تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     18-11-2020

ادھورا علم اور نارسائی

مانچسٹر میں پروفیسر راج کا گھر میرا وہ ٹھکانہ تھا جہاں میں اکثر چھٹی والے دن چلا جاتا تھا۔ مانچسٹر کی آکسفورڈ روڈ پر واقع میرے ہاسٹل سے راج کے گھر کا فاصلہ کچھ اتنا زیادہ نہ تھا۔ یہ 80ء کی دہائی کی بات ہے جب میں مانچسٹر یونیورسٹی میں انگلش ڈیپارٹمنٹ کا طالب علم تھا اور راج سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں پڑھاتا تھا۔ وہ عمر میں مجھ سے کچھ ہی بڑا ہوگا۔ اس کا تعلق ساؤتھ انڈیا سے تھا۔ آیا تو وہ یہاں پی ایچ ڈی کے لیے تھا لیکن پھر ہمیشہ کے لیے یہیں رہ گیا۔ راج نے شادی نہیں کی تھی۔ اس کے سائیڈ ٹیبل پر ایک لڑکی کی فریم شدہ تصویر رکھی تھی جس کا نام پاروتی تھا‘ جو کالج میں راج سے جونیئر تھی اور جس کو راج کبھی نہیں بھُلا سکا تھا۔ اس روز مانچسٹر میں سرد ہوا چل رہی تھی‘ جس کا مطلب تھا کہ آج ہم وِٹ ورتھ پارک نہیں جا سکیں گے ورنہ اکثر ایسا ہوتا کہ میں راج کی طرف جاتا اور وہاں سے ہم وٹ ورتھ پارک آجاتے۔ چلتے چلتے راج مختلف موضوعات پر گفتگو کرتا اور میں ایک حیرت زدہ سامع کی طرح اس کی گفتگو سنتا۔ سوشل تھیوری میں میری دلچسپی ہی راج سے دوستی کی بنیاد تھی۔ سچ پوچھیں تو راج سے گفتگو سے میں نے جتنا سیکھا شاید بھاری بھرکم کتابوں سے بھی نہ سیکھ پاتا۔ اس روز مانچسٹر کی سرد ہوا کچھ زیادہ ہی کاٹ دار تھی۔ میں نے سر کو اچھی طرح ڈھانپ رکھا تھا اور ہاتھ لیدر جیکٹ کی جیبوں میں تھے۔ راج سکارزڈیل میں ایک چھوٹے سے کرائے کے مکان میں رہتا تھا۔ مانچسٹر کا موسم بھی عجیب اداس کر دینے والا موسم ہے۔ ان دنوں مجھے یوں لگتا تھاکہ وطن سے دور مانچسٹر کا موسم بھی میری اُداسی کا ایک سبب ہے۔
راج سے میرا پہلا تعارف ایک سیمینار میں ہوا تھا۔ مجھے یاد ہے کس طرح اس کی گفتگو اس کا علم اور اس کی آنکھوں کی چمک نے سامعین کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ میں نے دیکھا‘ وہ یونیورسٹی کے طالب علموں میں بہت مقبول تھا۔ شاید اس کی وجہ اس کی کم عمری تھی یا شاید معلومات پر اس کی گرفت یا پھر اس کا دلآویز انداز۔ وہ کسی بھی موضوع پر گفتگو کرتا تو لگتا وہ اس میں ڈوب گیا ہے اور اس کے سانولے چہرے پر بڑی بڑی روشن آنکھیں اور بھی روشن ہو جاتیں۔ اُس روز آکسفورڈ سٹریٹ پر ٹریفک کم تھی۔ میرے دائیں ہاتھ وٹ ورتھ پارک تھا جو تقریباً خالی پڑا تھا۔ راج کے گھر دروازے کے سامنے پڑے میٹ پر میں نے جوتوں کو صاف کیا اور پھر گھر کی گھنٹی بجائی۔ کچھ ہی دیر بعد قدموں کی چاپ سنائی دی اور راج نے دروازہ کھولا۔ مجھے دیکھ کر اس نے مسکرا کر کہا: ویلکم۔ میں نے جوتے اُتار کر دروازے کے پاس الماری کے نچلے خانے میں رکھے‘ جیکٹ اور مفلر اُتار کر الماری میں ٹانگے۔ راج کہنے لگا: تم بیٹھو میں تمہارے لیے کافی لے کر آتا ہوں۔ میں ڈا ئننگ ٹیبل پر بیٹھ گیا۔ پھر میری نظر چھوٹی سی میز پر رکھی پاروتی کی تصویر پر پڑی جس کے بارے میں راج نے بتایا تھا کہ وہ کالج میں اس کی جونیئر تھی اور جو ایک وعدہ کرکے بھول گئی تھی۔ راج کچن میں کافی بنا رہا تھا اور میں تصویر کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ اُس کی پیشانی پر بندیا تھی‘ اُس کے کٹے ہوئے بال کندھوں تک آرہے تھے اور اس کی آنکھوں میں دلآویز مسکراہٹ تھی۔کچھ ہی دیر میں راج دونوں ہاتھوں میں کافی کے کپ لے کر آگیا اور ڈائننگ ٹیبل میں میرے ساتھ بیٹھ گیا۔
مانچسٹر کے سرد موسم میں کافی کا اپنا ہی لطف ہے۔ میں نے راج سے پوچھا: آج کل وہ کون سی کتاب پڑھ رہا ہے؟ اس کے جواب میں وہ ہنس دیا اور کہنے لگا: آج کل میں ٹیلی پیتھی کے بارے میں پڑھ رہا ہوں۔ میں نے کہا: کیا تم ٹیلی پیتھی پر یقین رکھتے ہو؟ اس نے نگاہ اُٹھا کر کھڑکی کی طرف دیکھا جس کے پردے ہٹے ہوئے تھے۔ باہر تیز سرد ہوا سے درختوں کی ٹہنیاں دُہری ہو رہی تھیں۔ وہ کہنے لگا: ٹیلی پیتھی سے میری دلچسپی پاروتی کی وجہ سے ہوئی‘ اُسے اس طرح کے علوم میں دلچسپی تھی۔ اس کو پورا یقین تھاکہ ہم اپنا پیغام دوسروں کے ذہنوں تک پہنچا سکتے ہیں اور اسی طرح دوسرے کے ذہن کی سوچ پڑھ سکتے ہیں۔ پھر اس نے مجھے بھی اس بات پر قائل کر نے کی کوشش کی کہ میں بھی ٹیلی پیتھی سیکھوں میں اس کی خوشنودی کی خاطر اس کا شاگرد بن گیا اور حیرت انگیز طور پر جلد ہی کچھ ٹیکنیکس سیکھ لیں۔ پاروتی مجھے کہتی تھی کچھ بھی سیکھیں تو دل سے سیکھیں‘ ادھورے علم سے کامیابی نہیں ملتی‘ ادھورا علم دھند اور شور میں کھو جاتا ہے‘ لیکن میں تو محض پاروتی کی خوشنودی کیلئے اس کا شاگرد بن گیا تھا ورنہ ٹیلی پیتھی میں پوری کامیابی حاصل کرکے مجھے کرنا بھی کیا تھا۔ اس لیے پاروتی سے ابتدائی سبق لینے کے بعد میں نے اسے اُدھورا چھوڑ دیا۔ پھر میں مانچسٹر آ گیا۔ ایک دن سٹین فورڈ یونیورسٹی میں ہونے والی ایک تحقیق نے مجھے چونکا دیا‘ جس میں لیبارٹری میں Remote Viewing کے حوالے سے تجربات کیے گئے تھے‘ جن سے یہ سامنے آیا کہ دوردراز کے علاقے یا واقعے کو ذہن کی تیسری آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے۔ سٹین فورڈ یونیورسٹی کے اس تجربے میں Pat Price بھی شامل تھا‘ جس کے پاس ایسی صلاحیتیں تھیں جن کی بدولت وہ کمرے کے اندر چھپائی ہوئی کوئی چیز یا لفافے کے اندر کوئی دستاویز یا دور دراز ہونے والے کسی واقعے کی تصویر کشی کر سکتا تھا۔ اس پراجیکٹ کی کامیابی دیکھ کر امریکہ کے ڈیفنس ڈیپارٹمنٹ نے فیصلہ کیا کہ Remote Viewing کو دفاعی مقاصد کیلئے استعمال کیا جائے۔ یہ ایک مختصر ٹیم تھی جس نے دشمن کے کئی جاسوسوں کا سراغ لگایا‘ گم شدہ سب میرین کو ڈھونڈا اور کئی مشکل کیس حل کرنے میں مدد کی۔ Pat Price کہنا تھا کہ جو چیز زیادہ احتیاط سے چھپائی جائے وہ اس کے ذہن میں اتنی ہی روشن ہو کر سامنے آتی ہے۔ Pat Price نے Remote Viewing کے ذریعے روس کی ایک خفیہ انسٹالیشن کے حوالے سے ایک کرین کی ڈرائنگ بنائی جس کی امریکہ کے سیٹلائٹ سے بھیجی گئی تصویر سے حیرت انگیز مشابہت تھی۔ اس نے Remote Viewing کے ذریعے ایک ڈرائنگ بنا کر بتایا کہ روسی انسٹالیشن میں بہت سے لوگ لوہے کا ایک گنبد بنا رہے ہیں جس کا ڈایا میٹر 60 میٹر ہے۔ ان معلومات کی تصدیق تین سال بعد ہوئی جب Pat Price کا انتقال ہو چکا تھا۔ اس کی موت پراسرار حالات میں ہوئی تھی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں: موت کی وجہ سی آئی اے سے اس کی وابستگی تھی۔ کہتے ہیں اسے اپنی موت کا پہلے سے پتہ چل گیا تھا اور اس نے اپنے دوستوں کو خدا حافظ کہہ دیا تھا۔
میں غور سے راج کی باتیں سن رہا تھا۔ اچانک وہ چپ ہو گیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ خاموش ہے‘ اس کی نگاہیں میز پر رکھی پاروتی کی تصویر پر ہیں اور اس کی آنکھوں میں عجیب سی اداسی ہے۔ میں نے کہا: راج تم تو کہتے تھے تم نے ٹیلی پیتھی کے کچھ سبق پڑھے تھے‘ کیا ٹیلی پیتھی سے تم پاروتی سے رابطہ نہیں کر سکتے؟ وہ مسکرایا اور سر جھٹک کر بولا: تم کیا سمجھتے ہومیں نے کوشش نہیں کی ہوگی؟ پھر جیسے وہ اپنے آپ سے باتیں کرنے لگا ''کبھی کبھار میں سوچ کا ارتکاز کرتا ہوں تومجھے یوں لگتا ہے کہ میں اس سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہوگیا ہوں لیکن پھر اچانک ایک دھند چھا جاتی ہے اور میں اس کا چہرہ نہیں دیکھ پاتا‘ ہواؤں کا شور ہے اور میں اس کی گفتگو سن نہیں سکتا۔ پھر مجھے پاروتی کی بات یاد آتی ہے کہ کوئی بھی چیز سیکھیں تو دل سے سیکھیں‘ ادھورے علم سے کامیابی نہیں ملتی‘ ادھورا علم دھند اور شور میں کھو جاتا ہے۔ آج مجھے احساس ہوا پاروتی ٹھیک ہی کہتی تھی‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved