چند سال قبل جنوبی افریقہ کے ایک تبلیغی دورے کے دوران بنگلہ دیش کے دوستوں کو میری آمد کا پتا چلا تو میرے پاس تشریف لائے۔ یہ ہماری پہلی ملاقات تھی، مگر وہ ساتھی مجھے یوں جانتے تھے کہ خود مجھے تعجب ہو رہا تھا۔ رنگ و زبان اور قوم قبیلے سے بالاتر ہو کر بطور مسلمان باہمی محبت ہی ''الحب فی اللہ‘‘ کہلاتی ہے۔ گردآلود ڈائری کا یہ ورق آج زیر مطالعہ رہا۔ ہمارے بنگلہ دیشی بھائی جس ملک میں بھی ہوں‘ اسلامی تنظیم قائم کر کے مثبت سرگرمیاں جاری رکھتے ہیں۔ 16؍ ستمبر بنگالی بھائیوں کا ملکی سطح پر تنظیمی اجلاس جوہانسبرگ میں ہو رہا تھا۔ صدرِ حلقہ جناب مشرف بھائی نے ملاقات کے دوران بڑی تاکید فرمائی کہ اس پروگرام میں ضرور شرکت کروں۔ میں خود ان بھائیوں سے ملنے کا مشتاق تھا۔ اگلے روز ناشتے کے بعد حافظ ندیم صاحب تشریف لائے تو ہم مرکز اسلامی روانہ ہوئے۔ یہاں کچھ دیر کے لیے دھوپ سے لطف اندوز ہوئے اور مختلف خبریں سنیں۔ ایک خبر یہ تھی کہ ہمارے بھائی جناب خالق داد بھٹی صاحب نے ایک ''چوری اور سینہ زوری‘‘ کی ہے۔ مجھے یہ سن کر قدرے تعجب ہوا ، مگر حافظ ندیم صاحب نے ہنستے ہوئے انکشاف کیا کہ ان کی چوری ابھی آپ کے سامنے آجائے گی، یہ انکار نہیں کرسکیں گے۔ بھٹی صاحب مسکرا رہے تھے۔ میں نے کہا عجیب چور ہے جو چوری کے تذکرے سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ اس پر مجلس میں قہقہے بلند ہوئے۔
دورِ جدید میں سائنس اور تکینکی علوم نے حیرت انگیز صورتِ حال پیدا کر دی ہے۔ ندیم صاحب نے اپنے وٹس ایپ (Whatsapp) پر انگلیاں ماریں تو ایک تصویر سامنے آئی، جس میں بھٹی صاحب میری جناح کیپ پہنے مسکراتے ہوئے تصویر بنوا رہے تھے۔ گزشتہ روز جب میں وضو کے لیے اٹھا، تو ٹوپی اتار کر میز پر رکھ دی۔ ان دونوں دوستوں نے میری ٹوپی پڑی ہوئی دیکھی تو انہیں شوق چرایا کہ اس کا کوئی مصرف ڈھونڈا جائے؛ چنانچہ تصویر بنائی اور اسے فیس بک پر ڈال دیا۔ کچھ ہی دیر کے بعد دیگر مقامات سے بھی اس سرقہ کے بارے میں دلچسپ تبصرے موصول ہونے لگے۔ یہ چوری بھی عجیب تھی اور چور بھی کمال کا! خالق داد بھٹی صاحب ہر تبصرے پر محظوظ ہوتے رہے۔
نمازِ ظہر مرکز کی قریبی مسجد میں ادا کی اور بنگالی بھائیوں کی طرف روانہ ہوئے۔ انہوں نے بنگالی ہوٹل کے قریب ہی ایک کرائے کی عمارت میں اپنے دفاتر قائم کر رکھے ہیں۔ یہ بہت اچھی جگہ ہے، جس میں اجتماعات کی گنجائش موجود ہے۔ ملک بھر سے آئے ہوئے حلقوں (9 صوبوں) کے ذمہ داران کی تعداد پچاس‘ ساٹھ کے درمیان تھی۔ ہمارے وہاں پہنچنے سے قبل بعض حلقوں کی رپورٹس پیش کی جاچکی تھیں۔ خوبی یہ ہے کہ ہر رپورٹ پر مرکزی ذمہ داران کے علاوہ دیگر ساتھی بھی تبصرہ کرسکتے تھے۔ جن حلقوں کی رپورٹس باقی رہتی تھیں، وہ ظہرانے کے بعد پیش ہونا تھیں۔ ہمارے پہنچنے سے پہلے حکمران سیاسی پارٹی اے این سی (ANC) سے تعلق رکھنے والا ایک کونسلر اور اس کا ایک ساتھی بھی وہاں پر موجود تھے۔ مشرف بھائی نے مقامی لوگوں سے بہت اچھے دوستانہ تعلقات قائم کر رکھے ہیں۔ یہاں بسنے والی تمام مسلم قومیتوں سے بھی ان کے راہ و رسم ہیں۔ صومالی کمیونٹی کے ایک ذمہ دار‘ جن کا نام ذہن سے اتر گیا ہے‘ بھی اجلاس میں خصوصی دعوت پر موجود تھے۔
