یہ بھی خوب ہے کہ جو کچھ بھی زندگی کو برباد کرنے کا باعث بنا ہے وہ سب کچھ سبھی کو بھایا ہوا ہے۔ کسی بھی حوالے سے اصلاحِ احوال کی فکر کا لاحق ہونا مستحسن ہے مگر اصلاحِ احوال کا خیال تو آئے‘ یہاں تو کسی کوکچھ فکر ہی لاحق نہیں۔ احمد ندیم قاسمی مرحوم نے کہا تھا ؎
دل گیا تھا تو یہ آنکھیں بھی کوئی لے جاتا
میں فقط ایک ہی تصویر کہاں تک دیکھوں
اس وقت پاکستانیوں کی مجموعی کیفیت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ بہتر یا قابلِ رشک انداز سے زندگی بسر کرنے کے لیے جو کچھ کیا جانا چاہیے وہ کیا نہیں جارہا اور ایسا لگتا ہے کہ عمومی سطح پر ایسا کچھ کرنے کی طرف دھیان ہی نہیں دیا جارہا۔ شدید نوعیت کی بے حِسی اور بے ذہنی نے زندگی کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ کتنا ہی سوچیے، صرف حیرت ہاتھ آتی ہے یا پھر تاسّف۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اب حیران ہونے کی زیادہ گنجائش نہیں رہی، صرف تاسّف مقدر ہوکر رہ گیا ہے۔ ایک قوم کی حیثیت سے ہم نے اللہ کی عطا کردہ دھرتی یعنی پاکستان میں سات عشرے یوں گزارے ہیں گویا زندگی رہنے کی لگن سے ہمارا کوئی واسطہ نہ ہو، کچھ کر دکھانے کی لگن ہمارے لیے نہ ہو اور اقوام کی برادری میں کسی مقام بلند مقام تک پہنچنا دوسرا کا معاملہ ہو تو ہو‘ ہمارا ہرگز نہیں۔ محض جیے جانے کو یعنی سانسوں کے تسلسل کے برقرار رہنے ہی کو سب کچھ سمجھ لیا گیا ہے۔ لوگ اِسی کو زندگی سمجھ کر یوں جی رہے ہیں گویا جو کچھ دل و دماغ میں ہوتا ہے وہ سب کچھ پالیا ہے۔ معیشت ہو یا معاشرت، سیاست ہو یا ثقافت ‘ ہر شعبہ، ہر معاملہ شدید بگاڑ کا شکار ہے۔ یہ بہت دکھ کی بات ہے مگر زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ سارا بگاڑ ہمارا اپنا پیدا کردہ ہے۔ ایک زمانے سے ہم نے بے عملی کی چادر اوڑھ رکھی ہے، تغافل اور تساہل کو زندگی کی سب سے بڑی قدر کا درجہ دے رکھا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ تو جناب! اِس ''کیوں‘‘ کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ پنجابی میں جگتوں کے دوران جب جگت باز سے پوچھا جاتا ہے کہ فلاں معاملہ حیرت انگیز ہے مگر کیوں ہے تو جواب ملتا ہے ''ایویں ای!‘‘ یہ ''ایویں ای‘‘ ہماری اجتماعی زندگی پر محیط ہوکر رہ گیا ہے۔ ہم ایسا بہت کچھ کر رہا ہے جس کے بارے میں کچھ سوچنے کی زحمت گوارا ہی نہیں کی جاتی۔ بے عملی، بے ذہنی اور بے حِسی کے معاملے میں سب ایک دوسرے کی نقل کر رہے ہیں۔
جب بھی کسی قوم میں بے عملی کا چلن عام ہو، بے ذہنی بہت بڑھ جائے، لوگ بیشتر معاملات میں درست فیصلے کرنے کی لیاقت سے محروم ہو جائیں، شش و پنج کی کیفیت پورے ماحول کو لپیٹ میں لے چکی ہو تب کوئی بھی تبدیلی آسانی سے رونما نہیں ہو پاتی۔ اگر معاملات کو ہونے دیا جائے تو کچھ بھی نہیں ہو پاتا۔ معاملات انفرادی سطح کے ہوں یا اجتماعی سطح کے‘ درست اُسی وقت ہو پاتے ہیں جب انہیں درست کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے۔ نظر چُوکی اور کام تمام۔ یہ سب کچھ صرف ہمارے لیے نہیں۔ ہر معاشرے کا یہی حال ہے۔ حق تو یہ ہے کہ آج جو اقوام ہمیں بہت مضبوط اور خوش حال دکھائی دے رہی ہیں اُنہیں بہت کچھ ''ایویں ای‘‘ نہیں مل گیا۔ کئی نسلوں کو بہت کچھ کرنا اور برداشت کرنا پڑتا ہے تب کہیں جاکر معاملات درست ہو پاتے ہیں، کچھ کر دکھانا ممکن ہو پاتا ہے اور تب کہیں جاکر دنیا لوہا مانتی ہے، قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ آج جو اقوام کسی بلند مقام پر دکھائی دے رہی ہیں اُن کی تاریخ کھنگالیے تو اندازہ ہوگا کہ خرابیاں اُن میں بھی تھیں، بے حِسی اور بے عملی اُن کے اجتماعی وجود کا بھی حصہ تھی اور وہ بھی شدید انحطاط کے شکنجے میں پھنس کر رہ گئی تھیں مگر پھر کچھ کرنے کا سوچا گیا، بڑوں نے قیادت کا حق ادا کرنے کی تیاری کی تو بے عملی ترک کرکے کچھ نیا کرنے کی راہ ہموار ہوئی۔ یوں بے حِسی و بے ذہنی ختم ہوئی، غور و فکر کو زندگی کی بنیادی قدر کا درجہ حاصل ہوسکا۔
