہ لڑکپن کی حدود سے گزرتا ہوا عنفوانِ شباب کی سرحد تک پہنچتا ہے تب یہ سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ وہ کرے گا کیا۔ زندگی بسر کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ جن کے حالات اچھے نہ ہوں اُن کے لیے کچھ کرنا بہت حد تک مجبوری کا سودا ہوتا ہے اور جوانی کا حسین دور معاشی سرگرمیوں کی نذر کرنا پڑتا ہے۔ معاشی سرگرمیاں اور کچھ کرنے کا معاملہ اُن تک محدود نہیں جو مالی مشکلات کا شکار ہوں‘ جنہیں اللہ نے بہت نوازا ہے اُن کی اولاد بھی جوانی کی حدود میں قدم رکھتے وقت کیریئر کے انتخاب کے جاں گُسل مرحلے سے گزرتی ہے۔ دنیا کے ہر انسان کو ڈھنگ سے جینے کے لیے معاشی سطح پر کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے۔
زندگی کا حُسن بھی اِسی امر میں مضمر ہے کہ انسان کمانے کی نیت سے کچھ کرے، اپنی صلاحیت و سکت کو بہتر طریق سے بروئے کار لائے۔ جب کچھ کرنا لازم ٹھہرا تو وہ کام کیوں نہ کیا جائے جو من کو بھائے؟ لوگ زندگی بھر کام کرتے ہیں، خوب کماتے ہیں مگر مطمئن نہیں ہو پاتے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ عموماً ایسا کام کرتے ہیں جو اُن کی پسند کا نہیں ہوتا۔ بیشتر معاملات میں کیریئر یعنی معاشی و پیشہ ورانہ سرگرمی کے شعبے کا تعین یا تو اہلِ خانہ کرتے ہیں یا پھر حالات کا دباؤ انسان کو اُس طرف جانے پر مجبور کردیتا ہے۔
نئی نسل بہت سے معاملات میں بُودی ہوتی ہے۔ کیریئر بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ جب لڑکپن ختم ہوتا ہے اور کچھ کرنے کا سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے تب نئی نسل کو مختلف شعبوں میں غیر معمولی کشش محسوس ہوتی ہے۔ کم و بیش ہر نوجوان کیریئر کے انتخاب میں غیر معمولی الجھن محسوس کرتا ہے۔ وہ آج اداکار بننے کا سوچتا ہے تو کل گلوکار بننے کا ذہن بناتا ہے۔ کبھی وہ کرکٹر بننے کا خواہش مند دکھائی دیتا ہے اور کبھی بزنس مین۔ کسی کو مصوری میں انوکھی جاذبیت محسوس ہوتی ہے اور کسی کو تصنیف و تالیف میں۔ یہ تو ہوئے خصوصی شعبے۔ عمومی سطح پر بات کیجیے تو کوئی مکینک بننے کا سوچ ہی رہا ہوتا ہے کہ اچانک خیال آتا ہے کہ نہیں، زیادہ مزا تو بڑھئی بننے میں ہے۔ پھر اچانک ہی ایسا لگتا ہے کہ جو مزا دکانداری میں ہے وہ کسی اور کام میں نہیں۔ کسی کو سیلزمین بن کر شہر بھر میں گھومنا اچھا لگتا ہے تو کسی کو آفس جاب اپنے مزاج کے مطابق دکھائی دیتی ہے۔
اگر کوئی رہنمائی نہ کرے تو نئی نسل کیریئر کے انتخاب کے مرحلے میں بُری طرح الجھ کر وقت، وسائل، صلاحیت اور سکت ضائع کرنے لگتی ہے۔ بہت سوں کو ایسی حالت میں بھی دیکھا گیا ہے کہ آج کچھ کر رہے ہیں اور کل کچھ اور۔ یوں وہ اپنے لیے کسی حتمی شعبے کا تعین کرنے میں کئی سال ضائع کردیتے ہیں۔ اس حوالے سے منصوبہ سازی ناگزیر ہے۔ کسی بھی شعبے میں قدم رکھنے کے بعد کامیابی کے لیے غیر معمولی تگ و دَو کرنے سے بہت پہلے یہ طے کرلینا لازم ہے کہ وہ شعبہ پسند کا بھی ہو اور سہولت والا بھی۔ اگر کوئی شخص محض پُرکشش ہونے کی بنیاد پر یا زیادہ کمانے کے لالچ میں کسی شعبے کا انتخاب کرتا ہے تو جان بوجھ پر اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارتا ہے کیونکہ جس شعبے کو زندگی بھر اپنائے رہنا ہے وہ مکمل طور پر اپنی پسند کا بھی ہونا چاہیے اور سہولت والا بھی۔ محض پسند کافی نہیں۔ دیکھنا پڑتا ہے کہ متعلقہ شعبے میں فقید المثال نوعیت کی کامیابی حاصل کرنے کے لیے کس حد تک جایا جاسکتا ہے۔