ہماری آمد پر تمام ساتھیوں نے اپنا تعارف کرایا اور اس کے بعد مشرف بھائی نے اعلان کیا کہ کھانا تیار ہے۔ سب بھائی کھانا کھائیں گے، جس کے بعد ہم پاکستان سے آئے ہوئے اپنے مہمان کے خیالات سنیں گے۔ بنگالی بھائیوں کا کھانا بہت مزے دار تھا۔ مچھلی خوب بنی ہوئی تھی اور چکن بریانی بہت مزے دار تھی۔ سلاد بڑے سلیقے سے تیار کیا گیا تھا۔ مجھے مچھلی بہت پسند ہے، مگر مچھلی کھانے سے الرجی ہوجاتی ہے۔ اس لیے اس معاملے میں اپنے آپ پر جبر کرکے احتیاط برتنا پڑتی ہے۔ بنگالی بھائیوں کا تو کھا نا ہی مچھلی اور چاول ہے۔ اسے وہ ''مچھ بھات‘‘ (Machh Bhat)کہتے ہیں۔ اسی وجہ سے مشرف بھائی شاکی تھے کہ اصل ڈش کی طرف میرا ہاتھ کیوں نہیں بڑھ رہا۔ میں نے ان کے کہنے پر مچھلی کے کچھ لقمے لے لیے۔ کھانے کے بعد فروٹ پیش کیا گیا، جس میں کیلا، سیب اور سنگترے تھے۔ حکمران پارٹی اے این سی کے ایک غیر مسلم کونسلر بھی دعوت میں موجود تھے۔ مجھے تجسس یہ تھا کہ موصوف مسلمانوں کے بارے میں کیا خیالات اور رائے رکھتے ہیں۔
مجھے خوشی ہوئی کہ مسلمانوں کے بارے میں کونسلر صاحب نے بہت اچھے خیالات کا اظہار کیا۔ میں نے پوچھا کہ کیا انہوں نے اسلام کا بھی کچھ مطالعہ کیا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ہاں مسلمانوں سے ملاقات بذاتِ خود ایک مطالعہ ہے۔ واقعی مشرف بھائی جیسے خوش اخلاق اور اسلامی احکام پر کاربند مسلمان چلتی پھرتی کتاب ہیں۔ صومالی بھائی نے اپنی تنظیم کے بارے میں بتایا کہ اللہ کے فضل و کرم سے وہ بہت منظم اور مضبوط ہے۔ ہر جگہ صومالی کمیونٹی نے اپنے مراکز اور مساجد کا اہتمام کر رکھا ہے۔ کاروبار میں بھی اللہ نے بڑی برکت دی ہے؛ تاہم صومالیہ کے حالات پر ہماری طرح وہ بھی آزردہ اور نالاں تھے۔ یہ المیہ ہے کہ صومالی بھائی دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی رہائش پذیر ہیں، نہایت خوش حالی کی زندگی گزار رہے ہیں مگر اپنے وطن مالوف میں بدترین صورتِ حال سے دوچار ہیں۔
اجلاس کا دوسرا سیشن تلاوت قرآن پاک اور نعت خوانی سے شروع ہوا ۔ اس کے بعد حلقے کے سیکرٹری جنرل جناب علی اکبر صاحب نے مجھے خطاب کی دعوت دی۔ ساتھ ہی فرمایا کہ اپنے دورِ طالب علمی کے کچھ واقعات بھی ہمیں سنائیں۔ میں نے پہلے تو عالمِ اسلام کے عمومی حالات کے بارے میں چند گزارشات عرض کیں۔ پھر امتِ مسلمہ کی زبوں حالی کا تذکرہ کیا ، عالمی اسلامی تحریکوں کی کیفیت بیان کی اور بنگلہ دیش اور مصر میں جاری حکومتی مظالم پر اپنے رنج و الم کا اظہار کیا۔ اس کے ساتھ کشمیر، فلسطین کا مسئلہ اور عالمی اسلامی تحریکوں کے باہمی روابط اور درپیش مسائل و مشکلات کا تذکرہ ہوا۔ میں نے اپنے دورِ طالب علمی کے حوالے سے مولانا مطیع الرحمن نظامی، عبدالمالک شہیدؒ، عبدالقادر ملا شہیدؒ، قمرالزمان شہیدؒ، میر قاسم علی شہید اور دیگر ساتھیوں کا‘ جو جیلوں میں بند ہیں‘ تذکرہ کیا، جن سے دورِ طالب علمی میں دوستانہ اور برادرانہ تعلقات رہے تھے۔
عبدالمالک شہید اور میں دونوں مرکزی شوریٰ میں کل پاکستان بنیادوں پر منتخب ہوتے رہے تھے۔ مطیع الرحمن نظامی صاحب ہمارے دور طالب علمی میں متحدہ پاکستان میں اسلامی جمعیت طلبہ (اسلامی چھاترو شنگھو) کے آخری ناظمِ اعلیٰ تھے۔ میں نے عبدالمالک بھائی کی شہادت کا تذکرہ قدرے تفصیل سے کیا۔ ان کے بعد بننے والے ناظم جناب شاہ جمال چودھری شہید اور مصطفی شوکت عمران شہید کا بھی تذکرہ کیا۔ یہ سب بہت قیمتی ہیرے تھے۔ انہیں بڑی بے دردی سے عوامی لیگی غنڈوں نے یکے بعد دیگرے شہید کیا تھا۔ ان کے تذکرے پر احباب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
میری گزارشات کے بعد کچھ سوالات ہوئے جو مختلف تحریکوں اور ان پر آنے والے ابتلا کے حوالے سے تھے۔ سوال جواب کی اس محفل کے بعد برادرِ عزیز مشرف صاحب نے ہمارا شکریہ ادا کیا اور اپنے تنظیمی کام کے حوالے سے مختصر وقت میں بہت اچھی معلومات فراہم کیں۔ بنگالی بھائی بڑے اخلاص کے ساتھ دروسِ قرآن اور دیگر اجتماعات کے ذریعے خود کو منظم کیے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے ملک کے حالات سے پوری طرح باخبر رہتے ہیں اور وہاں اپنے ساتھیوں سے ان کا رابطہ روزانہ کی بنیادوں پر قائم ہے۔ اللہ تعالیٰ ان ساتھیوں کو سلامت رکھے اور بنگلہ دیش میں زیرِ ابتلا کارکنان اور رہنماؤں کی حفاظت فرمائے۔ (علی احسن محمد مجاہدبھائی کا کیس ان دنوں آخری مراحل میں تھا، اب یہ سطور لکھتے ہوئے بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ قیمتی ہیرا بھی 22؍ نومبر2015ء کو تختۂ دار کی نذر ہوگیا۔ اللہ ظالموں کی رسی کھینچ لے اور اپنے مظلوم و مخلص بندوں کو ظلم سے نجات عطا فرمائے) اس اندھیر نگری پر پوری دنیا خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے، حکومتِ پاکستان مکمل لا تعلق ہے۔ ہم اپنی فریاد قادرِ مطلق کے دربار ہی میں پیش کرسکتے ہیں۔ اس کے ہاں دیر ہے مگر اندھیر نہیں!
پروگرام کے اختتام پر بنگالی بھائیوں سے ہم نے اجازت لی، سب بھائی ایک ایک کر کے آئے اور سب نے معانقہ کیا۔ ان کے معانقے میں جو اپنائیت اور محبت تھی، اس کی شیرینی اب تک دل میں بسی ہے۔ اللہ کی خاطر محبت ایک بہت بڑا اثاثہ ہے۔ہم کمزور بندوں کو یہ صاحبِ عزیمت لوگ جب محبت سے نوازتے ہیں تو دل سے ان کے لیے دعائیں نکلتی ہیں۔ مشرف بھائی نیچے تک ہمارے ساتھ جانا چاہتے تھے، مگر میں نے کہا کہ آپ اپنے پروگرام کو جاری رکھیں، ہماری گاڑی آپ کے دفتر کے نیچے کھڑی ہے، کسی تکلف کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے باوجود دو تین ساتھی بشمول معصوم باللہ اور علی اکبر نیچے تک آئے اور الوداع کہا۔
ان عزیز بھائیوں کو الوداع کہہ کر ہم واپس مرکز اسلامی پہنچے۔ آج شام کو ہمارے پروگرام میں دیر بالا سے تعلق رکھنے والے جماعتی بھائی جناب محمد خالد خان صاحب کے ہاں عشائیے کے لیے جانا شامل تھا۔ مرکز میں آکر نماز عصر ادا کی ،پھر کچھ دیر کے لیے آرام کیا اور نمازِ مغرب پڑھ کر ہم اپنے پیارے بھائی محمد خالد خان صاحب کے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ ان کے گھر تک پہنچانے میں گاڑی میں لگے مانیٹر نے بڑی رہنمائی کی اور ہم آسانی سے منزل پر پہنچ گئے۔ یہ محفل بہت یادگار رہی۔