ہمارا معاشرہ اس وقت بند گلی میں ہے۔ اس بند گلی سے نکلنے کی کوئی راہ دکھائی نہیں دے رہی۔ ڈھنگ سے جینا ہے اور کچھ کر دکھانا ہے تو بہت کچھ کرنا ہے۔ یہ سب کچھ کیسے کرنا ہے یہ سوچنا اولاً قائدین کا کام ہے۔ ہم نے سیاست و معاشرت میں جنہیں اپنا بڑا بنا رکھا ہے اُنہیں اپنا فرض نبھانا ہے مگر وہ ایسا کرنے میں اب تک ناکام ہی رہے ہیں۔ مغرب کی تاریخ کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ صدیوں کی جہالت اور تاریکی ختم کرنے کے لیے کچھ لوگ اٹھے اور اپنے حصے کا کام کرکے گئے۔ لکھنے والوں نے لکھ کر اپنی اپنی قوم کو جگایا۔ اہلِ سیاست نے سیاست کو مال بٹورنے کا ذریعہ بنانے کے بجائے اپنی اپنی قوم کو شدید انحطاط کے اندھے کنویں سے نکالنے پر توجہ دی اور مطلوب نتائج یقینی بنانے میں کامیاب رہے۔ ہمارے جیسے معاشروں کا المیہ یہ ہے کہ جن سے یہ توقع ہے کہ راہ دکھائیں گے وہی راہ سے ہٹے ہوئے ہیں۔ سیاست کے ذریعے جو فرد کو اجتماعیت کا حصہ بنانے اور اجتماعیت کی مدد سے قومی استحکام یقینی بنانے کا فریضہ انجام دیا کرتے ہیں وہ اپنی جیب یا تجوری سے آگے دیکھ نہیں پارہے۔ ذاتی مفادات نے نام نہاد قائدین کو بھی بند گلی میں کھڑا کردیا ہے۔ اجتماعی مفادات کے بارے میں سوچنے کی توفیق اُنہیں بھی نہیں مل سکی ہے جنہیں لازمی طور پر سوچنا ہے۔ ایسے میں عام آدمی کیا کرے، کہاں جائے، خود کو بند گلی سے کیسے نکالے؟ زندگی تھم سی گئی ہے، معاملات اٹکے ہوئے سے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی جارہی۔ سوال صرف قائدین کا نہیں، عوام کا بھی تو ہے۔ قدرت کا بیان کردہ اصول ہے کہ جیسے لوگ ہوتے ہیں ویسے ہی حکمران ہوتے ہیں۔ جب کرپشن پورے معاشرے کو لپیٹ میں لے چکی ہو تو معاملات کے درست کرنے کی راہ مشکل ہی سے ہموار ہو پاتی ہے۔ آج کا ہمارا معاشرہ کچھ کرنے کے بجائے منتظر ہے کہ معاملات خود بخود درست ہو جائیں۔ اس معاملے میں ہم انوکھے نہیں۔ ایشیا اور افریقہ میں درجنوں معاشرے اِسی کیفیت کے حامل ہیں، بے ذہنی و بے عملی کا شکار ہیں۔
ہمارا بنیادی المیہ یہ ہے کہ دل چلا گیا ہے، صرف آنکھیں رہ گئی ہیں۔ بہت کچھ ہے جو دیکھا نہیں جاتا مگر دیکھنا پڑ رہا ہے۔ ایک قوم کی حیثیت سے ہم بند گلی میں کھڑے ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر مزید بے مزا ہوئے جارہے ہیں، مزید بے عملی کے دام میں پھنستے جارہے ہیں۔ اس کیفیت سے چھٹکارا پانے کی فکر میں غلطاں رہنے کے بجائے ہم محض وقت کو دھکا دے رہے ہیں تاکہ کسی نہ کسی طور زندگی تمام ہو اور ہم یہاں سے رخصت ہوں۔ زندگی سی نعمت ہمیں اس لیے تو نہیں ملی کہ یوں ضائع کریں اور پھر کفِ افسوس مَلیں۔ ایک تو زیاں اور پھر اُس کا دکھ نہ پچھتاوہ۔ اللہ کی پناہ! یہ تو ایسی کیفیت ہے کہ ختم نہ ہو تو سبھی کچھ ختم کردے۔ یہاں یہی ہو رہا ہے۔ کسی بھی شعبے میں بہتری اور اصلاح کے حوالے سے سوچنے کی عادت یکسر ترک کردی گئی ہے۔ کچھ کر دکھانے کی لگن ناپید سی ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے وہ دراصل ہونے دیا جارہا ہے۔ ''ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘‘ والی کیفیت کو بسر و چشم اپنالیا گیا ہے۔ زندگی اِس لیے عطا نہیں کی گئی کہ یوں بے ذہنی و بے عملی کی نذر کردی جائے۔ یہ تو ہوش و حواس کا، تعقل کا سودا ہے۔ جن اقوام نے دانش اور عمل کی راہ ترک کی اُن کے انجام سے ہم اچھی طرح واقف ہیں۔ ہمارا بھی یہی حال ہے‘ صرف آنکھیں رہ گئی ہیں جن سے ہم اپنی ہی بربادی کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔ دل کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ انسان جب مر جاتا ہے تو ''باڈی‘‘ یعنی جسد کہلاتا ہے۔ دل کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ اقبالؔ نے کہا ہے ؎
دلِ مردہ دل نہیں ہے، اِسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے اُمتوں کے مرضِ کہن کا چارہ