نئی نسل کو سب سے زیادہ یہ بات سمجھانے کی ضرورت پڑتی ہے کہ وہ ایسا شعبہ منتخب کرے جو کم از کم اُس کی زندگی میں تو غیر متعلق ہوکر نہ رہ جائے۔ بعض شعبے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مالی اعتبار سے کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ایسے شعبوں سے وابستہ افراد کی آمدنی میں کمی واقع ہوتی جاتی ہے اور وہ بہت کوشش کرنے پر بھی کچھ زیادہ کما نہیں پاتے۔ شعبہ منتخب کرتے وقت محض پسند نہیں دیکھنی چاہیے بلکہ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ ضرورت کے مطابق آمدنی کا حصول یقینی بنانے میں معاون ثابت ہوگا یا نہیں۔ فی زمانہ فطری علوم و فنون میں پیش رفت کا بازار گرم ہے۔ 
بہت سے شعبے اب یا تو مکمل طور پر غیر متعلق یا پھر یافت کے اعتبار سے قدرے کم پُرکشش ہوکر رہ گئے ہیں۔ پورے یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ کون سا شعبہ کب اچانک کمزور پڑے گا اور کون سا شعبہ یافت یعنی آمدنی کے اعتبار سے زیادہ بارآور اور پُرکشش ہو جائے گا۔ نئی نسل عام طور پر ایسے شعبوں کو پسند کرتی ہے جن میں چمک دمک زیادہ ہو، بن ٹھن کر کام پر جانے کی گنجائش زیادہ ہو اور آمدنی بھی معقول ہو۔ اپنی پسند یعنی مزاج کے مطابق کوئی بھی شعبہ منتخب کرتے وقت یہ بھی دیکھنا لازم ہے کہ اُس شعبے سے وابستہ رہنے کی کیا قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ بعض شعبے خاصی چمک دمک والے ہوتے ہیں اور اُن سے وابستہ ہونے والوں کو بہت بعد میں اندازہ ہو پاتا ہے کہ انہوں نے اپنے مزاج کے ہاتھوں غُچہ کھایا ہے یعنی دُور کے ڈھول سہانے تھے، قریب آنے پر معلوم ہواکہ جس شعبے میں رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے کا سوچا گیا ہے وہ نہ زیادہ سہولت والا ہے نہ زیادہ یافت والا۔ زیادہ کمانے کی گنجائش نہ ہونے کی صورت میں انسان اپنے پسند کیے ہوئے شعبے سے متنفر ہو جاتا ہے اور یوں اچھی خاصی زندگی ملال اور پچھتاوے کی نذر ہوکر رہ جاتی ہے۔
نئی نسل کو کیریئر کے حوالے سے مشاورت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اُس میں صرف ولولہ ہوتا ہے، سنجیدگی اور بُرد باری نہیں۔ جوانی کے جوش میں بے عقلی کے ساتھ کیے ہوئے فیصلے زندگی بھر دکھ دیتے رہتے ہیں۔ کیریئر مرتے دم تک کا معاملہ ہوتا ہے۔ انسان اگر کسی شعبے میں آگے بڑھنے کا فیصلہ کرے اور اس شعبے میں جوانی کے آٹھ دس سال گزارنے کے بعد غلطی کا احساس ہو بھی جائے تو پسپا ہوتے ہوئے ہچکچاتا ہے۔ کیریئر یعنی معاشی میدان کے انتخاب میں کی ہوئی غلطی کو بعض نوجوان محض اس لیے نبھاتے رہتے ہیں کہ اُنہیں طنز و تشنیع کا نشانہ بنائے جانے کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ لوگوں کے طنز اور تنقید سے بچنے کے نام پر کسی غلط شعبے میں کام کرتے رہنا انسان کو یکسر غیر متوازن حالت میں لا چھوڑتا ہے۔ نئی نسل کے لیے کیریئر کے انتخاب کا مرحلہ آسان بنانے کی بنیادی ذمہ داری والدین اور اساتذہ کی ہے۔ وہ جہاں دیدہ ہونے کی بنیاد پر نئی نسل کو بہت آسانی سے ایسا بہت کچھ سمجھا اور سکھاسکتے ہیں جس کے سمجھنے اور سیکھنے کے لیے انہیں خاصی تگ و دَو کرنا پڑسکتی ہے۔ اس معاملے میں تامّل کی گنجائش ہے نہ تساہل کی۔
نئی نسل بڑوں سے بہت سی توقعات رکھتی ہے۔ بڑوں کو ان کی مالی ضرورتوں ہی کا خیال نہیں رکھنا ہوتا، وہ جذبات اور خیالات کی تطہیر و تہذیب کے معاملے میں بھی بہت حد تک ذمہ دار ہوتے ہیں۔ نئی نسل کو کیریئر یعنی معاشی میدان کے لیے ڈھنگ سے تیار کرنے کے معاملے میں والدین اور اساتذہ کو اپنا کردار پوری دیانت، لگن اور ولولے سے ادا کرنا چاہیے تاکہ زندگی بھر کے لیے اپنایا جانے والا شعبہ معیاری ہو اور پسند کا ہونے کے ساتھ ساتھ بارآور بھی ثابت ہو اور زندگی آسائشوں کے ساتھ، پُرسکون انداز سے بسر ہو۔ قصہ مختصر، انسان کو کام وہی کرنا چاہیے جو اولاً من کو بھائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved