نومبر کا بیچ آ پہنچا۔ پورے ملک میں موسم بدل رہا ہے۔ اسلام آباد میں ٹھنڈ اور شمالی علاقوں میں باقاعدہ سردیوں کا آغاز ہو گیا ہے۔ لاہور میں وہ موسم ڈیرے ڈال چکا ہے‘ جسے گلابی جاڑا کہتے ہیں۔ کم و بیش پورے ملک میں موسم تو بدل ہی چکا ہے لیکن سرما کی پہلی برف باری نے پہاڑوں کو سفید قبا بھی پہنا دی ہے۔ لاہور میں پہلی بارش نے سردی کو کمروں کے اور لوگوں کو کمبلوں کے اندر پہنچا دیا ہے۔ پورے ملک میں اس موسم کا انتظار اور خیر مقدم کیا جاتا ہے۔ یہ پہننے، اوڑھنے، کھانے پینے، گھومنے پھرنے کا موسم ہے۔ شاعری کا موسم ہے۔ چائے اور کافی کا موسم ہے۔ کافی‘ دو تین سال پہلے جاڑوں میں ایک شعر کہا تھا ؎
تم ہو اور سردی میں خوشبو کافی کی
میں نے شاید باقی عمر اضافی کی
ویسے تو اب کافی کا تعلق نہ کسی مخصوص ملک سے ہے اور نہ کسی خاص موسم سے لیکن سردیوں کے ساتھ وابستہ رومان اپنی جگہ قابل احترام ہے۔ آج صبح جب کافی کے گرم گھونٹ پی رہا تھا تو میں نے سوچا کہ اگر میں کسی کو یہ بتاؤں کہ کافی کا لفظ عربی لفظ قہوے سے نکلا ہے تو لوگ حیران ہوں گے۔ اور اگر میں یہ بھی ذکر کردوں کہ کافی مسلمان درویشوں کا مشروب ہے اور انہی کے ذریعے زیادہ تر دنیا میں متعارف ہوا ہے تو دنیا بھر میں کافی کی غیر معمولی مقبولیت کے سبب اس پر یقین ہی نہیں کیا جائے گا۔
کافی اب تو خیر 70 سے زیادہ ممالک میں پیدا کی جاتی ہے لیکن کافی کے پودے ''جینس کوفیا (genus coffea)‘‘ کے اصل وطن گرم بارانی جنگلات والے افریقی اور بحر ہند کے ممالک مثلاً ایتھوپیا، مڈغاسکر، ماریشیس اور ری یونین وغیرہ ہیں۔ کوفیا کے اندر کی پھلیاں پکنے پر انہیں چن لیا جاتا ہے اور خشک کر لیا جاتا ہے۔ خشک پھلیوں کو‘ جنہیں ''بینز (Beans)‘‘ کہا جاتا ہے‘ بھون کر پیس لیا جاتا ہے۔ بس یہی کافی ہے۔ اسے مختلف درجہ ہائے حرارت پر بھوننے اور بعد میں تیار کرنے کے طریقوں نے ذائقوں میں بھی تنوع پیدا کر دیا ہے۔ بنیادی طور پر کافی کی دو اقسام ہیں۔ ''عربیکا (Arabica)‘‘ جو نفیس قسم ہے اور ''روبسٹا (Robusta)‘‘ جو ذرا سخت اور تلخ فصل ہے۔ خط استوا پر واقع ممالک میں خصوصاً جنوبی امریکا میں یہ خوب کاشت کی جاتی ہے۔
یہ جو میں نے اوپر بات کی تھی کہ کافی کا لفظ دراصل عربی سے آیا ہے‘ وہ بے دلیل نہیں ہے۔ اگر سامی زبانوں پر ایک نظر ڈالیں جو دائیں سے بائیں لکھی جاتی ہیں تو '' قہہ‘‘ کے مادے کا مطلب ہے گہرا رنگ یا تاریک۔ یہی لسانی مادہ عربی لفظ ''قہوے‘‘ کا منبع ہے عربی لغات دان ''قھی‘‘ کا مطلب بتاتے ہیں: بھوک ختم کرنے والا۔ قہوہ کا لفظ عثمانی ترکوں نے عربی سے لیا اور یہ ترکی میں ''قہوے (kehve)‘‘ کے طور پر رائج ہو گیا۔ ترکوں سے ولندیزی یعنی ڈچ زبان میں یہی لفظ ''کوفی (koffie)‘‘ کے نام سے آیا اور 1582ء میں انگریزی زبان میں پہلی بار ''کافی (coffee)‘‘ کے نام سے متعارف ہوا۔
چلیے! یہ تو اس لفظ کے متعارف کرانے کی بات تھی‘ کافی پہلی بار کس نے متعارف کروائی یہ بھی مزے کی بات ہے۔ کئی روایات ہیں اور ہر روایت میں کوئی نہ کوئی مسلمان موجود ہے۔ ایک قدیم روایت کے مطابق شیخ عمر نامی بزرگ جو بڑے مستجاب الدعوات مشہور تھے‘ موشہ (یمن) میں رہتے تھے۔ ایک زمانے میں انہیں ان کے آبائی وطن سے جلا وطن کرکے وصاب نامی دشت میں جلا وطن کر دیا گیا جہاں ایک غار ان کا مسکن تھا۔ یہ ایسا ویرانہ تھا جہاں کھانے پینے کو کچھ نہیں تھا۔ شیخ عمر نے ایک خودرو جھاڑی دیکھی اور اس کی پھلیوں سے بھوک مٹانے کی کوشش کی مگر یہ سخت تلخ تھیں۔ انہوں نے ان پھلیوں کو بھونا لیکن یہ اور سخت ہو گئیں۔ پھر انہوں نے ان پھلیوں کو پانی میں اُبالا تاکہ نرم ہو سکیں۔ نتیجہ ایک خوشبودار، توانائی بخش بھورا مشروب تھا جسے پینے سے شیخ عمر کو توانائی مل گئی اور وہ اس ویرانے میں زندگی کرنے کے قابل ہو گئے۔ یہ کافی کی دریافت تھی۔ جب موشہ میں اس معجزاتی مشروب کی داستانیں پہنچیں تو شیخ عمر کو واپس بلا لیا گیا۔ اس طرح یمن میں پہلی بار کافی متعارف ہوئی۔ یمن کی خانقاہوں میں یہ مشروب تیزی سے مقبول ہوا، اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ یہ جان دار قہوہ عبادت گزاروں کو رات بھر جاگنے میں مدد دیتا تھا۔
یہ مسلمان صوفیا اور کافی کی دوستی کا آغاز تھا۔ تعارف کے بعد یمنی تاجر مشرقی افریقہ سے یمن میں کافی کے بیج لانے لگے اور سب سے پہلے یمن کی مسلم خانقاہوں میں علماء اور درویشوں کے حلقوں میں پھلیاں یعنی بینز بھون کر اور پیس کر اسی طرح کافی بنائی گئی جیسے آج کل رواج ہے۔ پھر یمن میں اس کی کاشت شروع ہوئی۔ پندرھویں صدی کے وسط میں کافی کے پودے کی کاشت اور تعارف میں یمن ہی کے احمد الغفار کا نام بھی قابل اعتماد شہادتوں میں موجود ہے۔ محمد بن سعید نے پہلی بار کافی عدن میں متعارف کروائی۔ ایک اور صوفی بزرگ علی بن عمر نے عرب دنیا میں کافی کو فروغ دیا۔ یہ بزرگ سلطان صلاح الدین ایوبی کے ساتھی ملک العادل کے ساتھ بھی کافی مدت رہے۔ معروف مسلمان عالم ابن حجر الہیثمی ایک مشروب کا ذکر کرتے ہیں جس کا نام قہوہ ہے اور وہ ذیلہ کے علاقے میں اگنے والے ایک پودے سے بنایا جاتا ہے۔ مشرق وسطیٰ سے کافی سب سے پہلے صوفی بزرگ بابا بودان ہندوستان لائے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے دورانِ سفر کافی کے بیج اپنے جسم کے ساتھ باندھ کر ان کی حفاظت کی اور ہندوستان میں میسور کے علاقے میں کافی کا پہلا پودا لگایا۔ سولہویں صدی میں کافی ایران، ترکی اور شمالی افریقہ پہنچ چکی تھی۔ وہاں سے کافی یورپ میں داخل ہوئی اور پھر وہاں سے دنیا بھر میں پھیلتی گئی۔ یورپی سیاحوں‘ معالجوں اور سفیروں نے اس مشروب کو حیرت سے دیکھا۔ 1583ء میں ایک جرمن ڈاکٹر لیونہارڈ راوولف نے مشرق وسطیٰ کے اپنے دس سالہ دورے کے بعد لکھا: ''لکھنے والی سیاہی کی طرح کا ایک سیاہ مشروب جو بہت مزے سے صبح صبح پیا جاتا ہے‘ معدے کی بیماریوں سمیت کئی بیماریوں کے لیے مفید ہے۔ ایک جھاڑی کے پھل اور پانی سے بنایاجانے والا یہ مشروب بڑے سے چینی کے برتن میں ڈال کر سب کو پیش کیا جاتا ہے اور دائرے میں موجود باری باری ہر شخص اس میں سے پیتا ہے‘‘۔
یورپ، امریکا اور جنوبی امریکا تک کافی کی رسائی اور اس کے اثرات کی ایک لمبی داستان چھوڑتے ہیں۔ مختصر یہ کہ برازیل اب کافی کی پیداوار میں دنیا میں نمبر ایک ہے اور دنیا بھر میں کاشت سے لے کر پیے جانے تک کافی کے کاروبار سے منسلک افراد اربوں ڈالرز کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ صرف پھلیوں کو بھوننے اور خشک کرنے سے لے کر مختلف انداز کی کافی تیار کرنے کے طریقوں پر ڈھیروں ڈھیر کتابیں تصنیف ہو چکی ہیں۔ ترکی کافی، ایسپریسو، فرنچ پریس، کیپے چینو، آئرش کافی، آئس کافی، بلیک لیٹے، کیفے امریکانو۔ ذائقے گنتے جائیے اور حیران ہوتے جائیے، لیکن ٹھہریے! بات ذائقوں پر ختم نہیں ہوتی۔ تیار شدہ کافی کی سطح پر مختلف خوبصورت ڈیزائن بنانے کا فن اب ''لیٹے آرٹ‘‘ کے نام سے مقبول ہو چکا ہے اور تجارتی کمپنیاں اس میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ میں لگی ہوئی ہیں۔
اور اب ہم اس یقین کے ساتھ کافی پیتے ہیں کہ یہ مغربی دنیا کی عطا ہے۔ ان سب مغربی برانڈز کی کافی میری طرح آپ بھی پسند کرتے ہوں گے۔ یہاں تواس تحریر کا مقصد تو صرف یہ ہے کہ ہم کافی کا گھونٹ بھرتے ہوئے ان لمبی قباؤں اور سفید عماموں والے علماء اور درویشوں کی طرف بھی نظر اٹھا کر دیکھ لیا کریں جو بھوری اور خاکستری چھوٹی اینٹوں کی بنی ہوئی خانقاہ میں حلقہ بنائے بیٹھے ہیں اوراب ایک دنیا ان کے منفرد مشروب کی حلقہ بگوش ہے۔ میں بھی ان کا حلقہ بگوش ہوں۔ کیا آپ نہیں ہیں؟